افغانستان میں قیامِ امن کے مشکل مراحل

October 28, 2020

اکتوبر کا آخری ہفتہ بھی افغانستان کے لیے کوئی اچھی خبر نہیں لایا۔ اس دوران میں کابل کے ایک تعلیمی ادارے میں خودکش حملہ ہوا جس سے کم از کم پچیس افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہو چکی اور مزید درجنوں شدید زخمی ہیں۔

یہ حملہ ایک نجی تعلیمی ادارے کے باہر کیا گیا جاں طلبا و طالبات کو اعلیٰ تعلیم دی جاتی ہے۔ واضح رہے کہ یہ تعلیمی ادارہ ان مراکز میں شامل ہے جہاں زیادہ تر شیعہ طالبِ علم سینکڑوں کی تعداد میں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ طالبان نے اس حملے میں ملوث ہونے سے انکار کیا ہے اور افغان حکام بھی اس حملے کو انتہاپسند تنظیم جو اپنا نام دولتِ اسلامیہ بتاتی ہے کے سر ٹھہرایا ہے۔

امریکا اور طالبان کے درمیان رواں سال فروری میں ہونے والے معاہدے اور اس کے بعد اشرف غنی کی طرف سے طالبان قیدیوں کی رہائی سے یہ اُمید ہو چلی تھی کہ شاید اب افغانستان میں قیام امن کے مشکل مراحل آسان ہو جائیں گے مگر حالیہ ہفتوں میں افغانستان میں تشدد کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہی دیکھنے میں آیا ہے۔

فروری 2020ء میں امریکا، طالبان معاہدے کے تقریباً چھ ماہ بعد افغان حکومت اور طالبان نے بھی اپنی بات چیت کو آگے بڑھایا اور رواں برس ستمبرمیں ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے جس کے تحت دونوں فریق تشدد ختم کرنے اور ایک دُوسرے پر حملے روکنے پر راضی ہوگئے تھے، مگر اَب بتدریج افغان عوام کے غم و غصّے کے علاوہ خوف میں بھی اضافہ ہو رہا ہے، کیوں کہ نام نہاد دولتِ اسلامیہ جیسی کئی انتہاپسند تنظیمیں ہیں جو سنّی اور شیعہ دونوں آبادیوں کو نشانہ بناتی ہیں مگر اس میں زیادہ نقصان شیعہ آبادی کا ہوتا ہے۔

دو سال قبل بھی کابل کے ایک ٹیوشن سینٹر پر حملہ ہوا تھا جس میں تقریباً ایک درجن نوعمر ہلاک ہوگئے تھے اور اُس حملے کی ذمہ داری بھی دولتِ اسلامیہ نے قبول کر لی تھی، پھر رواں برس مئی کے مہینے میں بھی کابل کے ایک اسپتال میں زَچّہ و بچّہ وارڈ کو نشانہ بنایا گیا تھا اور مسلح افراد نے وارڈ میں گھس کر اندھادُھند فائرنگ کر دی تھی جس سے دو درجن سے زیادہ خواتین اور بچّے ہلاک ہوگئے تھے، جب کہ زخمی ہونے والوں کی تعداد بھی اس سے کہیں زیادہ تھی۔

اکیس اکتوبر 2020ء کو بھی پاکستانی ویزا کے لیے جلال آباد میں جمع ہونے والے ہجوم میں بھگدڑ مچنے سے ایک درجن سے زیادہ خواتین ہلاک ہوگئی تھیں۔ ہوا یہ تھا کہ پاکستانی قونصل خانے نے ویزا کے درخواست گزاروں کو ایک وسیع گرائونڈ میں جمع ہونے کے لیے کہا تھا۔ یاد رہے کہ جلال آباد افغانستان کے صوبے ننگرہار میں واقع ہے جہاں سے ہزاروں افراد روزانہ پاکستان آتے جاتے رہے ہیں۔

لیکن کورونا کی وبا آنے کے بعد پاکستان نے ویزے کی سہولت معطل کر دی تھی، اب جب یہ معطلی ختم ہوئی تو ہزاروں افراد پاکستانی ویزے کے حصول کے لیے سرگرداں تھے۔ پاکستانی قونصل خانے نے سب کو ایک بڑے فٹ بال اسٹیڈیم میں جمع ہونے کا کہا تو ظاہر ہے وہاں دھکم پیل تو ہونا ہی تھی جس کے نتیجے میں بھگدڑ مچی اور درجنوں افراد ہلاک ہوگئے جن میں زیادہ خواتین تھیں۔

