شریک جماعتیں ایک پیج پر نہ ہونے سے پی ڈی ایم کی تحریک کمزور؟

February 11, 2021

صوبے میں بڑھتی ہوئی معاشی بدحالی ،بے روزگاری اور بدترین مہنگائی کے مارے عوام جہاں صوبائی حکومت سے مایوس نظرآرہے ہیں وہاں پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کے اندر پائے جانے والے اعتماد کے فقدان اور حکومت کے خلاف اعلان کردہ تحریک اور احتجاجی پروگرام کے حوالے سے ایک پیج پر نہ ہونے سے پیدا شدہ صورت حال نے بھی عوام کی مایوسی اور پریشنانیوں میں مزید اضافہ کردیا ہے ،تبدیلی کے دعویداروں کی جانب سے ہر ہفتے مہنگائی کا بم گرانے سے پریشان حال عوام نے اپنی نظریں اپوزیشن جماعتوںپر مرکوز کررکھی تھی اور امیدیں وابستہ کیں مگر گزشتہ چند ماہ سے پی ڈی ایم میںشامل جماعتیں اعلانات کے باوجود نہ تو خود پارلیمنٹ سے استعفوں کے فیصلےپر متفق ہوسکی ہے نہ ہی وزیراعظم کو استعفیٰ دینے پر مجبور کرسکی، جس سے تبدیلی سرکار کی عوام دشمن معاشی پالیسوں سے بے زار عوام کی بے چینی میں اضافہ نہ ہوگا تو اور کیا ہوگا۔

اس وقت جبکہ ایک طرف عوام کورونا وبا سے نمٹ رہے ہیں تو دوسری جانب حکومت اور حزب اختلاف عوام کے حقیقی مسائل پس پشت ڈال کر آپس میں مسند اقتدار کے لئے میں مشت گریباں ہیں ۔ پارلیمنٹ کے فلور پر ارکان کا ایک دوسرے کے خلاف الزامات تراشی اور احتجاج نے عوام کی مایوسی کے دلدل میں پھنسا دیا ہے اگر ایک جانب اپوزیشن مل کر حکومت کو گرانے اور خود اقتدار تک پہنچنے کیلئے سرگرم ہیں تو دوسری جانب حکومت آئے روز عوام کی مشکلات میں اضافے کیلئے بجلی ،گیس اور اشیا ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ کرکے غریب کش پالیسی پر گامزن ہے ملک لوٹنے والوں کا احتساب کرنے اور باہر کی بنکوں سے اربوں ڈالر لاکر غریبوں کو ریلیف دینے کے نام پر اقتدار حاصل کرنے والے یوٹرںخان نے بجلی ،گیس ،آٹا اورچینی سمیت دیگر اشیا کی قیمتوں میں تاریخی اضافہ کرکے غریب عوام کے ساتھ ساتھ ملک کے سفید پوش طبقے کی بھی چیخیں نکال دی ہیں۔

پارلیمنٹ سے استعفوں اور وزیر اعظم کو مستعفیٰ ہونے پر مجبور کرنے میں بظاہر ناکام نظر آنے والی پی ڈی ایم نے ایک مرتبہ پھر عوام کی حمایت حاصل کرنے کےلئے 26 مارچ کو وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کے خلاف لانگ مارچ کا اعلان کیا ہے اور اس کے علاوہ سینیٹ کے آنے والے انتخابات میں بھی مشترکہ طور پر حصہ لینے کا فیصلہ بھی کیا تاہم اپوزیشن نے حکومت کی طرف سے اوپن بیلٹ سے متعلق قومی اسمبلی میں پیش کیے گئے آئین میں ترمیمی بل کی مخالفت کی جس کےبعد اب حکومت کو ہرصورت سینیٹ انتخابات میں اپوزیشن کو آئوٹ کرنے اور سینیٹمیں اکژیت حاصل کرنے کے لئے آرڈنینس جاری کرنا پڑا ہے۔

