رسیلے گیتوں نے کورونا کا ڈٹ کر مقابلہ کیا

December 22, 2020

کورونا کے خوف کے باوجود موسیقی کاجادو سوشل میڈیا کے ذریعے سرچڑھ کربولتا رہا۔ عالمی شہرت یافتہ گلوکاروں کے غیر ملکی شوز بند ہوئے تو انہوں نے فرصت کے لمحات میں شان دار میوزک اور گیت تخلیق کیے اور سنگیت کی دُنیا کو ایک سے بڑھ کر ایک سماعتوں میں رس گھولنے والے گانوں سے نوازا۔ کورونا کے خوف کے باوجود موسیقی کے سفر کو تھمنے نہیں دیا!! شہرت کے آسمانوں پر جگمگانے والےفن کاروں نے موسیقی اور اپنی فیملی کو زیادہ وقت دیا۔البتہ لاک ڈاون کی وجہ سے کنسرٹ کی بندش نے گلوکاروں اور ان کی ٹیم کو کروڑوں روپوں کا نقصان پہنچایا۔

بین الاقوامی شہرت کے حامل گلوکاروں نے نئے تجربات بھی کیے۔ کورونا سے بچاؤ کے لیے سوشل میڈیا پر پیغامات بھی دیے اور گانے بھی ریلیز کیے۔رواں برس کے آغاز پر ’’پی ایس ایل‘‘ فائیوکی افتتاحی تقریب کراچی میں ہوئی،جس میں راک، پاپ، بھنگڑا، فوک اور علاقائی موسیقی کا تڑکا لگایا گیا۔

استاد راحت فتح علی خان، سجاد علی، ابرار الحق اور آئمہ بیگ نے اپنی آواز کا جادو جگایا۔ پی ایس ایل کے آفیشل ترانے میں شامل چاروں گلوکار عارف لوہار، علی عظمت، عاصم اظہر اور ہارون بھی افتتاحی تقریب میں جلوہ گر ہوئے۔ہزاروں شائقین نے اپنے پسندیدہ فن کاروں کو سماعت کیا۔اسی دوران کورونا بھی آگیا،جس کی وجہ سے ’’پی ایس ایل‘‘ کو بند کرنا پڑا۔ آکسفورڈ یونی ورسٹی سے موسیقی کے شعبے میں ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری رکھنے والے استاد راحت فتح علی خان نے لاک ڈاؤن کے دوران ایسے رسیلے گیت پیش کیے کہ سب کو پیچھے چھوڑ دیا۔

سب کے جانے پہچانے فن کار علی ظفر نے بلوچی گیت ’’لیلیٰ لیلیٰ‘‘ کی مقبولیت کے بعد سندھی کلچر ڈے پر ’’ الے الے‘‘ گاکر سندھی بھائیوں کے دل جیت لیے۔ اسی طرح دُنیا بھر میں غیر معمولی مقبولیت رکھنے والے گلو کار عاطف اسلم نے کورونا کے دوران اپنی آواز میں میڈیا پر ’’ اذان‘‘ پیش کرکے نہ صرف مختلف ممالک میں مسلمانوں کی توجہ حاصل کی، بلکہ بھارت میں رہنے والے ہندووں نے بھی ان کی آواز کو سراہا۔کچھ گلوکاروں نے اپنے صاحب زادوں کو بھی موسیقی کے میدان میں دُھوم دَھام سے متعارف کروایا۔ سُریلے اور شرمیلے گلوکار سجاد علی نے اپنے گائے ہوئے گیت ’’بارش‘‘ میں پاکستان فلم انڈسٹری کی ہیروئن ریما خان سے ماڈلنگ بھی کروائی۔ سجاد علی اور ان کی صاحب زادی نے پہلی بار گورنر ہاوس میں ایک ساتھ پرفارمنس بھی دی ، جسے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے بے حد سراہا۔

اسی طرح پاکستان کی پہلی اوپیراسنگر سائرہ پیٹر نے صُوفی گیت ’’ سردِی بازی‘‘ کا سرائیکی اور انگریزی میں شان دار فیوژن پیش کیا ، جسے دُنیا کے مختلف ممالک میں پذیرائی حاصل ہوئی۔ اس فیوژن کے سوشل میڈیا پربھی خُوب چرچے ہوئے، نئی نسل کی لڑکیوں اورمنچلے لڑکوں نے سینکڑوں کی تعداد میں ٹِک ٹَاک بھی بنائیں۔ اوپیرا اسٹار سائرہ پیڑ نے لاک ڈاون کے دوران روزانہ اجرت پر کام کرنے والے فن کاروں اور ہنرمندوں کی مالی امداد اور راشن کی تقسیم بھی جاری رکھی۔ 2020میں کورونا کی وجہ سے فن کاروں کے مختلف روپ سامنے آئے۔

