تعلیم، تعلیم نہ رہی

November 07, 2020

تعلیم کسی بھی قوم یا معاشرے کےلئے ترقی کی ضامن ہوتی ہے ۔یہی قوموں کی ترقی اور زوال کی وجہ بنتی ہے۔ تعلیم حاصل کرنے کا مطلب صرف کالج یونیورسٹی سے کوئی ڈگری لینا ہی نہیں بلکہ اس کے سا تھ تمیز اور تہذیب سیکھنا بھی شامل ہے، تاکہ انسان اپنی معاشرتی روایات اورا قدار کا خیال رکھ سکے۔تعلیم شعور پیدا کرتی ہے۔

لیکن لگتا ہے آج کا نوجوان تعلیم صرف نوکری کے حصول کے لیے حاصل کر رہا ہے۔اسے معلوم ہی نہیں کہ قدرت نے اس کے دل ودماغ کے اندر ایسے محرکات پوشیدہ رکھےہیں کہ وہ سمندر کی گہرائیوں تک پہنچ سکتا ہے‘ آسمان کی وسعتوں کو مسخر کرسکتا ہے۔لیکن اس کی سوچ کو معاشی اور معاشرتی گرداب نےشکنجے میں جکڑ کر رکھ دیا ہے۔

وہ اپنی چھپی صلاحیتوں کو اجا گر ہی نہیں کر پاتا۔ ہمارے نظام تعلیم نے بھی تعلیم کے مقاصد کو محدود کر دیا ہے۔ مختلف نظام تعلیم کی وجہ سے قومیت کا نظریہ پروان نہیں چڑھ رہا۔ کہیں اردو اور کہیں انگریزی زبان نے پوری قوم کو کنفیوژ کر دیا ہے۔طالب علموں کو لگتا ہے کہ کتابیں صرف ’’یاد‘‘ کرنے کے لے ہی ہوتی ہیں۔ وہ اِن کتابوں کا صحیح استعمال سیکھ ہی نہیں پاتے اور اپنی عملی زندگی میں ناکام رہتے ہیں۔

بچے کو اس کے بچپن سے ہی اس کے ذہن میں یہ بات ڈال دی جاتی ہے کہ میرا بیٹا ڈاکٹر بنے گا، انجینیئر بنے گا، پائلٹ بنے گا، افسر بنے گا، بینک آفیسر بنے گا ایسے میں اس کے سوچنے سمجھنے کی جو انفرادی قوتیں ہیں وہ مفلوج ہو کر رہ جاتی ہیں، اسے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہاں اس کی قابلیت نہیں دیکھی جائے گی ، دیکھا جائے گا تو صرف نمبر۔ گھوم پھر کر بات وہیں آ جاتی ہے کہ بچہ پڑھ لکھ کر اچھے نمبر لے کر کچھ بھی کر لے لیکن بس نوکری مل جائے تو ان سب میں علم کہاں ہے؟اب ایسے حالات میں کیسے تصور کیا جا سکتا ہے کہ کوئی علم کے لئے ڈگری حاصل کرے گا؟ اور کیسے اس قوم میں عالم و مفکر پیدا ہوں گے۔ ہمارے ملک میں نہ جانے کتنے ہی ڈگری یافتہ بے روزگار ہیں، جس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے اندر کے ہنر کو شاید پہچان نا سکے اور اگر پہچان بھی لیا تو اس کی بے قدری دیکھ کر مایوس ہوگئے ۔

کچھ بیروزگار گریجویٹس تعلیم کو ایک مختلف نظر سے دیکھتے ہیں۔ اعلیٰ تعلیم سے حاصل شدہ ذہنی صلاحیتوں کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہیں، لیکن پھر بھی تعلیم کو سخت مقابلے کے ماحول میں ملازمت حاصل کرنے کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ سیکھنے کا عمل غیر اہم نہیں ہوتا، لیکن زیادہ مارکس اورملازمت حاصل کرنے کے چکر میں یہ کہیں گم ہوجاتا ہے۔ تعلیم کا ایک اور مقصدسرکاری ملازمتوں کا حصول بھی ہے اور اس ریس میں نمبر اور ڈگریاں بہت اہمیت رکھتی ہیں۔ ایک طرح سے دیکھا جائے تو یہ سخت مقابلہ صرف نام، اچھی تنخواہ، اور مراعات حاصل کرنے کے لیے ہے۔ان اقتصادی دباؤ میں آج تعلیم کے معانی کیا ہیں؟ تعلیم کے بارے میںمختلف نظریات ہیںلیکن ان میں ایک بات مشترک ہے، کہ تعلیم نیچے سے اوپر جانا ممکن بناتی ہے۔ لیکن دیگر نظریات ایک دوسرے سے مختلف ہوجاتے ہیں، وہ یہ کہ تعلیم کس طرح ان امیدوں پر پورا نہیں اتر پاتی، جن کو وہ جنم دیتی ہے۔

یہ فرق اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ تعلیم اسٹیٹس اور طاقت کے سسٹم سے کس قدر گہری جڑگئی ہے۔صدیوں قبل دنیا بھر کے تقریباً تمام ممالک، اقوام اور معاشرے تعلیم کی افادیت و اہمیت سے بخوبی واقف ہو چکے تھے، لیکن اس کے باوجود تعلیم کا حقیقی حصول تاحال ایک سوال ہے۔ ہم نے تعلیم حاصل کرنے کا مقصد تعلیم برائے تعلیم نہیں بلکہ تعلیم برائے ملازمت سمجھ لیا ہے۔ آج اگر تعلیم کی بات کی جائے تو ساتھ میں یہ بھی اکثر پوچھا جاتا ہے کہ اس کے بعد کون سی نوکری ملے گی۔

