انسانی یکجہتی کا عالمی دن

December 20, 2020

پاکستان سمیت دنیا بھر میں 20دسمبر کو انسانی یکجہتی کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اس دن کو منانے کا بنیادی مقصد قدرتی آفات سے متاثرہ افراد کی مدد، انسانی حقوق کی پامالیوںکو روکنا، دنیا سے غربت اور تنگ دستی کے خاتمے کے لیے انسانوں کے باہمی اتحاد و یگانگت کی اہمیت کو اُجاگر کرنا ہے۔

انسانی یکجہتی کا عالمی دن کثیرالنوع ہونے کے باوجود متحد رہنے کا جشن منانے، حکومتوں کو بین الاقوامی معاہدوں کی پاسداری کی یاددہانی کروانے، یکجہتی کی اہمیت کے بارے میں عوامی شعور اجاگر کرنے، غربت کے خاتمے سمیت پائیدار ترقیاتی اہداف کے حصول کے لیے یکجہتی کے فروغ کے طریقوں پر بحث کی حوصلہ افزائی کرنے اور غربت کے خاتمے کے لیے نئے اقدامات کی حوصلہ افزائی کرنے کا دن ہے۔ انسانی حقوق کی علمبردار سماجی تنظیموں کی جانب سے اس دن کے حوالے سے سمینارز، ریلیوں اور مختلف تقریبات کا اہتمام کیا جاتا ہے۔

پسِ منظر

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 20دسمبر 2005ءکو دنیابھرمیں انسانی یکجہتی کا عالمی دن منانے کی باقاعدہ منظوری دی تھی، جس کے بعد سے ہر سال یہ دن منایا جانے لگا۔ یکجہتی کو ملینیم ڈکلیئریشن میں اکیسویں صدی کے بین الاقوامی تعلقات کی بنیادی اقدار میں سے ایک کے طور پر نشاندہی کی گئی، متاثرہ لوگ یا جنہیںکم فائدہ پہنچا، وہ زیادہ فائدہ اٹھانے والوں سے مدد حاصل کرنے کے مستحق ہیں۔

اس کے نتیجے میں، عالمگیریت اور بڑھتی ہوئی عدم مساوات کے چیلنج کے تناظر میں عالمی یکجہتی کو مستحکم بنانا ناگزیر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اس بات پر قائل ہوئی کہ غربت کا مقابلہ کرنے کے لیے یکجہتی کے رجحان کو فروغ دینا اور شراکت داری کی روح کو زندہ رکھنا اہم ہے۔ چنانچہ، غربت کے خاتمے کے لیے عالمی یکجہتی فنڈ کے قیام اور انسانی یکجہتی کے عالمی دن کے اعلان جیسے اقدامات کے ذریعے غربت کے خلاف جنگ میں اور تمام متعلقہ اسٹیک ہولڈرز کی شمولیت سے یکجہتی کے تصور کو فروغ دیا گیا۔

اقوام متحدہ اور یکجہتی کا تصور

اقوام متحدہ کے قیام کے وقت سے ہی یکجہتی کے تصور نے اس کے کاموں کا تعین کیا ہے۔ اقوام متحدہ کی تشکیل نے امن، انسانی حقوق اور معاشرتی و معاشی ترقی کو فروغ دینے کے لیے دنیا بھر کی عوام اور اقوام کو ایک ساتھ متوجہ کیا ہے۔ تنظیم کی بنیاد اپنے ممبروں میں اتحاد و ہم آہنگی قائم رکھنے کے لیے رکھی گئی تھی، جو "بین الاقوامی امن و سلامتی کو برقرار رکھنے کے لیے" اپنے ممبروں کے درمیان یکجہتی پر انحصار کرتا ہے۔

یکجہتی کی روح کے تناظر میں تنظیم "معاشی، معاشرتی، ثقافتی یا انسانوںکو درپیش مشکلات جیسے بین الاقوامی مسائل کے حل میں تعاون پر انحصار کرتی ہے"۔

