مت قتل کرو آوازوں کو

February 02, 2021

احمد فراز

تم اپنے عقیدوں کے نیزے

ہر دل میں اتارے جاتے ہو

ہم لوگ محبت والے ہیں

تم خنجر کیوں لہراتے ہو

اس شہر میں نغمے بہنے دو

بستی میں ہمیں بھی رہنے دو

ہم پالنہار ہیں پھولوں کے

ہم خوشبو کے رکھوالے ہیں

تم کس کا لہو پینے آئے

ہم پیار سکھانے والے ہیں

اس شہر میں پھر کیا دیکھو گے

جب حرف یہاں مر جائے گا

جب تیغ پہ لے کٹ جائے گی

جب شعر سفر کر جائے گا

جب قتل ہوا سر سازوں کا

جب کال پڑا آوازوں کا

جب شہر کھنڈر بن جائے گا

پھر کس پر سنگ اٹھاؤ گے

اپنے چہرے آئینوں میں

جب دیکھو گے ڈر جاؤ گے