صنعتی کاربن اخراج سے تعمیراتی مواد کی تیاری

December 27, 2020

صوفیا ہیملن وانگ، جنوری 2020ء میں سوئٹزرلینڈ کے شہر ڈیووس ایک ایسے وقت پہنچی تھیں، جب ان کا آبائی ملک آسٹریلیا آگ میں جل رہا تھا۔ ’’اس آگ سے آسٹریلیا کی بہت ساری برادریاں کئی طریقوں سے متاثر ہوئی تھیں۔ ہم نے تین مہینوں تک اپنی روز مردہ زندگی پر اس کے شدید اثرات محسوس کیے۔ میں آپ کو یہ الفاظ میں نہیں بتا سکتی کہ اس سنگین ماحولیاتی حادثے نے مجھے کتنا یقین دِلایا کہ میں نے اپنے لیے دُرست راستے کا انتخاب کیا تھا‘‘، وہ کہتی ہیں ۔

صوفیا، ورلڈ اِکنامک فورم کے سالانہ اجلاس میں بطور گلوبل شیپر اور مِنرل کاربونیشن انٹرنیشنل (MCi) کی چیف آپریشنز آفیسر کی حیثیت سے شرکت کررہی تھیں۔ MCi ایک ٹیکنالوجی پلیٹ فارم ہے، جو کاربن ڈائی آکسائیڈ (CO2)کو تعمیراتی سامان اور دیگر قیمتی صنعتی مصنوعات میں تبدیل کرتا ہے۔

کمپنی نے نیو کاسل، آسٹریلیا میں تھری-کاربن ری ایکٹر سسٹمز ڈیزائن اور تعمیر کیے ہیں ، جو صنعتی عمل کے ذریعہ پیدا ہونے والے فالتومواد اور اخراج کو تبدیل کردیتے ہیں۔ یہ دنیا کا اولین ریفرنس پائلٹ پلانٹ ہے۔ کمپنی نے 2040ء تک ایک ارب ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ اخراج کو تعمیراتی سامان اور قیمتی صنعتی مصنوعات میں تبدیل کرنے کا ہدف مقرر کیا ہے۔

اس کی ایک چھوٹی سی مثال CO2اور کم معیار کے حامل serpentiniteنامی پتھر کے امتزاج سے پلاسٹر بورڈ تیار کرنا ہے۔ ’’دراصل اس کا اخراج منفی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسے بنانے میں کاربن کا جتنا اخراج ہوا ہے، اس سے زیادہ کاربن اس کے بنانے کے عمل میں جذب ہوا ہے۔ لہٰذا ہم خارج ہونے والے کاربن کو اپنی دیواروں میں پیوست کر رہے ہیں۔ دنیا میں اس پتھر کے اتنے وسیع ذخائر موجود ہیں (اور ہمیشہ رہیںگے)، جو ایندھن سے اب تک ہونے والے اور مستقبل میں خارج ہونے والے تمام اخراج کو جذب کرسکتے ہیں‘‘۔

مِنرل کاربونیشن کیا ہے؟

زمین کے کاربن ڈائی آکسائیڈ (CO2)کو فطری طریقے سے محفوظ کرنے کے عمل کو مِنرل کاربونیشن کہا جاتا ہے۔ زمین میں حل یا محفوظ ہوجانے والا کاربن پہاڑوں میں موجود معدنیات کے ساتھ مل کر ’کاربونیٹ‘ تیار کرتا ہے، جو طویل عرصے تک مستحکم رہتا ہے اور تعمیرات میں استعمال ہوسکتا ہے۔

صنعتی انقلاب کے زمانے سے دنیا CO2کا بہت زیادہ اخراج کرتی آئی ہے اور ضرورت اس بات کی ہے کہ 2050ء تک اس کے اخراج کو صفر تک محدود کیا جائے۔ مزید برآں، یہ بھی ضروری ہے کہ ہم ماحول میں پہلے سے موجود CO2کو جذب کرنے کے لیے بھی کوئی سامان کریں تاکہ عالمی درجہ حرارت میں اضافے کو 1.5ڈگری سینٹی گریڈ تک محدود رکھا جاسکے۔