نامور اداکار اور پی این سی اے کے سابق ڈائریکٹر جنرل جمال شاہ نے باقاعدہ گلوکاری کا آغاز کیا اور نئی نسل کے فن کاروں کے ساتھ ایک نیا گانا بھی ریلیز کیا ۔انہوں نے ’’ہنرکدہ‘‘ کے تحت سینکڑوں فن کاروں میں راشن بھی تقسیم کیے۔ پاکستان میں پاپ موسیقی کے بانی گلوکار عالمگیر نے آخرکار اپنے گردوں کا ٹرانسپلانٹ کروایا اور آج کل وہ نارمل زندگی بسر کررہے ہیں۔ 2020 میں اور بھی بہت کچھ ہوا، جس کی تفصیل آگے چل کر بتائیں گے۔

2020 ء میں اس مرتبہ کوک اسٹوڈیو میں بھی نیا تجربہ کیا گیا کہ سیزن کے بجائے کوک اسٹوڈیو2020کا نام دیا گیا اور پہلی بار تمام فن کاروں نے پُرانے گیتوں کو’’ ری میک ‘‘ کرنے کےبجائے نئے گیت پیش کیے گئے ۔ استاد شفقت امانت علی نے جشنِ آزادی کے موقع پر نیا قومی گیت ’’گھر آنگن‘‘ ریلیز کیا۔ گلوکار علی ظفر کے لیےحکومت پاکستان کی جانب سے سول ایوارڈ کا علان کیا گیا تو اس پر حاسدین نے سوشل میڈیا پر بہت شور مچایا ۔ ریڈیو پاکستان ملتان نے نامور غزل گائیکہ ثریا ملتا نیکر کے نام سے ایک اسٹوڈیو منسوب کیا۔ ملک بھر کے ثقافتی اداروں نے پاکستانی موسیقاروں اور فن کاروں کو لاک ڈاون کے دوران تنہا نہیں چھوڑا۔

ان کی جانب سے ضرورت مند فن کاروں کی مالی امداد کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ البتہ کچھ گلوکاروں اور موسیقی سے وابستہ سازندوں کوا س سلسلے میں تحفظات بھی رہے کہ مالی امداد کی رقم کی تقسیم کے سلسلے میں جانب داری اور اپنی پسند اور نہ پسند کا زیادہ خیال رکھا گیا۔ آرٹس کونسل کراچی میں گزشتہ برس کی طرح موسیقی کے ان گنت پروگرام تو نہیں ہوسکے، البتہ انہوں نے جشنِ آزادی اور اردو کانفرنس کے موقع پر پُر وقار محفلِ موسیقی کا اہتمام کیا، جس میں کئی نئی آوازوں کو متعارف بھی کروایا، گورننگ باڈی کی رُکن اور معروف فن کارہ ڈاکٹرہما میر نے اپنے گائیکی کے سفر کا باقاعدہ امیر خسرو کے کلام سے آغاز کیا۔

اب ہم عالمی شہرت یافتہ گلوکاروں کے غیر معمولی کام پر روشنی ڈالتے ہیں۔ ممتاز گائیک استاد راحت فتح علی خان نے2020میںاتنے زیادہ کنسرٹ میں تو حصہ نہیں لیا، کیوں کہ پُوری دُنیا کورونا وائرس کی وجہ سے رُک گئی تھی۔ البتہ انہوں نے2020میں سوشل میڈیا پر کئی ریکارڈ بریک کیے اور غیر معمولی شہرت حاصل کی۔ انہوں نے سوشل میڈیا پر5لاکھ سبسکرائبر حاصل کرکے پہلے پاکستان گلوکار ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔ دوسری جانب انٹرنیشنل میوزک پروڈیوسر سلمان احمد کا پروڈیوس کیا ہوا سپرہٹ گیت’’ ضروری تھا ‘‘ نے استاد راحت فتح علی خان کی آواز میں یوٹیوب پر ایک ہزار ملین (سو کروڑ) ویووز تک رسائی حاصل کی، جو ایک غیر معمولی ریکارڈ ہے ۔

