اپنے ارد گرد کی سرگوشیاں سنو!

November 28, 2020

ڈاکٹر اعظم رضا تبسم

ایک نوجوان بزنس مینیجر اپنی برانڈ کار میں دفتر سے گھر جاتے ہوئے ایک پسماندہ علاقے سے گزرا ، اچانک اس نے ایک چھوٹے بچے کو بھاگ کر سڑک کی طرف آتے دیکھا تو گاڑی کی رفتارآہستہ کردی. پھر اس نے بچے کو کوئی چیز اچھالتے دیکھا. ٹھک کی آواز کے ساتھ ایک اینٹ اس کی نئی کار کے دروازے پر لگی ،اس نے فوراً بریک لگائی اور گاڑی سے نکل کر دروازہ دیکھا جس پر کافی بڑا ڈینٹ پڑ گیا تھا

اس نے غصے سے ابلتے ہوئے بھاگ کر بچے کو پکڑا اور زور سے جھنجھوڑ ہوئے کہا، "اندھے ہوگئے ہو، پاگل کی اولاد؟ تمہارا باپ اس کے پیسے بھرے گا؟" وہ زرو سے دھاڑا

میلی کچیلی شرٹ پہنے بچے کے چہرے پر ندامت اور بے چارگی کے ملے جلے تاثرات تھے۔

"سائیں، مجھے کچھ نہیں پتہ میں اور کیا کروں؟ میں ہاتھ اٹھا کر پھاگتا رہا مگر کسی نے میری گل نئیں سنی." اس نے ٹوٹی پھوٹی اردو میں کہا، پھراچانک اس کی آنکھوں سے آنسو ابل پڑے اور اس سڑک کے ایک نشیبی علاقے کی طرف اشارہ کرکے کہا "ادھر میرا ابا گرا پڑا ہے. بہت بھاری ہے. مجھ سے اُٹھ نہیں رہا تھا، میں کیا کرتا سائیں؟".

بزنس مینجر کے چہرے پر حیرانی سی در آئی اور وہ بچے کے ساتھ نشیبی علاقے کی طرف گیا، جہاں اس نے ایک عجیب و غریب منظر دیکھا. ایک معذور شخص اوندھے منہزمین پر پڑا ہوا تھا، ساتھ ہی ایک ویل چیئر گری پڑی تھی۔ صاف لگ رہا تھا کہ باپ کابھاری بھرکم جسم کے باعث بچے سے ویل چیئر سنبھالی نہیں جاسکی تھی ۔پکے ہوئے چاول بھی زمین پر گرے ہوئے تھے جو شاید باپ بیٹا کہیں سے مانگ کے لائے تھے۔

"سائیں، مہربانی کرو. میرے ابے کو اٹھا کر کرسی پر بٹھا دو." اب میلی شرٹ والا بچہ باقاعدہ ہچکیاں لے رہا تھا.

مینیجرکے گلے میں جیسے ہھندہ سا لگ گیا. اسے سارا معاملہ سمجھ میں آگیا تھا ،اب اسے اپنے غصے پر ندامت محسوس ہورہی تھی ۔اس نے اپنے سوٹ کی پرواہ کیے بغیر آگے بڑھ کر پوری طاقت سے کراہتے ہوئے معذور شخص کو اٹھایا اور کسی طرح ویل چیئر پر بٹھا دیا. اُس کی حالت غیر تھی اور چہرہ خراشوں سے بھرا پڑا تھا،پھر وہ بھاگ کر اپنی گاڑی کی طرف گیا اور بٹوے میں سے دس ہزار روپے نکالے اور کپکپاتے ہاتھوں سے معذور کی جیب میں ڈال دیے۔پھر اس نے ٹشو پیپر سے اس کی خراشوں کو صاف کیا اور ویل چیئر کو دھکیل کراس کے گھر تک لایا. بچہ ممنونیت سے اسے دیکھتا رہا ۔