اس کے علاوہ پندرہ اکتوبر کو پاکستان کے ضلع خیبر میں افغانستان جانے والے سامان کے قافلے پر بھی حملہ ہوا تھا۔ یہ قافلہ غیرملکی افواج کے لیے ساز و سامان لے جا رہا تھا اور حملے میں ٹرالروں اور گاڑیوں میں آگ لگائی گئی تھی۔ یہ کارروائی بڑی منظم طریقے سے کی گئی،اس میں کوئی درجن بھر مسلح افراد نے حصہ لیا جنہوں نے ٹرالر روک کر عملے کو اُتارا اور گاڑیوں پر تیل چھڑک کر آگ لگا دی۔

جنرل مشرف کے دور سے جب پاکستان نے نیٹو افواج کو محفوظ راہ داری دینے کا اعلان کیا تھا اس وقت سے ان غیرملکی افواج کو سامان پہنچانے کے لیے پاکستان سے دو راستے استعمال کیے جا رہے ہیں۔ ایک تو کراچی سے براستہ بلوچستان ہے جو چمن سے ہوتا ہوا افغانستان جاتا ہے، جب کہ دُوسرا راستہ بھی کراچی سے ہی شروع ہوتا ہے اور خیبر پختونخوا سے ہوتا ہوا طورخم جاتا ہے جہاں سے ساز و سامان کے یہ قافلے افغانستان میں داخل ہو جاتے ہیں۔

گزشتہ چند برسوں سے اس طرح کے حملوں میں خاصی کمی آ ئی تھی لیکن اب ایک طویل عرصے بعد یہ حملے ہوئے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ قبائلی علاقوں میں کئی کالعدم تحریکیں اب بھی سرگرم عمل ہیں اور بوقت ضرورت کارروائیاں کرتی ہیں۔ اسی طرح ڈرون حملے جو پہلے نیٹو افواج کی طرف سے متواتر ہوتے رہے تھے اب ان میں بھی خاصی کمی ہو چکی ہے۔

یاد رہے کہ 2013ء میں جب تحریک انصاف نے خیبرپختونخوا میں اپنی پہلی صوبائی حکومت تشکیل دی تھی اس وقت عمران خان نے ڈرون حملے بند کرنے کا مطالبہ کیا تھا اور طورخم کے راستے نیٹو کو سامان کی فراہمی بند کر دی تھی۔ تحریک انصاف نے اپنی حکومت قائم ہونے سے قبل بھی حیات آباد کے مقام پر پشاور میں دھرنا دے کر نیٹو کو رَسد بند کر دی تھی۔

نیٹو کی گاڑیوں پر حملوں کو اب بارہ سال سے زیادہ گزر چکے ہیں کیوں کہ اس طرح کے اوّلین حملے 2008ء میں شروع ہوئے۔ یعنی جب تک جنرل مشرف کی حکومت جاری رہی نیٹو کو بلارُکاوٹ ترسیل بھی چلتی رہی اور خود جنرل مشرف نے اپنے نو سالہ دورِ اقتدار میں امریکا کو مسلسل مدد جاری رکھی۔

جنرل مشرف کے اقتدار سے بے دخل ہونے کے بعد پاکستان اور نیٹو کے تعلقات خراب ہوتے گئے،خاص طور پر 2011ء میں جب پاک افغان سرحد پر موجودہ ضلع مہمند میں سلالہ کے مقام پر نیٹو نے پاکستان کے علاقے پر حملہ کیا جس میں ہیلی کاپٹر اور جنگی طیاروں کے ذریعے پاکستانی چوکیوں کو نشانہ بنایا گیا۔ وہ حملہ بہت جان لیوا ثابت ہوا اور اس میں چوبیس پاکستانی اہلکار ہلاک ہوگئے تھے۔

