دُور کی دنیا کی سیر

December 07, 2020

اسامہ علی

ماہرین فلکیات نت نئی تحقیقات کرکے خلاء میں پوشیدہ چیزوں اور نئی در یافتوں کے بارے میں لوگوں کو آگاہ کررہے ہیں ۔اس سلسلے کو جاری رکھتے ہوئے ماہرین نے خلا میںدو جہاز روانہ کیے ہیں ۔یہ جہاز نظام ِشمسی سے باہر جانےوالے پہلے خلائی جہاز بن گئے ہیں ۔سورج کے احاطے سے بہت دور ہمارے نظام شمسی کا سرا بظاہر ایک ٹھنڈی اور تاریکی جگہ سمجھی جاتی تھی ۔کچھ عر صے تک اس کا نظارہ دور سے ہی کیا جاتا تھا ۔

ماہرین فلکیات نےاس کی جانب اپنی توجہ مبذول نہیں کروائی تھی ۔بلکہ ماہرین دور بینیں ،ہمسایہ ستاروں،کہکشائوں اور نیبولا ستاروں کی جھرمٹ میں چمکتے ہوئے مادّے کی طر ف رکھتے تھے ۔لیکن 1970 ء میں بنائے اور لانچ کیے ہوئے خلائی جہاز انٹر اسٹیلر اسپیس (ستاروں کے درمیان واقع خلا ) کی جھلکیاں دکھا رہے ہیں ۔ جتنا لمبا سفر یہ جہاز کریں گے اتنا لمبا سفر ابھی تک کسی جہاز نے نہیں کیا ہے ۔

ماہرین کے مطابق اس جہاز نے جو راز افشا ں کیا ہے وہ اس سے قبل کسی جہاز نے نہیں کیا تھا ۔نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ کی یونیورسٹی آف کینٹری بری کے ماہر فلکیات مشیل بینسٹر کا کہنا ہے کہ جب ہم الیکٹر ومیگنیٹک اسپیکٹرم کے مختلف حصے دیکھتے ہیں تووہاں خلا کی جگہ اس تاریکی سے بہت مختلف ہے ،جس کا ادراک ہم خود بھی کرتے ہیں ۔مشیل نظام شمسی کے بیرونی پھیلائو کا مطالعہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ مقناطیسی فیلڈ ایک دوسرے سے لڑتی ہیں ،ایک دوسری کو دھکیلتی ہیں اور یہ ایک دوسرے کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں ۔

ادھر ادھر ہلتے ہوئے پانی کے بجائے یہاں ہلچل شمسی ہوائوں کا نتیجہ ہے جو کہ ایک چارجڈ ذرات کی طاقتور جوچھاڑ یا پلازمہ کا متواتر چھڑکائو ہے جو سورج کی ہرسمت کی طرف اس وقت نکلتا ہے جب یہ پلازمہ گیسوں کی کاکٹیل، خلائی مٹی اور کائناتی شعاؤں سے ٹکراتا ہے، جو ستاروں کے نظاموں کے درمیان اڑتی رہتی ہیں اور اسے’’ انٹراسٹیلر میڈیم‘‘ کہا جاتا ہے۔سائنس داں گزشتہ کئی سالوں سے ریڈیو اور ایکسرے ٹیلیسکوپس کی مدد سے یہ جاننے کی کوشش کررہے ہیں کہ انٹر اسٹیلر میڈیم کس چیز سے بنا ہے ۔

انہوں نے یہ انکشاف کیا ہے کہ یہ بہت ہی زیادہ منتشر آئیو نائزڈ ہائیڈروجن ایٹمز ،مٹی کا کائناتی شعاعوں سے مل کر بنا ہے جو گیس کے گہرے مالیکیو لر بادلوں کے درمیان ہیں اور خیال کیا جارہا ہے کہ یہی وہ جگہ ہے جہاں نئے ستارے جنم لیتے ہیں ۔

لیکن ہمارے نظام شمسی سے باہر اس کی اصل حالت کیسی ہے یہ بات ابھی ایک تک رازہے،جب سورج اور اس کے گرد ونواح کے سیارے کہکشاں سے گزرتے ہیں تو یہ بلبلہ انٹراسٹیلر میڈیم سے ایک نہ نظر آنے والی شیلڈ کی طرح مسلسل ٹکراتا ہے، جس کی وجہ سے مضر کائناتی کرنوں کی ایک بڑی تعداد اور دیگر مادّہ باہر ہی رہتا ہے۔