برطانیہ کے سفید پہاڑ اس کی ایک مثال ہیں۔ ان پہاڑوں میںلاکھوں برس سے CO2جذب ہورہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ سفید ہیں۔ جدید صنعتی انقلاب کے ذریعے اس لاکھوں برس کے عمل کو گھنٹوں میں مکمل کرنا ممکن ہوگیا ہے۔ MCiاس وقت جو کاربونیٹ مصنوعات تیار کررہا ہے، ان میں سیمنٹ کی اینٹیں اور پلاسٹر بورڈ شامل ہیں۔

یہ ایک مکمل سرکلر اِکانومی ہے جہاں آپ اپنے کوڑے سے نئی قابلِ استعمال اور ماحول دوست مصنوعات تیار کرتے ہیں۔ CO2کو ایک ریسورس (وسیلہ) سمجھتے ہوئے اسے دوبارہ قابل استعمال بنایا جاسکتا ہے اور اسے کارآمد بناکر ان صنعتوں کو جلد اس جانب راغب کیا جاسکتا ہے، جو ابھی تک کاربن اخراج کو تو جاری رکھے ہوئی ہیں لیکن اسے دوبارہ قابلِ استعمال بنانےمیں دلچسپی نہیں رکھتیں۔ ’’کلائمیٹ چینج‘‘ کی بنیاد پر کاروباری ماڈلز کی تشکیل کافی دلچسپ ہے اور یہ حکومتوں کی جانب سے قانون سازی کے انتظار اور بازاروں میں رویوں کی تبدیلی کا انتظار کرنے سے کہیں زیادہ تیزی سے کاربن اخراج میں کمی لاسکتے ہیں، جو کہ بہت ضروری ہے۔

CO2 کا حصول

گزشتہ دہائی میں ، قابلِ تجدید توانائی کے حوالے سے عالمی ماحول میں کافی بہتری دیکھی گئی ہے۔ آسٹریلیا ایک وسائل والا ملک ہے، لیکن ہمارے پاس قابلِ تجدید ذرائع کے لیے اتنی ٹھوس صلاحیت موجود ہے۔ اس کے علاوہ بھی کچھ دیگر شعبہ جات ایسے ہیں، جہاں ’’ڈی کاربنائزیشن‘‘کی ضرورت ہے۔ مثال کے طور پر اسٹیل کی صنعت، سیمنٹ کی صنعت، کیمیکل اور ہائیڈروجن کے لیے ٹرانزیشن ٹیکنالوجیز کو بھی CO2 ماڈلز کی ضرورت ہے۔

مزید کیا ضروری ہے؟

گزشتہ چند مہینوں کے دوران، جاپان، چین، جنوبی کوریا وغیرہ نے 2050ء تک CO2کے اخراج کو ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اب جب کہ دنیا ان اہم اہداف کے حصول کی کوششیں کررہی ہے، ضروری یہ ہے کہ نئی ٹیکنالوجیز کو تیار کیا جائے۔ اس وقت کاربن جذب اور استعمال کرنے کی سالانہ مارکیٹ کا حجم چھ ٹریلین ڈالر ہے اور مستقبل میں اس میں مزید اضافہ ہوگا۔

دنیا میں زہریلی گیسوں کے اخراج میں سب سے زیادہ حصہ تعمیراتی شعبے کا ہے، جوکہ تقریباً 40فیصد بنتا ہے۔ ایسے میں جب دنیا پہلے مرحلے میں 2030ء اور حتمی مرحلے میں 2050ء تک کاربن اخراج کو نیٹ زیرو پر لانے کے منصوبے پر عمل پیرا ہونے کے لیے کوشاں ہے، ایسے میں تعمیراتی صنعت کے لیے بھی اس منصوبے پر عمل کرنا ناگزیر ہوچکا ہے۔