اس وقت پاکستان کے سپہ سالار جنرل اشفاق پرویز کیانی تھے جنہوں نے نہ صرف اس حملے کی تحقیقات کا مطالبہ کیا بلکہ نیٹو سپلائی پر پاکستان کی حدود استعمال کرنے پر پابندی عائد کر دی گئی تھی، پھر امریکا نے معافی تلافی کر کے قافلوں کی رَسد بحال کرائی تھی۔اب اس خطّے میں قیام امن کی رُکاوٹوں میں صرف افغانستان کے اندر کے حملے نہیں بلکہ پاکستان کے افغانستان سے ملنے والے سرحدی علاقوں میں ہونے والے حملے بھی ہیں مثلاً اسی اکتوبر کے مہینے کے وسط میں بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں پاکستانی اہل کاروں پر حملے خاصے بڑھ گئے ہیں۔ شمالی وزیرستان میں ہونے والے حملے میں رزمک کے قریب حملے میں پاکستانی فوج کے ایک کیپٹن، دو نائب صوبے دار، ایک حوالدار اور لانس نائیک وغیرہ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ اسی دوران بلوچستان کے ضلع گوادر کی تحصیل اورماڑہ میں بھی ایک حملے میں ایف سی کے آٹھ اہلکار اور سات سویلین نشانہ بنے تھے۔

اس طرح ہم دیکھ رہے ہیں کہ افغانستان کی سرحد کے قریب پاکستانی علاقے وقتاً فوقتاً حملوں کا شکار ہوتے رہے ہیں اور زیادہ پر حملے تحریک طالبان پاکستان یا اس سے ملتی جلتی تنظیمیں کرتی ہیں، خاص طور پر محسود قبائل کے علاقے تو پچھلے بیس سال میں غالباً سب سے زیادہ متاثر رہے ہیں۔

افغانستان میں قیام امن کی راہ میں رُکاوٹ کا ایک محاذ جنگ ہلمند بھی ہے جہاں متواتر گولہ باری ہوتی رہتی ہے اور طالبان اپنے مذاکرات بھی جاری رکھتے ہیں ساتھ ساتھ ہلمند کے صوبے کو بری طرح نشانہ بھی بناتے رہتے ہیں۔ ہلمند کا صوبائی دارالحکومت لشکر گاہ ہے، جہاں اب لوگ آس پاس کے علاقوں کے ہجرت کر کے آ رہے ہیں، تا کہ طالبان کے حملوں سے پناہ حاصل کر سکیں۔مثال کے طور پر اکتوبر کی دس تاریخ کو طالبان نے ایک بڑا حملہ کیا، جس کے جواب میں افغان فوج نے کارروائی کی مگر علاقے کے لوگ اس لڑائی میں دونوں طرف سے مارے جاتے ہیں۔ ہلمند کے علاقوں پر کبھی طالبان قابض ہو جاتے ہیں اور کبھی افغان فوج۔

ستمبر میں ہونے والے افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات سے بڑی توقعات وابستہ تھیں۔ ان مذاکرات میں پاکستان اور قطر نے خاصا اہم کردار ادا کیا اور مذاکرات کی آن لائن افتتاحی تقریب میں بھارت کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے بھی حصہ لیا تھا جب کہ قطر کے دارالحکومت دوحہ میں بھارت کے جوائنٹ سیکرٹری خارجہ جے پی سنگھ بھی شامل رہے۔

اصل میں طالبان کی افغان اقتدار میں شرکت میں سب سے بڑی رُکاوٹ طالبان کا رویہ ہے۔ اپنے پانچ سالہ دورِ اقتدار میں 1996ء سے 2001ء تک طالبان نے افغانستان میں جو کام کیے وہ کسی طرح بھی اس خطّے میں قیام امن کے لیے معاون نہیں ہو سکتے تھے۔ آج کے دور میں ایک قرونِوسطیٰ جیسی ریاست کا قیام جدید دُنیا اور اس کے لوگ کسی طرح بھی قبول نہیں کر سکتے تھے۔ صرف پاکستان، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات وہ دُنیا کے تین ممالک تھے جنہوں نے طالبان کی حکومت کو تسلیم کیا تھا۔اب بھی افغانستان اور پاکستان کے طالبان ایک ہی سکّے کے دو رُخ ہیں کیوں کہ دونوں کا نصب العین اور حکمتِ عملی ایک جیسی ہے۔