اپوزیشن کو اس وقت سینیٹمیںحکومت پر عددی لحاظ سے واضح برتری حاصل ہے جبکہ سینیٹکی خالی ہونےوالی نشستوں میں سب سے زیادہ سیٹیں اپوزیشن جماعتوں کی خالی ہورہی ہیںجس سے سینیٹ میں اپوزیشن کی عددی برتری ختم ہوجائےگی اور کامیابی حاصل ہونےکی صورت میں حکومت کو قومی اسمبلی کے بعد سینیٹ میں بھی برتری حاصل ہوجائے گی جس کے لئے حکومت ایڑی چھوٹی کا زورلگا رہی ہے اور اب سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ کےذریعے کرانے کے لئے اپوزیشن کی مخالفت کے باوجود آرڈیننس جاری کیا گیا ہے جس سے اپوزیشن جماعتوں کو نئی تشویشن میںمبتلا کردیا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ اپوزیشن نے اس صورت حال کے باعث وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد اور اسمبلیوں سے استعفوں سے متعلق فیصلوں پر غور سینیٹ کے انتخابات کے بعد تک موخر کر دیا ہے۔ اپوزیشن کی تیاریاں اپنی جگہ لیکن پی ڈی ایم میں شریک جماعتوں کا ایک پیج پر نہ ہونے اور حکومتی اقدامات نے انکی تحریک کو مزید کمزور کر دیا ہے۔ دوسری جانب عوام ان سے اب یہ سوال کرنے لگے ہیں کہ جس طرح حکومت اپوزیشن کو ’’چور چور‘‘ کہہ کر عوام پر مسلسل مہنگائی کے بم گرارہی ہے بالکل اسی طرح اپوزیشن بھی مسائل کے گرداب میں پھنسے عوام کے دکھوں کا مداوا کرنے کے لئے ان کے پاس کیا لائحہ عمل ہے، اور اگر انہیں اقتدار مل بھی جائے تووہ بھی ہمیشہ کی طرح ان مسائل کی ذمہ داری سابقہ حکمرانوں پر ڈال کرکے خود کو ان سے بری الذمہ قراردینے میں زرا بھی دیر نہیں لگائیں گے،یہی وجہ ہے کہ مسائل کی بھنور میں پھنسے عوام حکومت کے ساتھ ساتھ اپوزیشن سے بھی نالان نظر آرہے ہیں۔

جہاں سینیٹ کے انتخابات سے اپوزیشن کی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے وہاں حکومت کی جانب سے بلدیاتی انتخابات کے اعلان نے بھی پی ڈی ایم کو مشکل میں ڈالا ہے کیونکہ ایک طرف بلدیاتی الیکشن کی تیاری ہے تو دوسری طرف عوام کو سڑکوں پر احتجاج کیلئے لانے کی بھی تیاریاں ہورہی ہیں جس سے اپوزیشن کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا ،بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے الیکشن کمیشن آف پاکستان نے خیبر پختونخوا اور پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کے انتظامات اور تاریخوں کے بارے میں سپریم کورٹ کو آگاہ کر دیا ہے۔

الیکشن کمیشن کی جانب سے کہا گیا ہے کہ خیبرپختونخوا میں بلدیاتی انتخابات دو مرحلوںمیں ہوں گے، پہلے مرحلے میں 8 اپریل کو بلدیاتی انتخابات ہوں گے، دوسرے مرحلے میں 29 مئی کو انتخابات ہوں گے۔سپریم کورٹ میں جمع کروائے گئے جواب کے مطابق پہلے مرحلے کا اعلان 12 فروری اور دوسرے مرحلے کا اعلان 25 مارچ کو کیا جائے گا۔

بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے ہفتے کو ہونیوالے الیکشن کمیشن کے اجلاس کے دوران سیکرٹری الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ بلدیاتی انتخابات،قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات سے کہیں زیادہ بڑے ہیں، پنجاب میں بلدیاتی حلقوں کی تعداد 25 ہزار اور خیبر پختونخوا کی 4 ہزار ہے، بلدیاتی انتخابات کے لیے پنجاب میں 20 کروڑ اور پختونخوامیں 10 کروڑ بیلٹ پیپر چھاپنا ہوں گے ۔ بلدیاتی انتخابات کے انعقاد پر 18 ارب روپے خرچہ آئے گا جب کہ پیپرز رولز کے تحت الیکشن مواد کی خریداری میں 3 ماہ لگ سکتے ہیں۔

اس اجلاس میں شریک پختونخوا کے وزیر قانون سلطان محمد کا کہنا تھا کہ صوبائی کابینہ نے صوبے میں 15 ستمبر کو بلدیاتی انتخابات کرانے کی تجویز دی ہے خیبرپختونخوا میں کورونا بڑھ رہا ہے اور ان حالات میں بلدیاتی انتخابات کرانا مناسب نہیں، صوبائی حکومت بلدیاتی قانون میں ترمیم کرنا چاہتی ہے۔