این اے۔75ڈسکہ انتخابات پر الیکشن کمیشن کے فیصلے کی نظیر نہیں ملتی

February 26, 2021

اسلام آباد ( تبصرہ طارق بٹ) این اے۔75 ڈسکہ انتخابات پر الیکشن کمیشن کے فیصلے کی نظیر نہیں ملتی۔ ای سی پی نے فیصلہ نامعلوم مختلف ذرائع کے علاوہ موجود ریکارڈ کی بنیاد پر دیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق، الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے این اے۔75 ڈسکہ کے ضمنی انتخابات کو کالعدم قرار دے کر دوبارہ انتخابات کا انعقاد کرنے کا حکم دیا ہے، جس کی متعدد وجوہات ہیں۔

اس میں سب سے اہم ای سی پی کی جانب سے مختلف ذرائع سے جمع کردہ ریکارڈ ہے، مختصر حکم نامے میں مختلف ذرائع کا نام نہیں بتایا گیا ہے۔

تاہم، اس سے یہ ثابت ہوچکا ہے کہ ای سی پی ، انتخابات میں حصہ لینے والی جماعتوں اور ریٹرننگ افسران کے جانب سے پیش کردہ ریکارڈ کی بنیاد پر کسی فیصلے پرپہنچنے سے قاصر رہا ہے۔

الیکشن کمیشن کے اعلامیہ کی نظیر نہیں ملتی ہے ، جس میں واضح طور پر ای سی پی اقدامات کی وضاحت ہے، ای سی پی نے پنجاب الیکشن کمشنر اور ان کےڈپٹی کو انکوائری کے لیے مذکورہ حلقے میں بھیجا تھا اور ان کی انکوائری سے ہی پولنگ کے روز کے حقائق اور صورت حال سمجھنے میں مدد ملی ہے۔

انتخابی عمل کی خامیوں میں حکومت پنجاب کے انتظامی اور سینئر پولیس افسران کی عدم دستیابی تھی، حالاں کہ چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا نے ان سے رابطے کی متعدد کوششیں کی تھیں۔ یہ فیصلہ ڈیڑھ درجن پولنگ اسٹیشنوں سے پریذائڈنگ افسران کی مشکوک گمشدگی تک محدود نہیں ہے بلکہ ان کی جانب سے نتائج کئی گھنٹوں کی تاخیر سے جمع کرائے جانے اور اس پر بےجا بہانے بنانا جیسا کہ دھند، ٹرانسپورٹ کی رکاوٹ، موبائل فون کی بیٹری ڈائون ہونا وغیرہ شامل ہیں۔

اس کے علاوہ حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ پولنگ والے روز امیدواروں اور ووٹرز کے لیے سازگار ماحول موجود نہیں تھا اور انتخابات کا انعقاد دیانت داری اور شفاف طریقے سے نہیں ہوا۔ قتل، فائرنگ، امن عامہ کی صورت حال سے خوف و ہراس پھیلا ، جس کی وجہ سے نتائج مشکوک اور غیریقینی ہوگئے ہیں۔

دریں اثنا ن لیگ اور پی ٹی آئی کے وکلا کی جانب سے ای سی پی کے پانچ ارکان کو پیش کیے گئے دلائل سے قع نظر، اس نے فوری حکم نامے سے ثابت کیا کہ وہ ایک خودمختار ادارہ ہے جو کہ آزادانہ طریقے سے بغیر کسی خوف کے اپنے فیصلے کرسکتا ہے۔ یہ ماضی کے ای سی پی سے بالکل مختلف ہے جو کہ انتہائی متنازعہ ہوگیا تھا اور جس کی وجہ سے سیاسی جماعتوں نے اس پر خوب تنقید کی تھی۔

فیصلے میں اس بات کی بازگشت سنائی دی گئی کہ 19 فروری کو حلقے میں افراتفری تھی اور انتظامیہ خاموش تماشائی بنی بیٹھی تھی۔ گن مین کچھ علاقوں میں فائرنگ کررہے تھے تاکہ ووٹرز میں خوف و ہراس پھیلا کر انہیں وہاں سے بھگادیا جائے۔

الیکشن کمیشن کے فیصلے کا ایک ذاویہ یہ بھی ہے کہ این اے۔75 کی سیٹ میں مستقبل میں کامیاب ہونے والا امیدوار 3 مارچ کے سینیٹ انتخابات میں اپنا ووٹ نہیں دے سکے گا کیوں کہ اس حلقے میں دوبارہ انتخابات کا انعقاد 18 مارچ کو ہوگا۔

یہ ای سی پی کے لیے ایک بڑا چیلنج ہوگا کہ وہ 18 مارچ کو پرامن اور شفاف طریقے سے دوبارہ انتخابات کا انعقاد کروائے۔ الیکشن مشینری جو کہ حکومت پنجاب کے سرکاری ملازمین پر مشتمل ہے، جس میں سے زیادہ تر ملازمین کا تعلق محکمہ تعلیم سے ہے، ان پر کڑی نظر رکھی جائے گی۔

اگر وہ پولنگ وال روز اپنے فرائض درستی سے ادا کرتے تو ای سی پی کا موجودہ حکم نامہ سامنے نا آتا۔ یہ مانا جارہا ہےکہ الیکشن کمیشن اس ضمنی انتخابات سے حاصل کیے گئے سبق کو مدنظر رکھتے ہوئے موثر انداز میں اپنے آئندہ فرائض انجام دے گا۔