متوسط اور غریب طبقے کی زندگی کا مقصد معاشی حالات کی بہتری ہوتا ہے، مگر ایسا کم ہی ہوا کہ اس مقصد کے حصول کے لیے کبھی نوکری سے ہٹ کے بھی کوئی راستہ سوچا جائے کیونکہ سوچوں کا دائرہ تو بچپن میں ہی محدود کر دیا جاتا ہے، لہذا امکانات پر غور اور محدود وسائل کے استعمال کا کوئی اچھوتا خیال کسی نوجوان کو چھو کر بھی نہیںگزرتا۔ہمارے معاشرے میں پنپنے والی اس سوچ کا زبردست نقصان یہ ہوا کہ کاروباری دنیا نئے آئیڈیاز، جدت پسند سوچ اور نوجوان نسل کےجوش ،ولولے اور کچھ کر دکھانے کے عزائم سے محروم اور جمود کا شکار ہوتی جارہی ہے۔

تعلیم کا مقصد جو آنے والی نسلوں کی تیاری، مستقبل کی سائنسی و ٹیکنالوجیکل ترقی ،نت نئی ایجادات و کاروبار، معاشی و اقتصادی و خوشحالی، ایک مضبوط اور ہم آہنگ قوم کی ضمانت اور بنیاد ہوتا ہے ، اس کو صرف اور صرف نوکری پیشہ افراد کو پیدا کرنے تک محدود کر دیا گیاہے۔ ہمارے یہاں امریکی، یورپی ،جاپانی، چینی کامیاب لوگوں کی مثالیں دیتے نہیں تھکتے لیکن کیا ہم نے کبھی غور کیا، کبھی سوچا ، کبھی تحقیق کی کہ ان میں کتنے لوگ ہیں جو نوکری پیشہ تھے یا ہیں، کتنے لوگ ہیں، جنہوں نے اپنی کاروباری سلطنت کا آغاز ایک معمولی سی دوکان یا ٹھیلے سے کیا یا اپنے کاروبار کا آغاز لوگوں کے گھر گھر پھر کر کیا؟

مسئلہ ترقی کی کمی کا نہیں ہے، بلکہ طبقے اور طاقت کا ہے جو لوگوں کو ملازمت فراہم کرتا ہے۔ پاکستان میںنوجوان نسل کے مسائل کا حل یا ان کے مستقبل کے لیے بہتر مواقع فراہم کرنے کی بحث حکومتی ترجیحات میں کہیں دور ہی معلوم ہوتی ہے۔بدقسمتی سے ہمارے ملک میں تعلیم کے حقیقی مقاصد کے حوالے سے کی جانے والی کوششیں آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔ناقص پالیسیوں سے تعلیم مہنگی اور غریب کی پہنچ سے دور ہے۔

کمزور معاشی پالیسیوں کی بدولت آج پاکستانیوں کی اکثریت بدحالی کا رونا رو رہی ہے، ایسے میں وہ اپنے بچوں کو تعلیم کے اصل مقاصد کی طرف لے جانے میں ناکام ہیں۔ تعلیم کے حصول کے حقیقی مقاصد کو پانے کے لئے حکومت، والدین اور اساتذہ کو اپنا اپنا حصہ ڈالنے کی ضرورت ہے۔کیوں کہ روشن، مضبوط اور ترقی یافتہ پاکستان کے لئے حقیقی مقاصد کے ساتھ تعلیم کا حصول ناگزیر ہے۔

تعلیم یافتہ نوجوان، قلم اُٹھائیں اور لکھیں درج ذیل عنوان پر:

زندگی، تجربات کا دوسرا نام ہے۔ ہر انسان کی زندگی میں اتار چڑھاؤ آتے رہتے ہیں، جن سے کچھ سیکھ لیتے ہیں، کچھ ٹھوکر کھا کر آگے چل پڑتے ہیں، پچھتاتے اُس وقت ہیں، جب کسی مسئلے سے دوچار ہوجاتے ہیں، مگر حل سمجھ نہیں آتا۔ دکھ سکھ، ہنسی خوشی، یہ سب زندگی کے رنگ ہیں، جن سے کھیلا جائے تو بہت کچھ حاصل ہوتا ہے۔ مشاہدے میں آیا ہے کہ، آج کا نوجوان زندگی سے مایوس ہوتا جا رہا ہے۔ ایک تجربے کے بعد دوسرا تجربہ کرتا ہے، جب پے در پے ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو وہ مایوسی کا شکار ہو جاتا ہے۔ لیکن زندگی کے تجربات بہت کچھ سکھاتے ہیں۔ ہم نے آپ کے لیے ایک سلسلہ بعنوان،’’ہنر مند نوجوان‘‘ شروع کیا ہے، اگر آپ تعلیم یافتہ ہنر مند نوجوان ہیں تو اپنے بارے میں لکھ کر ہمیں ارسال کریں، ساتھ ایک عدد پاسپورٹ سائز تصویر اور کام کے حوالے سے تصویر بھیجنا نہ بھولیں۔اس کے علاوہ ایک اور سلسلہ ’’میری زندگی کا تجربہ‘‘کے نام سے بھی شروع کیا ہے، جس میںآپ اپنےتلخ وشیریں تجربات ہمیں بتا سکتے ہیں۔ بہت ممکن ہے کہ آپ کے تجربات یا تجربے سے دیگر نوجوان کچھ سیکھ لیں۔

ہمارا پتا ہے:

’’صفحہ نوجوان‘‘ روزنامہ جنگ، میگزین سیکشن،

اخبار منزل،آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی۔