لاک ڈاون سے قبل ہمایوں سعید کے مقبول ڈرامے’’میرے پاس تم ہو‘‘ کے ٹائٹل سونگ کو یوٹیوب پر7کروڑ شائقین نے دیکھا اور پسند کیا۔ انٹرنیشنل میوزک پروڈیوسر سلمان احمد نے استاد راحت فتح علی خان کی آواز میں لاک ڈاون کے دوران تین چار گیت ریلیز کیے۔’’غم عاشقی‘‘،’’نَشہ‘‘ اور ’’ہمیں معاف کردے‘‘ کوبے حد پسند کیا گیا۔ یہی نہیں بلکہ وہ معروف اداکار عدنان صدیقی کی پروڈیوس کی ہوئی فلم ’’ دَم مستم‘‘ میں بھی جلوہ گر ہوئے اور لاک ڈاون کے دوران انہوں نے کراچی میں اس فلم کی شوٹنگ میں حصہ لیا۔

اس فلم میں بہ طور ہیرو عمران اشرف پہلی بار اداکارہ امرخان کے ساتھ جلوہ گرہوں گے۔ استاد راحت فتح علی خان نے پانچ برس کی عمر سے گانا شروع کردیاتھا۔ ان کی اب تک50سے زائد میوزک البم ریلیز ہوچکے ہیں،جب کہ وہ درجنوں بھارتی فلموں میں100سے زیادہ گانے گاچکے ہیں۔ اس بارے میں ان کا کہنا ہے کہ میرے استاد نصرت فتح علی خان، عظیم پاکستانی قوال موسیقار اور گائیک تھے۔ ہمارا خاندان 600سال سے فنِ موسیقی سے وابستہ ہے۔ موسیقی سے ہمارا خاندانی عشق ہے‘‘۔

رواں برس بھی علی ظفر اور میشا شفیع کےمابین تنازعے کی عدالتی پیشیاں بھی جاری رہیں۔ علی ظفر ایک باہمت فن کار ہیں۔ انہوں نے عدالتی کارروائیوں کے باوجود اپنا فنی سفر پُوری توانائی سے جاری رکھا اور دل چُھولینے گانے ریلیز کیے۔ یہ وہی علی ظفر ہیں، جوبھارت میں بالی وڈ کی سپر اسٹار کترنیا کیف کے ساتھ بہ طور ہیرو بھی جلوہ گر ہوئے تھے۔2020میں انہوں نے اپنی سماجی تنظیم کے تحت فلاحی سرگرمیاں بھی جاری رکھیں اور دُکھی انسانیت کی خدمت کی ۔ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے ان کی بھرپور پذیرائی کرتے ہوئے اسلام آباد میں منعقدہ ایک تقریب میں علی ظفر کو نوجوان نسل کا آئیکون قرار دیا۔

علی ظفر نے ’’چھنو کی آنکھ میں ایک نشہ ہے‘‘ کے بعددرجنوں ہٹ گانے میوزک انڈسٹری کو دیے۔ گزشتہ برس انہوں نے بلوچستان سے تعلق رکھنے والی12برس کی عروج فاطمہ کے ساتھ سپرہٹ بلوچی سونگ ’’ لیلیٰ لیلیٰ‘‘ کاری میک ریلیز کیا تھا ،جسے یوٹیوب پر کروڑوں بار دیکھا گیا، اسے علی ظفر سے پہلے بے شمار گلوکاروں نے گایا،مگر انہوں نے اسے نیا رنگ دے کر مقبولیت کے ساتویں آسمان پر پہنچا دیا تھا ۔ لیلیٰ لیلیٰ کی وڈیو میں دونوں گلوکاروں کے ساتھ بلوچستان کے دل کش اور خُوب صورت مناظر کی بھی عمدہ انداز ،میں عکاسی کی گئی۔ ’’لیلی لیلیٰ‘‘ کی غیر معمولی پزیرائی کو دیکھتے ہوئے انہوں نے سندھی لوک گیت ’’ الے الے‘‘ کاری میکس تیار کیا اور رواں برس ’’سندھی ثقافتی ڈے ‘‘ کے موقع پرریلیز کیا، تو ہر طرف ’الے الے‘ سنائی دیا۔

