آزادی فتح:عسکری طاقت کا حتمی سبق

November 28, 2020

دوسری جنگ عظیم کا بڑا اور فوری نتیجہ نو آبادیاتی نظام (Colonialism) کی تیز تر تحلیل کی صورت میں نکلا۔ عملی شکل یوں بنی کہ دنیا کے نقشے پر آزاد و خود مختار ممالک کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ ایک نئی حقیقت یہ واضح ہوتی گئی کہ جو ملک آزاد ہو رہے اور نئے بن رہے تھے، وہ جنگ عظیم کے دوسرے بڑے ابتدائی نتیجے ’’نئی دنیا کی سیاسی نظریاتی تقسیم‘‘ کے اسیر ہونے لگے۔ یعنی نو آزاد و نومولود اقوام کی اکثریت امریکن اینگلو (نیٹو) بلاک کے دائرہ اثر میں آتی گئی جبکہ وارسا پیکٹ نے پورے مشرقی یورپ اور بالٹک ریاستوں کو حقیقتاً کریملین کی سیاسی غلامی میں دے دیا، جبکہ افریقہ، ایشیا اور لاطینی امریکہ کے کتنے ہی ممالک بھی روسی دائرہ اثر میں آ گئے۔ یوں Decolonialization (نو آبادیاتی نظام کی تحلیل) کا عمل ادھورا رہ کر۔ Neo- Colonialism (نیم نو آبادیاتی) نظام کی شکل اختیار کر گیا۔ اس عالمی سیاسی نظریاتی تقسیم نے جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد عالمی معاشرے میں ’’عالمی امن‘‘ کی لگی پیاس کو بجھنے نہ دیا، اور اقوام متحدہ کے چارٹر پر تمام ہی آزاد ممالک کے اتفاق نے جغرافیائی سرحدوں کے احترام، اقوام کی خود مختاری و خود ارادیت اور بنیادی انسانی حقوق کے محفوظ ہونے کا جو خواب اقوامِ متحدہ کے قیام سے نئے عالمی معاشرے کو دکھایا، وہ چکنا چور ہونے لگا۔ سیاسی نظریاتی وابستگی اور Decolonializationکے عمل میں تو آزاد ممالک میں نئے تنازعات پیدا ہونے لگے۔ فلسطین و کشمیر، متحدہ کوریا اور ویت نام (مچوریا ) کی نظریاتی بنیاد پر تقسیم اور اِن تنازعات سے کوریا اور ویت نام میں امریکی افواج کے خلاف ہوچی منہ کی قیادت میں زبردست گوریلا مزاحمت نے علاقے کے امن کو تباہ کیا، تاہم شمالی ویت نامیوں نے روس و چین کی ادھوری عسکری معاونت اور اپنی ہی کمال گوریلا جنگ سے امریکی فوجیوں کی اتنی ہلاکتیں کیں کہ امریکی رائے عامہ سے شدید دبائو میں امریکی جنگ پسند سیاست دانوں نے ویت نام سے امریکی افواج کا انخلا قبول کر لیا۔ کوریا اور ویت نام کے ہر دو کیسز میں عسکری طاقت نے پورے کوریا کو امریکی اثر میں جانے دیا اور نہ ویت نام کو تقسیم ہونے دیا، جو طاقت کے زور پر کیا گیا تھا، وہ امریکی افواج کے انخلا کے ساتھ ہی متحد ہو گیا۔ اقوامِ متحدہ تو کوئی حل نہ نکال سکا۔ کشمیر پر بھارت کے قبضہ کیس میں پاکستان نے کشمیر کا جو حصہ آزاد کرایا، وہ عسکری کارروائی سے کرایا اور اسرائیل، امریکہ و یورپ کی مکمل پشت پناہی سے قائم دائم ہوتا خود عربوں کے مقابل علاقے کی غالب عسکری طاقت بن گیا۔ اتنی کے 1967کی عرب جنگ میں مٹر کے دانے جیسا لیکن اپنی بھرپور اور بیرونی (امریکی و یورپی) عسکری طاقت سے اتنا طاقتور ثابت ہوا کہ تین عرب ممالک مصر، اردن اور شام کے سرحدی علاقے اپنے قبضے میں لے لئے، مصر نے تو کچھ سالوں بعد عسکری طاقت سے اپنے صحرائے سینا کے مقبوضہ علاقے خالی کرا لئے لیکن یہ کتنا بڑا سبق ہے کہ پاکستان نے نئی نئی اقوام متحدہ کی اپیل کا احترام کرتے ہوئے کشمیر کے علاقوں کو آزاد کراتے کراتے بھارتی حکام کی فریاد پر فوری جنگ بندی قبول کر کے جموں وادی اور نواحی علاقوں پر بھارت کو اپنے قبضے کا نادانستہ موقع فراہم کیا۔ اسے قرار دادوں اور سفارتی مشقت سے آزاد کرانا ناممکن سا ہو گیا۔ نہ اقوامِ متحدہ کی قراردادیں، فلسطینیوں کو ان کی ریاست کی بحالی حتیٰ کہ نئی ریاست کے قیام کے لئے جزوی بحالی کے لئے کچھ کر سکیں نہ اس کی قراردادیں عرب ممالک کے مقبوضہ علاقے واپس دلا سکیں اور نہ کشمیر کے مسئلے کے حل کے لئے رائے شماری کی قراردادوں پر عمل ہو سکا۔ یوں عسکری طاقت ہی حتمی اور نتیجہ خیز ثابت ہوئی جس کے نتیجے میں جارح اور قابض ممالک اپنی اختیار کی گئی عسکری راہ کے بینی فشری بنے۔ آج ان دونوں کیسز پر عالمی فیصلوں اور فقط سفارتی کوششوں کا نتیجہ فلسطینیوں اور کشمیریوں کی جکڑ بندی اور ان پر جاری ظلم و ستم کی شکل میں نکلا اور شدید ہوتا جا رہا ہے، وہ ’’عسکری طاقت‘‘ کی حقیقت کو واضح نہیں کرتا کہ سیاسی آزادی کی حفاظت اور حق خود ارادیت کا حصول اور فقط دفاع اسی طاقت سے ہو سکتا ہے؟