طالبان کا کھلم کھلا مؤقف یہ ہے کہ وہ ایک تھیوکریسی یا مذہبی ریاست تشکیل دینا چاہتے ہیں جہاں خود ان کی مذہبی تشریحات کو ہر چیز پر یعنی ریاست اور معاشرے دونوں پر فوقیت حاصل ہوگی اور اس نصب العین کے حصول کے لیے جو حکمتِ عملی ہے وہ تشدد کے استعمال سے دریغ نہیں کرتی اسی لیے ہم نے دیکھا کہ پچھلے پچیس برس میں طالبان چاہے افغانستان میں ہوں یا پاکستان میں مسلسل پرتشدد کارروائیاں کرتے رہے ہیں۔وہ حملوں میں سویلین آبادی اور خواتین و بچوں کو نشانہ بنانے سے بھی دریغ نہیں کرتے پھر خواتین کے بارے میں ان کے رویے انتہائی قدامت پرستانہ اور فرسودہ ہیں جو آج کے معاشرے میں کوئی بھی ذِی شعور انسان قبول نہیں کر سکتا۔

اسی لیے افغانستان یا پاکستان کے سرحدی علاقوں میں طالبان کا ایک بار پھر مضبوط ہونا اس خطّے کے لیے کوئی نیک شگون نہیں ہے۔ خود پاکستان طالبان کے ہاتھوں بڑے نقصان اُٹھا چکا ہے اور آرمی پبلک اسکول میں سینکڑوں طالب علم جب طالبان کا نشانہ بنے تو یہ تاریخ کا ایک تاریک ترین اور افسوس ناک باب تھا۔

اس سارے ماضی کے ساتھ اور حالیہ پرتشدد کارروائیوں کے بعد بھی اگر کوئی طالبان کی طرف نرم گوشہ رکھتا ہے تو ان کی عقل و دانش پر ماتم ہی کیا جا سکتا ہے۔ طالبان سے یہ توقع رکھنا کہ وہ اقتدار میں آنے کے بعد سُدھر جائیں گے ایک مکمل خام خیالی ہے جس کی کوئی بنیاد نہیں اور ان کا قتدار میں آنا اس خطّے کے لیے خطرناک ہوگا۔پھر اس میں بھارت کا بھی کردارہے جس نے گزشتہ تقریباً دو عشروں میں افغان حکومت کی خاصی مدد کی ہے اور وہاں بنیادی سہولتیں بہتر بنانے میں سرمایہ کاری کی ہے، جن میں سڑکوں، تعلیمی اداروں اور اسپتالوں وغیرہ کی تعمیر شامل ہے۔ اب بھی ڈیڑھ دو ہزار بھارتی افغانستان میں موجود ہیں جو مختلف شعبوں میں کام کر رہے ہیں اس لیے بھارت بھی افغانستان میں طالبان کی مضبوطی سے خوش نہیں ہے اور وہاں اپنی گرفت مضبوط رکھنا چاہتا ہے۔

ایسی صورت حال میں بھارت اور پاکستان کو افغانستان کی تعمیر کے لیے مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے نہ کہ وہاں ایک دُوسرے کے خلاف نیابتی یا پراکسی جنگ جاری رکھی جائے۔ اگر طالبان حکومت میں شامل ہوتے ہیں تو پوری کوشش کی جانی چاہیے کہ افغانستان میں مذہبی آزادی، خواتین اور اقلیتوں کے حقوق اور صحافتی آزادی وغیرہ کو یقینی بنایا جائے۔

گو کہ افغانستان بھارت اور خود پاکستان ان معاملوں میں قابل رشک کارکردگی نہیں رکھتے، پھر بھی وہ طالبان کے تصوّرِ زندگی سے بہت بہتر ہیں جس طرح ہم پاکستان میں نہیں چاہیں گے کہ یہاں طالبان کی حکومت قائم ہو، اسی طرح ہمیں افغانستان میں طالبان کی حکومت کے قیام کے بارے میں بہت محتاط رویہ اپنانے کی ضرورت ہے۔

طالبان کی دہشت گردی پر پھیلا ایک طویل ماضی ہے جو حال میں بھی ان کو مذاکرات کے باوجود حملوں سے باز نہیں رہنے دیتا ایسے میں اگر طالبان افغانستان میں برسراقتدار آ گئے تو اس پورے خطّے میں ایک پرانے ماضی کا نیا دور شروع ہو سکتا ہے، جس کی اس پورے خطّے کو بھاری قیمت چُکانا ہوگی۔