اس لوک گیت میں بھی عروج فاطمہ ان کے ساتھ تھیں اور پیر عابد بروہی اور دیگر ڈانسرز بھی علی کے ساتھ اجرک پہنے دل کش رقص کرتے دکھائی دیے۔ سندھی کلچر ڈے کے موقع پر سندھ کے چھوٹے بڑے شہروں کی گلیوں اور کوچوں میں یہی لوک گیت سنائی دے رہا تھا ۔ سوشل میڈیا پربھی اس گیت کو شان دار رسپانس ملا اور ایک مرتبہ پھر علی اور عروج فاطمہ کی گائیکی کے نئے انداز کو موسیقی کے دیوانوں نے سراہا۔ ’’ الے الے‘‘ کو ابتدا میں گلوکارہ فوزیہ سومرو نے گایا تھا ، بعد ازاں شازیہ خشک سمیت بے شمار گلوکاروں نے اسے اپنی آواز میں پیش کیا۔ 12برس کی عروج فاطمہ کا کہنا ہے کہ سپر اسٹار علی ظفر کے ساتھ پرفارم کرنا میری خوش قسمتی ہے اور اب گانا میری پہچان بن گئی ہے۔

مداح اور سامعین مجھے میری گائیکی سے پہنچانتے ہیں۔ میں نے آٹھ برس کی عمر سے گلوکاری کا آغاز اسکول سے کیا تھا۔ میرے بھائی حسن نے گائیکی کے سلسلے میں مجھے بہت سپورٹ کیا اور مجھے گٹار بھی سکھایا ۔میں نے گلوکاری کا فن کسی استاد سے باقاعدہ سیکھا نہیں ہے،لیکن میں اپنے بھائی حسن کو استاد کا درجہ دیتی ہُوں۔ موسیقی اور شہرت اپنی جگہ، لیکن میں اپنی پڑھائی پر بھرپور توجہ دیتی ہوں ۔ علی ظفر سے پہلی ملاقات کے لیے ان کےگھر جاتے ہوئے گھبرا رہی تھی، کیوں کہ وہ بہت بڑے سپر اسٹار ہیں۔ ان کی حوصلہ افزائی سے ہم نے ساتھ گانا گایا۔ عروج فاطمہ کا کہنا ہے کہ میں آرمی میں ڈاکٹر بننا چاہتی ہوں۔‘‘

پاکستان میں کوک اسٹوڈیو کی اہمیت سے کون انکار کر سکتا ہے۔ ہر دُوسرے گلوکار کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ کوک اسٹوڈیو میں اپنی آواز کا جادو جگائے۔ اس مرتبہ کوک اسٹوڈیو کو مختصر کر کے چند ہی گانے ریکارڈ کیے گئے۔ روحیل حیات کے مطابق یہ کوک اسٹوڈیو سیزن 13 نہیں ہوگا بلکہ رواں برس خصوصی سیزن جاری کیا گیا ہے۔ اس میں کل 12 گانے پیش کیے جائیں گے۔ اس بار پُرانے گانوں کے بجائے نئے اور اصل گانوں کو شامل کیا گیا ہے۔ اس خصوصی سیزن میں آواز کا جادو جگانے والوں میں اُستاد راحت فتح علی خان، صنم ماروی، میشا شفیع، علی نور، عمیر جسوال، وجیہہ نقوی، زارا مدنی، سحرگل خان، نوازش علی، پرویز مہدی، فریحہ پرویز، شہروز حسین سمیت دیگر گائیک شامل ہیں۔

کوک اسٹوڈیو سیزن 2020ء کی پہلی قسط میں تین گانے پیش کیے گئے۔ پہلی قسط میں سب سے زیادہ مقبولیت تمام خواتین کے گائے ہوئے گانے ’’نہ نٹیاوے‘‘ کو ملی۔ کوک اسٹوڈیو کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ اس میں شامل تمام خواتین نے ایک ساتھ مل کر کوئی گانا گایا۔ یہ ترانہ دراصل خواتین کے دِلوں کی ترجمانی کرتا ہے،جس میں ان کے حقوق، جذبات و احساسات عکاسی کی گئی ہے۔‘‘ دُوسری قسط میں تین گانے پیش کیے گئے، جن میں عالمی شہرت یافتہ گائیک اُستاد راحت فتح علی خان، وجیہہ نقوی اور میشا شفیع کے ساتھ علی پرویز مہدی کا گانا پیش کیا گیا۔ ’’دِل تڑپے‘‘ کو اُستاد راحت فتح علی خان کی آواز میں بے حد پسند کیا گیا۔ ’’دِل تڑپے‘‘ کے بول خود اُستاد راحت فتح علی خان نے لکھے ہیں، جب کہ ان گانے کی موسیقی