75سالہ عالمی سیاسی تاریخ کے اِس منظر میں حالیہ آزربائیجان۔ آرمینیا جنگ میں آزر بائیجان نے فتح، متعصب عیسائی ہمسایہ ملک آرمینیا سے بذریعہ جنگ اپنا مقبوضہ علاقہ نکور نوقارا باغ کو آزاد کرا کے حاصل کی جس نے حتمی طور پر یہ ثابت کیا کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کو روبہ عمل میں لانے میں عالمی ادارے کی معذوری مکمل طور پر ثابت شدہ ہے، اور یہ بھی کہ تنازعات میں زیر بحث مقبوضہ علاقے عسکری اقدام سے ہی خالی کرایے جا سکتے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کا چارٹر حق خود ارادیت کا محافظ ہرگز نہیں لیکن موضوع کا اہم ترین پہلو یہ ہے کہ آزر بائیجان کیا فقط اپنی عسکری طاقت سے ہی اس قابل ہو گیا کہ وہ پورے اعتماد سے غاصب آرمینیا پر حملہ آور ہو کر اپنا مقبوضہ علاقہ خالی کرا سکا؟ نہیں، قارئین کرام! ایسا نہیں ہے۔ اس نے اپنی محدود عسکری طاقت اور بنتی ساز گار صورتحال میں کمال ڈپلومیسی اور اپنے خارجی تعلقات کا اتنی حکمت سے فائدہ اٹھایا کہ یہ فلسطین کے لئے تو نہیں، مقبوضہ کشمیر کی آزادی پاکستان اور کشمیریوں کے لئے ایک بڑا اہم سبق ہے۔ خصوصاً جبکہ مقبوضہ کشمیر کو آزاد کرانے کے لئے پاکستانی خارجی تعلقات کے حوالے سے صورتحال سازگار ہوتی جا رہی ہے۔ واضح رہے کہ بھارت نے آئین کے آرٹیکل 372بی سے جموں و کشمیر اور لداخ کی متنازعہ حیثیت کو ختم کر کے پاکستان اور کشمیریوں کو ہی متاثر نہیں کیا، چین بھی اِس میں شامل ہے۔ اس لئے متنازعہ علاقوں کی آئینی حیثیت کو بلڈوز کرتے ہی، چین نے اپنا سنجیدہ تعلق ریکارڈ کرانے میں ذرا تاخیر نہیں کی اور اب تو لداخ میں اس حوالے سے بہت کچھ عملاً ہو گیا؟ چینی اور آزری کیس دونوں آگے پیچھے عالمی سیاست کے منظر پر نمودار ہوئے۔ (جاری ہے)