ماضی کی شاہی سواری... گھوڑا گاڑی

January 13, 2021

بنو آدم نے دنیا میں قدم رکھنے کےبعداپنی زندگی کی آسانی کے لیے نظریہ ضرورت کے تحت متعدد ایجادات کیں۔ پہیہ ان میں سے ایک ہےلیکن یہ ایجاد انسانی زندگی میں انقلاب لانے کا موجب بنی۔:3500قبل مسیح میں میسو پوٹیما میںچکنی مٹی کی مدد سے گولائی میں ڈھال کر برتن بنانے والا باٹ (چکی) بنایا گیا۔اس کے تین سو سال بعد، 3200قبل مسیح میں میسوپوٹیمیا میں ہی لکڑی کے گول ٹکڑے کاٹ کرذرائع نقل وحمل کے لیے پہیے کی ایجاد ہوئی۔

اُس کے درمیان میں سوراخ کر کےلکڑی کے ایک لٹھ کوایکسل کی صورت میں دونوں پہیوں میں ا س طرح لگا یا گیاکہ آسانی سے گھومنے لگے۔ اس کامیابی کے بعدایکسل پر تختہ رکھ کرابتدا میں اس سے بار برداری کا کام لیا گیا۔ انسان خود ہاتھوں کی مدد سے اسے کھینچتا تھا۔

کچھ عرصے بعد انہیں رتھ کی صورت میں ڈھالا گیا جس کے آگے دو گھوڑے جوتے جاتے تھے۔ رتھوں پر نہ صرف سفر کیا جاتا تھا، بلکہ جنگ و جدل اور کھیل کے طور پر رتھ دوڑ کا اہتمام بھی کیا جاتا تھا۔ بعد ازاں رتھ، تانگہ اور بگھی ، یکہ سفری ضرورت کا حصہ بن گئی۔ بگھی کا شمار شاہی سواری میں ہونے لگا۔ ملکہ برطانیہ تک اس کی سواری سے لطف اندوز ہوتی تھیں۔ مغل بادشاہ اورشاہی خاندان کے افراد بھی رتھ، تانگے اور بگھیوں پر سفر کرتے تھے۔ ادب و ثقافت میں بھی تانگے کا ذکر خیر ہوتا تھا۔

نثر نگار اس سواری کو اپنے مضامین میں شامل کیا کرتے تھے جب کہ شعرائے کرام نے تانگے اور گھوڑا گاڑی کا ذکر اپنے گیتوں اور نظموںمیں کیا ہے۔۔ٰ60 کی دھائی میں ’’بندر روڈ سے کیماڑی ، میری چلی ہے گھوڑا گاڑی ‘‘ والا گیت ریڈیو پر بے انتہا مقبول ہوا جس کی بیک گراؤنڈ موسیقی میں گھوڑے کے سموںکی ٹاپیں نمایاں طور پر سنائی دیتی تھیں۔ زندگی کے مشینی دور میں داخلے کے بعد یہ روایتی سواری اب قصہ پارینہ ہوچکی ہے۔ اکیسویں صدی شروع ہوتے ہی سائنس و ٹیکنالوجی کا دور آیا۔

تانگے کی جگہ رکشے ، موٹر سائیکلوں، کاروں اور چنگچی نے لے لی ۔ جب مہنگائی نے لوگوں سے سستے سفری ذرائع چھین لیے تو وہ واپس قدیم سواریوں کی طرف لوٹ رہے ہیں اور کئی شہروں میں تانگے اور یکے کی سواری کودوبارہ پذیرائی مل رہی ہے۔چند عشرے قبل تک ڈگری شہر میںبھی تانگے چلا کرتے تھے مگر وقت کے تیز رفتار پہیے نے تانگوںکا پہیہ جام کردیا۔

ڈگری کی شاہراہوں پر چلنے والے تانگوں کی جگہ اب مشینی سواریوںنے لے لی ہے اور تانگے کی سواری ماضی کےدھندلکوں میں گم ہوچکی ہے۔ڈگری میں مرکزی محمدی چوک اور ریلوے اسٹیشن کے قریب تانگہ اسٹینڈ قائم تھے جہاں سے مختلف قصبوں کی جانب تانگے رواں دواں ہوتے تھے۔

اس میں تین سواریاں اگلی اور تین پچھلی نشستوں پربراجمان ہوتی تھیں۔ اگلی نشست کے نیچے ایک جانب پیر لٹکائے کوچوان بیٹھا کرتا تھاجس کے ہاتھ میں ایک باریک چھڑی یا سونٹاہوتا تھا، جس کے دوسرےسرے پر رسیاں بندھی ہوتی تھیں، اسے ’’چھانٹا‘‘ کہا جاتا تھا۔ اس سے تانگہ بان گھوڑے کو ہانکنے کے علاوہ ہارن کا کام بھی لیا کرتا تھا۔وہ پہیے کے ساتھ لگے ڈنڈوں سے چھانٹاٹچ کرتا تھا جس سے ٹک ٹک ٹک ٹک کی آواز یں سن کر راستے میں آنے والا شخص خبردار ہوجاتا تھا۔

تانگوں پر رنگ وروغن ہوتا ،خوش رنگ بیل بوٹے منقش ہوتے تھے۔ روزانہ گدیاں درست کی جاتیں ،پیتل کا ساز خوب مل مل کر برش سے چمکایا جاتا ،بتیوں کے شیشے چمکائے جاتے ۔آج ڈگری شہر کے وہ مقامات جہاں تانگہ ا سٹینڈبنے ہوتے تھے.، وہ ختم ہوچکے ہیں ۔ تانگہ بانوں نے بے روزگار ہونے کے بعد دوسرے ذرائع آمدنی تلاش کرلیے ۔ اب نسل نو تانگے اور بگھی جیسی شاہی سواری سے لاعلم ہے۔انہیں صرف کتابوں یا شاعری میں اس افسانوی سواری کے بارے میں پتہ چلتا ہے۔

. ڈگری شہر کی شاہراہوں پر تانگے میں جتے گھوڑے کے سرپٹ دوڑنے کامنظر پرانے لوگوں کے ذہنوں میں آج بھی محفوظ ہے۔ ڈگری کے ایک تانگہ بان ،بابا عاشق جو آج بھی اس پیشے سے وابستہ ہیں، ماضی میں جھانکتے ہوئےکہتے ہیں کہ آج تانگہ چلانا بھی مشکل ہوگیا ہے۔دن بھر میں 500روپے آمدنی ہوتی ہے ، مہنگائی کا یہ عالم ہے کہ آدھی رقم گھوڑےکے چارے پر صرف ہوجاتی ہے. اور باقی سے گھر کا چولہا بہ مشکل جل پاتا ہے ۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ ڈگری میںتانگے کی سواری کاالگ مزا تھا۔

جب لوگ تانگے میں بیٹھ کر سڑکوں پر سفر کرتے ہوئے گردونواح کے مناظر سے پوری طرح لطف اندوز ہوتے تھے۔اس دور میں جب تانگے کی سواری عام تھی تو شہر میں اس کے کاریگر بھی بڑی تعداد میں موجود تھے۔ تانگہ کی تیاری بھی کاریگری کانمونہ تھی جب کہ اس کی سجاوٹ اور تزئین و آرائش کے کاریگر علیحدہ تھے۔ اس روزگار سے منسلک تمام ہنرمندوں نے اس سواری کے بند ہونے کے بعد دوسرے پیشے اپنا لیے ہیں۔