انہوں نے زارا مدنی کے ساتھ مل کر ترتیب دی ہے۔ گانے کے آخری منٹ میں اُستاد راحت کے مخصوص کلاسیکی انداز نے سامعین اور ناظرین کے دِل جیت لیے۔ یہ گانا 60ء کی دہائی کے راک میوزک پر مشتمل ہے۔ کوک اسٹوڈیو کی دُوسری قسط کو بھی موسیقی کے دیوانوں نے پسند کیا، تو یہ ٹوئٹر پر ٹاپ ٹرینڈ بن گیا۔ میشا شفیع کے ’’گل سُن‘‘ اور گانا’’یقین‘‘ کو بھی توجہ دی گئی۔

2020ء بین الاقوامی شہرت یافتہ گلوکار عاطف اسلم کے لیے بھی یادگار ثابت ہوا۔ انہوں نے موسیقی میں مختلف تجربات کیے۔ انہوں نے کورونا کے دوران اپنی خُوب صورت آواز میں اذان دینے پر ہر طرف سے بے شمار داد و تحسین سمیٹی۔ عاطف سلم کی دی گئی ’’اذان‘‘ نے جہاں ان کے مسلمان مداحوں پر رِقّت طاری کر دی تھی، وہیں غیرمسلموں کو بھی اپنے سحر میں جکڑ لیا تھا۔ سوشل میڈیا پر شیئر ہوتے ہی عاطف اسلم کی آواز میں ریکارڈ کی گئی اذان نہ صرف سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی، بلکہ شائقین موسیقی کی جانب سے اسے خُوب پذیرائی ملی۔ سوشل میڈیا پر عاطف اسلم کے ایک بھارتی مداح نے لکھا کہ ’’میں ہندو ہوں، لیکن ’’اذان‘‘ نے میرے دِل کو چُھو لیا ہے۔ اسے سُن کر مجھے ایسا محسوس ہو رہا ہے،جیسے میں سورگ میں ہوں۔‘‘ دوسری جانب عاطف اسلم کی آواز میں بھارتی میوزک کمپنی ٹی سیریز نے فلم ’’مر جاواں‘‘ کا ایک گیت ’’ کِنّا سونا‘‘ اپنے یوٹیوب چینل پر اَپ لوڈ کیا تو ہندو شدت پسند تنظیم مہاراشٹر نونرما سینا سخت ناراض ہوگئی۔

میوزک کمپنی کو دھمکی دی گئی کہ اگر اس نے گانے کو یو ٹیوب نے نہیں ہٹایا گیا، تو اس کے خلاف اپنے انداز سے کارروائی کرے گی اور کمپنی ہر طرح کے نتائج بھگتنے کے لیے تیار رہے۔ میوزک کمپنی نے فوراً ہی عاطف اسلم کے گانے کو یو ٹیوب سے ہٹا دیا اور تحریری طور پر معافی بھی مانگی۔ کمپنی نے لکھا کہ عاطف اسلم کا گانا ایک ملازم کی غلطی سے یوٹیوب پر اَپ لوڈ ہو گیا تھا۔ ‘‘ بھارت میں پاکستانی فن کاروں پر پابندی عائد کرنے کے معاملے پر بھارت میں خاصا اختلاف پایا جاتا ہے۔ اس موضوع پر لوگوں کی رائے منقسم ہے۔ ایک طبقہ فن اور فن کاروں کو سرحدوں کے حدود میں تقسیم کرنے کے خلاف ہے، جب کہ دُوسرا طبقہ قوم پرستی کو تمام چیزوں سے بالا تر قرار دیتا ہے۔ اس دوران ایک طبقہ ایسا بھی ہے، جو خاموش رہنے میں عافیت محسوس کرتا ہے۔