اس کا باپ مسلسل آسمان کی طرف ہاتھ اٹھاتے ہوئے نوجوان کو دعائیں دے رہا تھا۔ بعد ازاںنوجوان نے بعد میں ایک خیراتی ادارے کے تعاون سے جھگی میں رہنے والوں کے لیے ایک جھگی ا سکول قائم کیا اور آنے والے سالوں میں وہ بچہ بہت سے دوسرے بچوں کے ساتھ پڑھ لکھ کر زندگی کی دوڑ میں شامل ہوگیا۔

مینیجر کے پاس وہ کار اس واقعے کے بعد پانچ سال مزید رہی، تاہم اس نے ڈینٹ والا دروازہ مرمت نہیں کرایا. کبھی کوئی اس سے پوچھتا ، کار میں عیب ہے، اسے صحیح تو کرالو۔تو وہ یہی کہتا "زندگی کی دوڑ میں اتنا تیز نہیں چلنا چاہیے کہ کسی کو اینٹ مار کر گاڑی روکنی پڑے". سننے والا اس کی بات سن کر اور اس کی آنکھوں میں نمی دیکھ کر قدرے حیران ہوتا اور پھر سمجھتے، نہ سمجھتے ہوئے سر ہلا دیتا.

اوپر والا کبھی ہمارے کانوں میں سرگوشیاں کرتا ہے اور کبھی ہمارے دل سے باتیں کرتا ہے. جب ہم اس کی بات سننے سے انکار کردیتے ہیں تو وہ کبھی کبھار ہمارے اوپر ایک اینٹ اچھال دیتا ہے. پھر وہ بات ہمیں سننا پڑتی ہے. جہاں ہم اپنے خاندان، بیوی بچوں کی خوشیوں کے لیے بھاگے جارہے ہیں، وہیں ہمارے آس پاس بہت سی گونگی چیخیں اور سرگوشیاں بھی بکھری پڑی ہیں. کیا ہی اچھا ہو کہ ہم اپنے ارد گرد کی سرگوشیاں سن لیں تاکہ ہم پر اینٹ اچھالنے کی نوبت نہ آسکے. آمین

تعلیم یافتہ نوجوان، قلم اُٹھائیں اور لکھیں درج ذیل عنوان پر:

زندگی، تجربات کا دوسرا نام ہے۔ ہر انسان کی زندگی میں اتار چڑھاؤ آتے رہتے ہیں، جن سے کچھ سیکھ لیتے ہیں، کچھ ٹھوکر کھا کر آگے چل پڑتے ہیں، پچھتاتے اُس وقت ہیں، جب کسی مسئلے سے دوچار ہوجاتے ہیں، مگر حل سمجھ نہیں آتا۔ دکھ سکھ، ہنسی خوشی، یہ سب زندگی کے رنگ ہیں، جن سے کھیلا جائے تو بہت کچھ حاصل ہوتا ہے۔ مشاہدے میں آیا ہے کہ، آج کا نوجوان زندگی سے مایوس ہوتا جا رہا ہے۔

ایک تجربے کے بعد دوسرا تجربہ کرتا ہے، جب پے در پے ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو وہ مایوسی کا شکار ہو جاتا ہے۔ لیکن زندگی کے تجربات بہت کچھ سکھاتے ہیں۔ ہم نے آپ کے لیے ایک سلسلہ بعنوان،’’ہنر مند نوجوان‘‘ شروع کیا ہے، اگر آپ تعلیم یافتہ ہنر مند نوجوان ہیں تو اپنے بارے میں لکھ کر ہمیں ارسال کریں، ساتھ ایک عدد پاسپورٹ سائز تصویر اور کام کے حوالے سے تصویر بھیجنا نہ بھولیں۔

اس کے علاوہ ایک اور سلسلہ ’’میری زندگی کا تجربہ‘‘کے نام سے بھی شروع کیا ہے، جس میں آپ اپنے تلخ وشیریں تجربات ہمیں بتا سکتے ہیں۔ بہت ممکن ہے کہ آپ کے تجربات یا تجربے سے دیگر نوجوان کچھ سیکھ لیں۔

ہمارا پتا ہے:

’’صفحہ نوجوان‘‘ روزنامہ جنگ، میگزین سیکشن،

اخبار منزل،آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی۔