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس کا کہنا ہے، ’’کووِڈ-19جیسی وبا نے عالمی یکجہتی اور زیادہ سے زیادہ بین الاقوامی تعاون کی ضرورت پر روشنی ڈالی ہے اور اسے بنیادی تبدیلیاں کرنے کے لیے ایک موقع سمجھنا ضروری ہے۔ "کووِڈ-19 کے بحران نے ثابت کیا ہے کہ انسانی یکجہتی کی فوری ضرورت ہے۔" "ہم مشترکہ عزائم کے ذریعے ہی مشترکہ خطرات سے نمٹ سکتے ہیں‘‘۔

کووِڈ-19اور یکجہتی

کورونا وائرس نامی عالمی وبا جوںجوںدنیا بھر میںپھیلتی گئی، اس نے اپنے پیچھے بڑے پیمانے پر بیماری، اموات اور مایوسی کو چھوڑا ہے اور تاحال اس کی وجہ سے دنیا کو شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ بظاہر ایک بات تو طےہے کہ یہ وبائی مرضکسی ایک کے لیے ختم نہیں ہوگا جب تک کہ یہ سب کے لیے ختم نہ ہوجائے۔ اگر ہمیںپوری دنیا میں انسانی حقوق کو یقینی بنانا ہے تو یہ حقیقت ریاستوں اور غیر ریاستی عناصر کے مابین عالمی یکجہتی کے عمل کو ظاہر کرنے اور اس کو تیز کرنے کی ضرورت کو واضح کرتی ہے۔

ریاستوں اور غیر ریاستی عناصر کو اب عالمی یکجہتی کو زیادہ سنجیدگی سے لینا چاہیے۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق اور عالمی یکجہتی کے مسودے میں جس نوعیت کی عالمی یکجہتی کا تصور پیش کیا گیا ہے اس پر انہیں بہت زیادہ توجہ دیتے ہوئے عمل درآمد کرنا چاہیے۔ کورونا وائرس کے بعد کی صورتحال میں تمام لوگوں کو انسانی حقوق کی فراہمی کے لیے اب عالمی یکجہتی کو سنجیدگی سے لینا ہوگا جس کے لیے پہلے سے کہیں زیادہ جرأتمندانہ اقدامات کرنے کی ضرورت ہوگی۔ مثال کے طور پر دنیا میںہر شخص کو مفت یا کم قیمت میں کووِڈ-19 ویکسین یا علاج کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے مؤثر بین الاقوامی تعاون کی ضرورت ہے۔

مزید یہ کہ عالمی معیشت میں ساختی اصلاحات درکار ہیں۔ ترقی پذیر ممالک سے ترقی یافتہ ممالک میں مالی اور دیگر وسائل کی منتقلی کو روکنا ہوگا تاکہ ترقی پذیرممالک کے پاس اپنی عوام کو خوراک، صحت اور تعلیم کی سہولتیں دینے کے لیے زیادہ وسائل دستیاب ہوں۔ کووِڈ- 19کے خلاف جنگ میں فنڈز کی فراہمی کو یقینی بنانے اور بدحال معیشت کو بہتر کرنے کے لیے غریب ممالک کے قرضے معاف یا ان کی وقتی طور پر منسوخی کی جانی چاہیے۔ ساتھ ہی عالمی قوتوں کو ریاستوں پر عائد اقتصادی پابندیاں ختم (یا کم از کم معطل) کرنی چاہئیں۔ غریب ممالک کو مالی تعاون اور تجارت کی زیادہ سازگار شرائط مہیا کی جانی چاہئیں۔

دیکھا جائے تو اقوام عالم انسانی یکجہتی پر عملدرآمد کرنے میں ناکام رہی ہے۔ کئی ممالک یا متنازع علاقے ایسے ہیں جہاں انسانوں کی تذلیل جاری ہے اور اس پر اقوام متحدہ خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ ریاستوں اور غیرریاستی عناصر کے مابین "کثیر الجہتی تعاون معاشرے ، یکجہتی، مساوات اور انسانیت کی عالمی اقدار پر مبنی ہونا چاہیے۔ سب کے بنیادی انسانی حقوق کو تسلیم کرنا اور سب کے لیے مواقع مہیا کرنا ضروری ہے۔