ان مشکلات کے باوجود بھی پاکستانی فن کاروں کی بھارت میں زبردست مانگ ہے۔پاکستان کی پہلی اوپیرا سنگر نے 2020ء میں لندن میں رہ کر بھی پاکستانی فن کاروں کا خیال رکھا اور ضرورت مند فن کاروں میں راشن تقسیم کیا اور موسیقی کے پروگرام بھی آن لائن کیے۔ لندن ہائی کمیشن آف پاکستان میں منعقدہ تقاریب میں اپنی آواز کا جادو بھی جگایا۔ رواں برس کے دسمبر میں شان دار فیوژن پیش کیا، جس کے چرچے سوشل میڈیا پر بھی ہو رہے ہیں۔ اوپیرا اسٹار نے پاکستانی سپرہٹ صُوفی گیت ’’سِر دِی بازی‘‘ کا سرائیکی اور انگلش میں فیوژن پیش کیا، جسے دُنیا بھر میں پسند کیا گیا۔

انہوں نے 2020ء میں عالمی اور پاکستانی میڈیا سے رابطہ رکھا اور نت نئے تجربات کرکے موسیقی کو نیا رنگ دیا۔ ’’سِر دِی بازی‘‘ کو نئی نسل بے حد پسند کر رہی ہے اور اب تک سینکروں ٹِک ٹَاک بھی اس گانے کے بن چکے ہیں۔ گلوکارہ سائرہ پیٹر کا کہنا ہے کہ ’’میں برطانیہ میں رہ کر بھی پاکستان کی فکر میں رہتی ہوں۔ میرے ساتھی فن کار کس حال میں ہوں گے۔ آئندہ ماہ پاکستان آ رہی ہوں۔ 2020ء تو بہت مشکل سال تھا۔ بہت قیمتی لوگ اس برس ہم سے بچھڑ گئے۔‘‘ دُوسری جانب شفقت امانت علی نے یوم آزادی پر اپنا نیا گانا ’’گھر آنگن‘‘ ریلیز کیا۔ شفقت امانت علی کے مطابق یہ گانا قومی ہیروز، پاکستانی قوم کو جشن آزادی کے موقع پر خراج تحسین پیش کرنے کے لیے بنایا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ جو محبت اور فخر ہمیں اپنے ورثے اور اپنی مادر وطن سے محسوس ہوتا ہے، اسے میں نے اس گانے میں پیش کرنے کی کوشش کی۔‘‘

پاکستانی ثقافتی تشخص اور فنون لطیفہ کی ترویج و ترقّی کے لیے 1973ء میں ملک کے پہلے قومی ثقافتی ادارے، پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس کا قیام عمل میں آیا۔ پاکستان چوں کہ کئی اکائیوں کی ایک فیڈریشن ہے اور ہر اکائی اور علاقہ اپنی ایک الگ ثقافتی شناخت رکھتا ہے، لہٰذا ان تمام ثقافتی رنگوں کو ایک گلدستہ میں یکجا کرنے کے لیے اس ادارے کی بنیاد رکھی گئی اور ممتاز شاعر فیض احمد فیض کو اس کا پہلا چیئرمین بنایا گیا۔ پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس نے کلاسیکی موسیقی کے پروگراموں کا ایک خُوب صورت سلسلہ ’’راگستان‘‘ کے عنوان سے شروع کیا ہوا ہے۔ اس سلسلے کا مقصد موسیقی کی روایتی پہلوئوں کا جیسے، خیال، ٹھمری، کافی، اور دیگر اصنافِ موسیقی کو زندہ رکھنا ہے۔

اس اداراے کے تحت2020ء میں عالمی شہرت یافتہ شاعر احمد فراز کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے ’’محفلِ غزل‘‘ کا انعقاد کیا گیا، جس میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے شرکت کی۔ اس موقع پر اُن کا کہنا تھا کہ احمد فراز کی شاعری حق و سچ اور ظلم کے خلاف مزاحمت اور غریبوں کے حقوق کے لیے جدوجہد کا ثمر ہے۔ انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے ساری زندگی مظلوم اور پسے ہوئے طبقے کی جنگ لڑی۔

ڈاکٹر فوزیہ سعید نے تمام مہمانوں کا خیرمقدم کیا۔ محفل موسیقی میں معروف گلوکارہ حمیرا چنا نے احمد فراز کی مشہور غزلیں اپنی آواز میں پیش کیں۔ ’’سلسلے چھوڑ گیا‘‘، ’’رنجش ہی سہی‘‘ اس سے پہلے کہ بے وفا جاناں اور اب کے تجدید وفا کو حمیرا چنا کی آواز میں بے حد پسند کیا گیا، جب کہ اویس نیازی نے احمد فراز کی مشہور غزلیں دُکھ فسانہ نہیں اور یہ کوئی دل کی ہتھیلی پر‘‘ پیش کرکے شائقین موسیقی سے داد سمیٹی۔ علاوہ ازیں پی این سی اے کے ایک پروگرام میں عالمی شہرت یافتہ طبلہ نواز عبدالستار تاری نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ ڈاکٹر فوزیہ سعید کا کہنا تھا کہ تاری پاکستان کا فخر ہیں۔ ان کی فنّی مہارت اور بلندی کو الفاظ میں سمیٹنا مشکل ہے۔ دُنیا بھر کے شائقین فن اُستاد تاری کے فن

