ایک گفتگو جس نے رُلا دیا

November 28, 2020

میں انور عزیز صاحب کو اتنا نہیں جانتی تھی جتنا اُس دن ایک آدھے گھنٹے کی ملاقات میں جانا۔ اُن سے کئی بار رسمی ملاقات ہوئی مگر بات دعا سلام سے آگے نہ بڑھ سکی لیکن اُن کی فہم و فراست، قانونی مہارت اور شخصی خوبیوں کا کئی لوگوں سے تذکرہ سن رکھا تھا۔ تین سال قبل کی بات ہے، ایک دن لاہور پیمرا آفس میں شکایات کونسل کی میٹنگ ہو رہی تھی، میں بھی اُس کمیٹی کی ممبر ہونے کے ناطے وہاں بیٹھی ہوئی تھی اور یہ وہ دن تھے، جب میں اُس کو نسل کی چیئرپرسن تھی۔

پیمرا آفس میں بہت ڈرامے ہوتے ہیں، بعض اوقات شدید اذیت سے گزرنا پڑتا ہے۔ کئی بار تو بات تلخ جملوں سے شروع ہو کر ذاتی حملوں تک آ جاتی ہے۔ اس دن بھی ہم کئی تلخ بلکہ شدید تلخ کیسوں کو سنتے جب تقریباً مضمحل ہو چکے تھے تو ایک باوقار صاحب کمرے میں داخل ہوئے جن کی آمد سب کے لئے حیران کن تھی۔ توقع تھی ان کی طرف سے کوئی وکیل پیش ہو گا۔ تمام لوگوں کے لیے وہ جانی پہچانی شخصیت تھی۔ انہوں نے کرسی پر بیٹھتے ہی کہا، میرا نام انور عزیز ہے۔ میری عمر 87سال ہے اور میں اس ملک کا ایک شہری ہوں، وکیل ہوں۔ بات دراصل یہ ہے کہ امریکہ میں قیام کے دوران میری ایک امریکن لڑکی سے دوستی ہو گئی پھر بات محبت تک جاپہنچی اور ہم نے شادی کر لی۔ اس وقت وہ وہاں بہت اچھی طرح سیٹل تھی۔ میں بھی وہاں رک جاتا تو شاید بہت امیر ہوتا مگر میں نے واپسی کا فیصلہ کیا تو وہ نیک بخت بھی سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر میرے ساتھ چلی آئی۔ ہم نے بہت اچھی زندگی گزاری۔ نہ اسے مجھ سے شکوہ ہے نہ مجھے اُس سے شکایت۔ میں نے جو شکایت درج کرائی ہے، اس کا لب لباب یہ ہے کہ ایک چینل پر ایک شخص نے مجھ پر اور میرے بیٹے پر بہت سارے الزامات لگائےہیں۔ صرف غداری کا فتویٰ ہی شامل نہیں بلکہ مال و دولت کے حوالے سے بھی حیران کن معلومات دی گئی ہیں جبکہ میرے پاس اِس قدر محنت اور مشقت کے بعد بھی پندرہ سال پرانے ماڈل کی گاڑی ہے جو باہر کھڑی ہے جبکہ الزامات کے مطابق تو میرے پاس اپنے ہیلی کاپٹر ہونے چاہئے تھے، تاہم میری ملکیت میں جو کچھ ہے سب سامنے ہے، میرا گھر، بینک بیلنس۔ دوسرا یہ کہ میری بیوی یہودی نہیں بلکہ مسیحی تھی۔ اس کا امریکہ کا مکمل ایڈریس موجود ہے۔ اب بھی وہاں سے اس کے بارے میں معلومات حاصل کی جاسکتی ہیں۔ میں نے کسی مقصد کے ساتھ اس کے ساتھ شادی کی تھی اور نہ وہ کسی منصوبے کے تحت میرے قریب آئی بلکہ ہم دونوں ملے تو ہمارے دل اور روح نے ہمیں یکجا کیا۔ اس نے میری خاطر اپنا وطن، خاندان اور اپنے لوگ چھوڑے اور پاکستان آ گئی۔وہ میرے بچوں کی ماں ہے، اس نے اسلام قبول کر لیا تھا لیکن میرے بچوں کو ایک یہودی کا بیٹے کہہ کر پکارا گیا ہے۔ مجھے آپ لوگوں سے صرف یہ پوچھنا ہے کہ میرا قصور کیا ہے؟ میں نے کیا جرم کیا ہے؟ جب اسلام میں اہل کتاب سے شادی جائز ہے تو پھر اس حوالے سے کسی کی تذلیل کرنے کا کیا مقصد ہے؟ میں اس لیے خود حاضر ہوا ہوں کہ آپ کو اصل حقائق بتا سکوں اور اگر کہیں غلطی پر ہوں تو معذرت کر سکوں۔ ایک چھیاسی، ستاسی سال کے شخص کی عمر بھر کی کمائی کو ایک فرد نے ایک لمحے میں وطن سے بے وفائی میں بدل دیا ہے۔ وہ بولتے جا رہے تھے اور ہم سب کے دل افسُردگی اور ملامت کے شدید اثرات تلے دبے جا رہے تھے۔ وہ بہت حلیمی، متانت اور شائستگی سے بات کر رہے تھے مگر اُن کا ایک ایک لفظ تازیانہ بن کر ہمارے احساس پر کچوکے لگا رہا تھا۔ ہمارے لئے ان کی آنکھوں میں دیکھنا دشوار ہو رہا تھا۔ کچھ کی آنکھیں نم ہو چکی تھیں مگر کیفیت ایسی تھی کہ دل سے آہ و زاری اور آہیں نکل رہی تھیں جو صرف ہمارے اپنے کان سن رہے تھے اور جن کا کرب ہماری روح محسوس کر رہی تھی۔ ایک عجیب سی بےبسی ہم سب کے چہروں پر تھی، یہ بےبسی نہیں ندامت تھی۔ اک خاص گروپ کی سوچ کی ندامت تھی جس میں ہم بھی خود کو ذمہ دار قرار دے رہے تھے اور واقعتاً ہم سب ذمہ دار ہیں۔ ہم نے انہیں بولنے دیا جنہیں خاموش رہنا چاہئے تھا۔ ریاست اور معاشرے نے انھیں مادر پدر آزادی دی جنہیں سچ کا علم نہیں تھا پھر وہ ہمیں سکھانے پر مامور کر دیئے گئے کہ کیسے جینا ہے؟ یوں زندگی اور درندگی یکجا کر دی گئی۔ انور عزیز صاحب کی وفات کی خبر سن کر مجھے دُکھ کی وہ کہانی یاد آ گئی جو میں کبھی بھی بھلا نہیں پائی تھی۔ ان کے لہجے کا درد اور کرب دوبارہ میرے اردگرد پھیل گیا ہے۔ میرا دل شدید دُکھی ہے، اذیت میں ہے۔ آخر ہم کب بدلیں گے؟ کب تک ہم منفی سوچ کے حامل گروپ کی تذلیل کا شکار ہوتے رہیں گے؟ تمام دنیا کے انسان ایک ہستی کے پیدا کردہ ہیں۔ ان میں ایک کی روح ہے۔ انسانوں کی تقسیم کا کاروبار اکیسویں صدی میں تو بند ہو جانا چاہئے۔ جب اسلام میں مذہب تبدیل کئے بغیر اہل کتاب سے شادی جائز ہے تو ان کے مسلمان ہونے پر سوال کیوں اُٹھایا جاتا ہے؟

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)