یہ جاننا بھی مشکل ہے کہ اس کا حجم اور شکل کیسی ہے۔ اگر اس کا موازنہ ملکی وے یا ستاروں کی طویل کہکشاؤں کے ساتھ کیا جائے تو ہمارا نظامِ شمسی بحر الکاہل میں ایک چاول کے دانے سے بھی چھوٹا لگتا ہے۔ لیکن پھر بھی ہیلیو سفیئر کا بیرونی کنارا اتنا دور ہے کہ وائجر 1 اور وائجر 2 خلائی جہازوں کو زمین سے وہاں تک پہنچنے میں 40 سال لگے ۔وائجر 1 نے وائجر 2 کے مقابلے میں نظام شمسی کے درمیان سے زیادہ براہ راست راستہ اختیار کیا تھا ۔2012 ء میں وائجر 1 اور 2018 ء میں وائجر 2 انٹر اسٹیلراسپیس میں داخل ہو اتھا ۔دونوں اس وقت زمین سے تقریباً 13 ارب اور 11 ارب میل دور ہیں ۔

اس دوران وہ زیادہ ڈیٹا بھیج رہے ہیں ۔ماہرین کا کہنا ہے کہ ان خلائی جہازوں نے ہمیں ہیلیو سفیئر اور انٹر اسٹیلر میڈیم کے درمیان کی سر حد کے متعلق بہت کچھ بتا یا ہے ۔اس سے ماہرین کو یہ معلوم ہوا ہے کہ ہمارانظام شمسی کس طر ح وجود میں آیا تھا اور زندگی زمین پر کیسے ممکن ہو ئی تھی ۔نظام شمسی کا کنا را طوفانی مقناطیسی فیلڈز کو کبھی ہوائوں کا طوفان،انتہائی طاقت والے مادّے کا طوفان ور ہر طرف سے آتی ہوئی تابکاری پیدا کرتا ہے ۔جیسے ہی سورج کی آئوٹ پٹ یا پیداوار میں تبدیلی آتی ہے، یا ہم انٹرسٹیلر میڈیم کے مختلف علاقوں سے گذرتے ہیں تو ہیلیو سفیئر کے بلبلے کا حجم اور شکل بدلنا شروع ہو جاتی ہے۔

جب شمسی ہوائیں تیز یا کم ہوتی ہیں، تو وہ بلبلے کے خارجی دباؤ کو بھی بدل دیتی ہے۔ماہرین کےمطابق2014 میں سورج میں سرگرمی بڑھ گئی تھی، جس سے اس نے خلا میں شمسی ہواؤں کا ایک طوفان سا بھیجنا شروع کیا تھا۔ اس طوفان نے فوراً مرکری اور وینس کو شعاؤں سے نہلا دیا تھا جو کہ 800 کلو میٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے چل رہی تھیں۔دو دن اور 150 ملین کلومیٹر طے کرنے کے بعد اس نے زمین کو بھی اپنے گھیرے میں لیا۔ خوش قسمتی سے ہمارے سیارے کی مقناطیسی فیلڈ نے ہمیں اس طاقتور اور خطرناک تابکاری سے محفوظ رکھا۔

یہ طوفان ایک دن کے بعد مریخ سے گزرا اور اسٹرؤیڈ بیلٹ سے ہوتا ہوا دور افتادہ گیسوں کے پہاڑ نما سیاروں مشتری، زحل اور یورینس سے گزرا اور دو ماہ کے بعد نیپچون پہنچا جو کہ سورج سے تقریباً 4.5 کلو میٹر دور ہو کر بھی اس کے مدار میں چکر لگاتا ہے۔چھ ماہ کے بعد یہ ہوائیں بالآخر سورج سے 13 ارب کلو میٹر دور پہنچیں۔ اس جگہ کو ’’ٹرمینیشن شاک‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہاں سورج کی مقناطیسی فیلڈ، جو کہ شمسی ہوا کو دھکیلتی ہیں، اتنی دھیمی پڑ جاتی ہے کہ انٹراسٹیلر میڈیم اسے اس کو مخالف سمت میں دھکیل سکتا ہے۔

