چوہا اور نادان چوزہ

February 07, 2021

مشاہد حسین رضوی

شبّو مرغی بڑے جتن سے اپنا ایک انڈا بچا پائی تھی، کیوں کہ اُس کے سارے انڈے ناشتے میں کھا لیے گئے تھے۔ بے چاری شبّواُسے لے کر ایک کونے میں بیٹھ گئی ۔بیس بائیس دن کی محنت کے بعد انڈے کا چھلکا توڑ اتو چوزہ باہر آگیا۔ شبّوکی خوشی کاٹھکانا نہ رہا۔ چوزہ بڑا چنچل اور شریر تھا۔ ایک روز شبّودانہ چگنے جب با ہر جانے لگی تو اس نے چوزے کو نصیحت کی کہ یہاں سے کہیں نہیں جانا ۔ ماں جب باہر چلی گئی تو چوزہ پورے گھر میں گھومنے پھرنے لگا۔

ایک کونے میں اسے چوہے کا بِل دکھائی دیا ۔ چو ہابھی پورے گھر میں خوراک تلاش کرنے کے بعدبل میں واپس آیاتھا۔ اُس نے چوزے کو دیکھا تو اس کے منہ میں پانی بھر آیا۔وہ دل ہی دل میں کہنے لگا:’’ ہائے ! اتنا پیارا چوزہ!‘‘ اس کے من میں کھوٹ آگیا وہ سوچنے لگا ، کاش! اس کے نرم و ملائم اور ریشمی پر مِل جائیں تو میں اپنا گدّا بنا کر سکون کی نیند سو سکوں۔ اس نے بل میں سے ہی آواز دے کرچوزے سے کہا،:’’ پیارے سے ننھے منےچوزے مجھ سے دوستی کروگے؟‘‘

’’ہاں ! ہاں !کیوں نہیں‘‘ چوزہ نے خوش ہوکر کہا اور چوہے سے پوچھا، :’’کیا تم واقعی مجھے اپنا دوست بناؤگے؟‘‘

’’کیوں نہیں !‘‘چوہے نے جھٹ سے جواب دیااور کہا کہ،’’ میں تمہیں یہاں کے علاوہ محلے کے دوسرے گھروں کی سیرکراؤں گا، مالکن کے کچن روم میں لے جاکر اچھے اچھے کھانے کھلاؤں گا۔‘‘

’’سچ مچ!‘‘ چوزہ چہک اُٹھا۔ اور چوہے کی چکنی چپڑی باتوں میں آگیا۔ چوہا ترکیٖب سوچنے لگا کہ کس طرح اِس کے پرکترے جائیں۔ سو اُس نے کہا :’’دوست! میرے گھر نہیں آؤگے؟‘‘

چوزے نے کہا:’’کیوں نہیں ؟ دوستی کی ہے تو اُس کو نبھا ؤں گا بھی۔‘‘اتنا کہہ کر چوزہ چوہے کے بِل میں گھسنے لگا ، لیکن وہ اُس چھوٹے سے سوراخ میں کہاں جا پاتا؟اُس کی گردن اُس میں پھنس گئی ۔ چوہا فوراً اس کے نرم و ملائم اور ریشمی پر و ں کو کترنے لگا ۔ چوزہ بولا :’’میرے دوست! مجھے بہت درد ہورہا ہے اور مجھ کو گھٹن محسوس ہورہی ہے کہیں میرا دم نہ نکل جائے۔‘‘

’’پیارے چوزے، تھوڑی دیر ٹھہر جاؤ، میں بِل کا سوراخ بڑا کررہا ہوں ‘‘چوہے نے چالاکی سے کہا۔

جب چوہا ، چوزے کے پر کتر رہا تھااس وقت مرغی دانہ چُگ کر واپس آگئی۔ اس نے جواپنے بچےکی گردن چوہے کی بِل میں پھنسی دیکھی تو تڑپ اٹھی اور کوششوں کے بعد اسے بل سے باہر کھینچ لیا۔ جھٹکا لگنے سے چوزے کا پر کترنے میں مصروف چوہا بھی بِل سے باہر آگیا ۔ شبّو اس کی چالاکی سمجھنے کے بعد غصہ سے بپھر گئی ۔ اس نے چوہے کے جسم پر چڑھ کر اتنی قوت سے چونچ ماری کہ وہ درد سے بلبلا اٹھا اور روتا ہوا بل میں گھس گیا۔

دوسری طرف چوزااپنی ماں کے ساتھ جب پانی کےبرتن کے پاس گیا تو اس میں اپنا عکس دیکھا اور اپنی بگڑی ہو ئی حالت دیکھ کر زور زور سے رونے لگا۔ کیوں کہ اس کی گردن کے پاس کے سارے پر صاف ہوگئے تھے۔ شبّو نے اسے پیار کرتے ہوئے سمجھایا کہ:’’ کوئی بات نہیں میرے لعل یہ بچپن کے پر ہیں کچھ دنوں کے بعد تمہارے دوسرے پرآ جائیں گے ‘‘۔پھر اسے ڈانٹتے ہوئے کہا کہ ’’میں نے تمہیں گھر سے جاتے ہوئے جو نصیحت کی تھی تم نے اس پر کوئی عمل نہیں کیا جس کے نتیجے میں نقصان اٹھایا!‘‘ ……

’’ہاں! امّی جان، اب میں آپ کی ہر بات مانا کروں گا!‘‘ چوزے نے شرمندگی سے جواب دیا اور اپنی ماں کا لایا ہوا دانہ چگنے میں مصروف ہوگیا۔