کے دلدادہ ہیں۔ ہمیں اپنے ان ثقافتی سفیروں اور ہیروز کے کام کو محفوظ کرنا ہے۔ تاری معروف طبلہ نواز اُستاد شوکت حسین کے شاگرد رہے ہیں اور مہدی حسن، غلام علی، روشن بیگم آراء، جگجیت سنگھ جیسے بڑے گلوکاروں کے ساتھ سنگت کا اعزاز رکھتے ہیں۔ صدارتی ایوارڈ بھی حاصل کر چکے ہیں۔

2020ء میں ’’جگنی‘‘ فوک گیت سے بین الاقوامی شہرت حاصل کرنے والے پاپ سنگر سلیم جاوید، بابر عباسی اور گلوکارہ کومل رضوی کو مقامی ہوٹل میں فنی خدمات کے سلسلے میں ایکسی لینسی ایوارڈ سے نوازا گیا۔اس تقریب میں شوبزنس کی دیگر نامور شخصیات کو بھی ایوارڈز دیے گئے۔ رواں برس نامور گلوکاروں نےا پنے صاحب زادوں کو بھی موسیقی کی دُنیا میں متعارف کروایا۔ پاکستانی فلموں کے نامور پلے بیک سنگر وارث بیگ کے صاحب زادے گلوکار عمار بیگ کی تعارفی تقریب میں فن کاروں کا میلہ دیکھنے میں آیا۔

تقریب میں گورنر پنجاب چوہدری سرور، سُروں کے سلطان راحت فتح علی خان، انٹرنیشنل میوزک پروڈیوسر سلمان احمد، فلموں کے ہیرو معمر رانا، صاحبہ، ریمبو، محمود بھٹی سمیت اہم شخصیات نے شرکت کی۔ تقریب نے فلم انڈسٹری کے شان دار ماضی کی تقریبات کی یادیں تازہ کر دی تھیں۔ تمام شخصیات نے گلوکار وارث بیگ کو مبارک باد پیش کیں۔ اس موقع پر باپ بیٹوں نے ایک ساتھ گانا گایا۔ عمار بیگ نے انگریزی اور اُردو کلاسیکل غزلیں اپنی آواز میں پیش کر کے داد و تحسین وصول کی۔ اسی طرح گلوکار رفعت سلطان نے اپنے صاحب زادے زریاب سلطان کو نئے گانے ’’سوہنیا‘‘ کے ساتھ متعارف کروایا۔

گلوکار عارف انصاری نے لاک ڈائون کے دوران سوشل میڈیا پر کئی آن لائن کنسرٹ پیش کیے۔ ٹی وی پروڈیوسر امجد شاہ نے رواں برس بھی موسیقی کا میلہ لگائے رکھا۔بلال مقصود نےویلو ساؤنڈ اسٹیشن کے نام سے میوزیکل پروگرام شروع کیا، جسے ابتداء ہی میں خاصی پزیرائی مل رہی ہے۔ رواں برس معروف گلوکارہ صنم ماروی نے اپنے شوہر سے خلع لیا۔ فیملی کورٹ نے گلوکارہ ضم ماری کی درخواست پر خلع کی ڈگری جاری کرنے کا حکم دیا۔

صنم ماروی کا کہنا ہے کہ شوبز انڈسٹری میں شادیاں ٹوٹنے کی بڑی وجہ جھوٹ ہے، میں اپنے شوہر کے ساتھ مزید رہنا نہیں چاہتی۔‘‘رواں برس گلوکاروں نے ہمت سے کام لیا اور اپنے فنی سفر جاری رکھا۔اُمید ہے 2021 کا سورج کورونا کے خاتمے کی نوید لے کر آئے گا اور ہم سب کورونا سے پہلے والی زندگی کا آغاز کریں گے۔ آمین