شمسی ہوا کا پھیلاؤ وائجر 2 سے اس وقت ٹکرایا جب وہ نظامِ شمسی کے اندر ہی تھا۔ تقریباً ایک سال بعد، اس ہوا کے آخری جھونکے وائجر 1 تک پہنچے، جو کہ 2012 میں انٹراسٹیلرا سپیس میں داخل ہو چکا تھا۔دونوں خلائی جہازوں نے مختلف روٹ اختیار کیے ہیں، جس کا مطلب ہے کہ ایک جہاز شمسی سطح سے 30 ڈگری اوپر ہے جب کہ دوسرا اتنا ہی نیچے۔ شمسی ہوا کا جھونکا ان تک مختلف علاقوں اور مختلف اوقات میں پہنچا، جس کی وجہ سے ہیلیوپاز کی فطرت کے متعلق نہایت مفید سراغ ملے۔ایک رپورٹ کے مطابق یہ ہنگامہ خیز باؤنڈری لاکھوں کلومیٹر چوڑی ہے اور یہ ہیلیو سفیئر کے سطح کے گرد اربوں مربع کلومیٹر پر محیط ہے۔

پروورنیکوا کا کہنا ہے کہ وائجرز کے اندازوں کے مطابق ہیلیو پاز تقریباً ایک آسٹرونومیکل یونٹ موٹا ہے (جو کہ اوسطاً زمین سے سورج کا فاصلہ ہے)۔نہ صرف اس باؤنڈری والے علاقے میں شمسی اور انٹراسٹیلر ہوائیں ہنگامہ خیز رسی کشی کا سماں پیدا کرتی ہیں، لیکن ذرات چارجز اور رفتار بھی بدلتے نظر آتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں انٹرسٹیلر میڈیم کا ایک حصہ شمی ہوا میں تبدیل ہو جاتا ہے، اور حقیقت میں بلبلے کے باہر کی طرف دھکا دینے کے عمل میں اضافہ کرتا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ جس چیز کا ہم اپنے نظام میں مطالعہ کرتے ہیں وہ ہمیں دوسرے اسٹیلر سسٹم میں زندگی کی نشونما کے حالات کے متعلق بتاتی ہے۔یہ زیادہ تر اس لیے ہوتا ہے، کیوں کہ انٹرسٹیلر میڈیم کو دور رکھ کے، شمسی ہوا زندگی کے لیے مضر تابکاری اور دور خلا سے آنے والے مضر زیادہ توانائی والے ذرات مثلاً کائناتی کرنوں کو بھی دور رکھتی ہے۔ کائناتی کرنیں پروٹونز اور آٹومک نیوکلیائی (جوہری مرکز) ہیں جو خلا سے روشنی کی رفتار سے گزر رہے ہیں۔ وہ اس وقت پیدا ہو سکتے ہیں جب ستارے پھٹتے ہیں، جب کہکشائیں بلیک ہولز میں ضم ہو جاتی ہیں، اور دوسرے تباہ کن واقعات وقوع پذیر ہوتے ہیں۔

پرنسٹن یونیورسٹی میں ہیلیو فزکس پر تحقیق کرنے والے جیمی رینکن کے مطابق وائجر نے حتمی طور پر بتایا ہے کہ سورج سے آنے والی 90 فی صدتابکاری فلٹر ہو جاتی ہے۔ ناسا کی آئبیکس (انٹرنیشنل باؤنڈری ایکسپلورر) سیٹیلائٹ 2008 سے زمین کے گرد چکر لگا رہا ہے، اس نےایسے ذرات دریافت کیے ہیں جنہیں’ ’اینرجیٹک نیوٹرل آٹمز‘‘ کہاجاتا ہے اور وہ انٹراسٹیلر باؤنڈری سے گذرتے ہیں۔ آئبیکس ہیلیوسفیئر کے کنارے پر ہونے والے ان عوامل کے تھری ڈائمینشنل نقشے تیار کرتی ہے۔سائنس دان کے مطابق ہم آئبیکس کو ڈوپلر اور وائجرکو زمین پر قائم موسم کا حال بتانے والے اسٹیشنز سمجھ سکتے ہیں ۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ جب وائجر 1 ہیلیو سفیئر سے گذر رہا تھا تو وہ سکڑ رہا تھا لیکن جب وائجر 2 وہاں سے گذرا تو وہ پھیل رہا تھا۔

