’’سب کچھ ہے اور کچھ بھی نہیں ہے ‘‘

January 24, 2021

یہ سب کوئی گورکھ دھندا ہے، پہیلی ہے، پراسرار سا کوئی وہم یا گمان ہے، بھولا ہوا خواب اڑ چکی خاک ہے یا طلسم کدہ ؟

کشتی ہے تو پتوار نہیں، پتوار ہیں تو کشتی نہیں اور اگر دونوں ہیں تو دریا نہیں اور اگر دریا بھی ہے تو اس میں پانی نہیں۔

رات ہے تو نیند نہیں، نیند ہے تو خواب نہیں، خواب ہے تو تعبیر نہیں ،

حکومت ہے، حکمران نہیں ....حکمران ہیں تو حکومت نہیں ۔

کمان ہے تیر نہیں، تیر ہے کمان نہیں اور اگر دونوں ہیں تو ’’ہدف‘‘ نہیں ۔

مریض ہے معالج نہیں، معالج ہے مریض نہیں، دونوں ہیں تو دوا نہیں اور اگر دوا ہے تو خالص نہیں۔

آنکھ ہے بصارت نہیں، دماغ ہے بصیرت نہیں۔

ٹریک ہے ریل نہیں، ریل ہے ٹریک نہیں، دونوں ہیں تو کوئی اسٹیشن نہیں ۔

دل ہے درد نہیں، آنکھ ہے حیا نہیں، سر ہے ردا نہیں،زبان ہے ایفائے عہد نہیں ۔

منڈی ہے، مال نہیں، مال ہے گاہک نہیں، گاہک ہے تو روپیہ نہیں، روپیہ ہے تو اس میں قوت خرید نہیں۔

رستہ ہے، منزل نہیں، منزل ہے رستہ نہیں .... اور سب کچھ ہے تو مسافر نہیں ۔

جیتے ہیں، زندگی نہیں ،مرتے ہیں موت نہیں۔

بچہ ہے بچپن نہیں، بچپن ہے کھلونا نہیں، جوان ہے جوانی نہیں، حال ہے مستقبل نہیں ۔

زینہ ہے پائوں نہیں، گھر ہے چھت نہیں، چولہا ہے آگ نہیں۔

تاریں ہیں بجلی نہیں، نل ہے پانی نہیں، محافظ ہیں تحفظ نہیں، چینی ،امپورٹڈہے لیکن میٹھی نہیں ۔

سورج ہے کرنیں نہیں، چاند ہے چاندنی نہیں، برسات ہے بارش نہیں، بیج ہے زمین نہیں، درخت ہے چھائوں نہیں۔

بھوک ہے کھانا نہیں، کھانا ہے بھوک نہیں، پیاس ہے پانی نہیں، پانی ہے پیاس نہیں ۔

قائد ہیں قیادت نہیں، قانون ہے نفاذ نہیں، قاضی ہے انصاف نہیں، آئین ہے عمل نہیں، جرم ہے سزا نہیں، سزا ہے عملدرآمد نہیں ۔

ساتھی ہیں ساتھ نہیں، دوست ہیں دوستی نہیں، بھاشن ہیں برکت نہیں، تلواریں ہیں دستے نہیں، آزادی ہے آزاد نہیں، دودھ ہے غذائیت نہیں، شراب ہے نشہ نہیں، لباس ہے ستر نہیں، اخبار ہے خبر نہیں، لفظ ہے اثر نہیں۔

اسپتال ہے ڈاکٹر نہیں، ایکٹر ہیں فلم اور ڈرامہ نہیں، ٹاک شوز ہیں ’’ٹاک‘‘ نہیں ،آوازیں ہیں سُر نہیں، شعر ہے وزن نہیں، شور ہے موسیقی نہیں۔

فارغ ہیں لیکن وقت نہیں، وقت ہے لیکن بدلتا نہیں، کیلنڈر ہے تاریخ نہیں، ہیپی نیو ایئر ہے لیکن ہیپی نہیں ۔

سکول ہے کتابیں نہیں، کتابیں ہیں تو فیس نہیں، فیس ہے تو ٹیچر نہیں، ٹیچر ہے تو پڑھاتا نہیں۔

خون ہے لیکن سرخ نہیں، ہاتھ ہے لیکن حرکت نہیں، ماتھا ہے سجدہ نہیں، اذان ہے اذن بازیابی نہیں ،دعا ہے قبولیت نہیں، عبادت ہے کوئی ’’عبد‘‘ نہیں۔

قاتل ہے مقتول نہیں، ظالم ہے مظلوم نہیں، پھانسی ہے پھندا نہیں، پودے ہیں پھول نہیں، پھول ہیں تتلیاں نہیں، درخت ہیں پھل نہیں، پھل ہیں رس نہیں، انگارے ہیں جگنو نہیں، مگرمچھ ہیں گلہریاں نہیں، آوازیں ہیں پیغام نہیں، سلام ہیں سلامتی نہیں، کتابیں ہیں قاری نہیں، پانی ہے روانی نہیں، کہانی ہے معانی نہیں، انتظامیہ ہے انتظام نہیں، معاشرہ ہے معاش نہیں، مندر ہیں پوجا نہیں، فقیر ہیں فقر نہیں،درویش ہیں درویشی نہیں، سب تنہا، تنہائی نہیں، ہجوم ہیں اتحاد نہیں، آغاز تو تھا انجام نہیں، زخم بہت درد نہیں ،ادراک بہت احساس نہیں۔

الزام تو ہے ثبوت نہیں، اولاد تو ہے سپوت نہیں۔

مکان تو ہیں گھر نہیں، کنویں ہیں پانی نہیں، کھیت ہیں فصلیں نہیں، ذاتیں ہیں بندے نہیں، قومی ترانے میں قومی زبان نہیں، دارالامانوں میں بھی امان نہیں، ایوانوں میں آزاد زبان نہیں، گھوڑے کی ٹانگیں نہیں، گائے کے تھن نہیں، اونٹ کا کوہان نہیں، گاڑی میں ڈرائیور ، تانگے میں کوچوان نہیں، آدمی ہی آدمی ہیں....کیا کوئی انسان نہیں ؟

فرہاد ہے تو شیریں نہیں، شیریں ہے تو فرہاد نہیں اور دونوں ہیں تو تیشہ نہیں۔سوہنی ہے مہینوال نہیں، مہینوال ہے سوہنی نہیں، دونوں ہیں تو چناب نہیں۔ ہیر ہے تو رانجھا نہیں، رانجھا ہے تو ہیر نہیں، دونوں ہوں تو چُوری اور ونجھلی نہیں۔چُوری ہو تو اس میں خالص گھی نہیں اور ونجھلی ہو تو اس میں تان نہیں، میدان تو ہے کھلاڑی نہیں، اگاڑی تو ہے پچھاڑی نہیں، رنگیلے بہت، رنگ نہیں ، ترانے بہت ترنگ نہیں، دھرتی ہے آکاش نہیں، آکاش ہے تو دھرتی نہیں ۔

یہ کیسا طلسم کدہ ہے جہاں سب کچھ ہے اور کچھ بھی نہیں ہے ۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)