یہ بڑی زبردست بات ہے کہ اس دریافت کی آئبیکس کے 3 ڈی نقشوں میں تصویر بنائی گئی ہے، جس سے ہمیں موقع ملا ہے کہ وائجرز سے اسی دوران کا مقامی ردِ عمل دیکھ سکیں۔ آئبیکس نے انکشاف کیا ہے کہ یہ باؤنڈری کتنی متحرک ہو سکتی ہے۔ پہلے سال میں اس نے توانائی سے بھرپور ایٹموں کا ایک بڑا ربن دیکھا جو وقت کے ساتھ تبدیل ہوتا گیا۔ہیلیو سفئیر میں شمسی ذرات کائناتی مقناطیسی فیلڈ سے ٹکرا کر اچھلتے ہیں اور واپس نظام شمسی میں چلے جاتے ہیں ۔لیکن وائجرز جہاز اس جگہ کو چھوڑ چکے ہیں ۔اور وہ ابھی بھی سورج کے بہت سے اثرات کی زدمیں ہیں ۔

مثال کے طور پر سورج کی روشنی کو، دوسرے سیاروں سے بھی انسانی آنکھ دیکھ سکتی ہے۔ اور ہمارے ستارے کی کشش ہیلیو سفیئر سے بھی پرے تک جاتی ہے اور اس نے اربوں کھربوں میل دور برف، مٹی اور خلائی ٹکڑوں کے علاقے کو یکجا رکھا ہوا ہے، جسے اوورٹ کلاؤڈ کہتے ہیں۔اوورٹ کے مادّے سورج کے گرد گھومتے ہیں، حالاں کہ وہ دور دراز کی انٹراسٹیلرا سپیس میں تیر رہے ہیں۔

اگرچہ کچھ دم دار سیاروں کے مدار اوورٹ کلاؤڈ تک پہنچتے ہیں، جو کہ 300-1,500 ارب کلو میٹر کا علاقہ ہے۔ہوسکتا ہے نظام شمسی میںابھی تک یہ راز پوشیدہ ہوں کہ سیارے کس طرح وجود میں آئے اور کس طر ح ہماری کائنات میںزندگی کا ظہور ہوا ۔اس نئےڈیٹا سے نئے راز اور نئے سوالات بھی پیدا ہو رہے ہیں ۔پروورنیکو کا کہناہے کہ بہت ممکن ہے کہ ہائیڈروجن کی چادر نے کچھ ہیلیو سفئیر کوڈھانپ رکھا ہو ،جس کے اثرات ابھی بھی ڈی کوڈ ہونا باقی ہیں ۔

علاوہ ازیں ہیلیو سفیئر کا جھکاؤ انٹراسٹیلر کلاؤڈ کی طرف لگتا ہے جو کسی قدیمی واقعے کے بعد پیدا ہونے والے ذرّات اور مٹی کا مجموعہ ہے اور جس کے اس کی باؤنڈری یا اس کے اندر رہنے والے جانداروں پر اثرات کے متعلق ابھی تک پیشن گوئی نہیں کی گئی۔ماہرین کے مطابق یہ ہیلیو سفیئر کا طول و عرض بدل سکتا ہے، یہ اس کی شکل بدل سکتا ہے۔

اس میں مختلف درجۂ حرارت ہو سکتی ہے، مختلف مقناطیسی فیلڈ ہو سکتی، مختلف آئیونائزیشن اور اس طرح کے کئی مختلف پیرا میٹرز یا عوامل ہو سکتے ہیں۔ یہ بہت زیادہ دریافتوں کا علاقہ ہے اور ہم اپنے ستارے اور مقامی کہکشاں کے درمیان اس تعلق کے متعلق بہت کم جانتے ہیں۔

ہمارے نظام شمسی کی طرف ہمارا پہلا محافظ دستہ ہو گا، جس نے نہ صرف اس عجیب اور نامعلوم علاقے کے متعلق ہمیں نت نئی معلومات فراہم کیں بلکہ دور کی دنیاؤں کا راستہ بھی دکھایا ہے۔اس پر ابھی مزید تحقیقات جاری ہیں۔