’پنجابی‘ کا نوحہ

February 28, 2021

پنجابی زبان کے ساتھ جو سلوک خود مغربی پنجاب والے پنجابیوں نے کیا ہے ،اس کی نظیر ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتی یعنی بابا فرید گنج شکر، بابا بلھے شاہ، حضرت سلطان باہو، شاہ حسین اور وارث شاہ جیسے بزرگوں کی وہ زبان جس میں انہوں نے اپنا سارا کلام عام لوگوں تک پہنچایا ،اُسے ہمارے عاقبت نااندیش اداروں اور بے حس زعما نے عالم نزع میں پہنچا دیا۔ یہ بات قدرے درست ہے کہ تقسیمِ ہند کا اگر سب سے بُرا اثر کسی زبان پر ہوا ہے تو وہ یہی شاہ مکھی پنجابی ہےکیونکہ وہ ہندو پنجابی جو صدیوں سے اس زبان کو فخریہ بولتے آئے تھے، انہوں نے ہندی کو اپنی مادری زبان کہنا اور بولنا شروع کر دیا، گو کہ ہندوستان کے پنجابیوں نے بڑی جدوجہد سے اپنی پنجابی یا گرمکھی لہجے کو زندہ رکھا اور آج بھارتی پنجاب میں پنجابی زبان کو سرکاری اور دفتری زبان کا درجہ حاصل ہے لیکن صد حیف کہ پاکستانی پنجاب میں اس زبان کی وہ بے توقیری ہوئی کہ آج پنجاب بھر کی نوجوان نسل اس زبان میں گفتگو کرنا کمتری سمجھتی ہے حالانکہ اعدادوشمار یہ ہیں کہ پاکستان میں 60فیصد آبادی کی مادری زبان پنجابی ہے جبکہ 75فیصد پاکستانی یہ زبان بولنا جانتے ہیں لیکن افسوس اس زبان میں لکھنے والوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہی ہو گی۔

پاکستان کی 22یا 23کروڑ آبادی میں 48.78 فیصد پنجابی، 18.24فیصد پشتو، 14.57فیصد سندھی، 7.08فیصد اردو، 10فیصد سرائیکی اور 3.02فیصد بلوچی زبان بولی جاتی ہے، چنانچہ اگر آدھے سے زیادہ پاکستان پنجابی بولتا سمجھتا ہے تو کیا وجہ ہے کہ اس زبان کو پنجاب میں نہ تو سرکاری سرپرستی حاصل ہے اور نہ ہی پنجاب اسمبلی میں اسے بولنے کی اجازت ہے، شرمناک حد تک المیہ یہ بھی ہے کہ ہندوستان کی اس 11ویں اور برصغیر کی تیسری بڑی زبان پنجابی کا نہ تو کوئی قابل ذکر ٹیلی ویژن چینل ہے اور نہ کوئی اخبار، سوائے لاہور سے شائع ہونے والا ’’بھلیکھا‘‘ شاید 1995ء سے معروف صحافی مدثر اقبال بٹ شائع کر رہے ہیں اور مسلسل کئی دہائیوں سے پنجابی زبان کو اُس کا مقام دلوانے کے لئے دامے درمے قدمے سخنے اپنی کوشش جاری رکھے ہوئے ہیں۔ جس کے لئے وہ قابل تحسین تو ہیں لیکن حکومت کے لئے بھی لمحہ فکریہ ہے کہ وہ سٹیٹس کو، سے ہٹ کر اس ضمن میں کوئی قابل قدر قدم اٹھائے۔ یقیناً قبل ازیں بھی لاہور سے پنجابی کے اخبارات شائع کرنے کی کوششیں ہوتی رہیں جیسے 1989ء میں ظفریاب اور حسین نقی جو انگریزی اخبارات کے صحافی تھے‘ ان دونوں نے لاہور سے روزنامہ’’سجن‘‘ شائع کیا جو ایک سال سے بھی کم عرصہ تک چلا اور بند ہو گیا، پھر 2005ء میں معروف صحافی ضیاء شاہد نے روزنامہ’’خبراں‘‘ شائع کیا لیکن یہ بھی زیادہ عرصہ چل نہ سکا۔ 2006ء میں ’’لوکائی‘‘ کے نام سے بھی پنجابی اخبار شائع ہوا تاحال اس کے حالات کیا ہیں اس کا پتا نہیں لیکن ان سب کی ناکامی کی وجہ صرف حکومتی سرپرستی کا نہ ہونا ہی نہیں بلکہ بڑی وجہ یہ بھی ہےکہ گزشتہ سات دہائیوں سے پنجابی زبان ہمارے تعلیمی اداروں میں پڑھائی اور لکھائی ہی نہیں گئی یہی وجہ ہے کہ آج آدھا پاکستان پنجابی بولتا سمجھتا تو ہے لکھنا نہیں جانتا۔

دوسری طرف بھارتی پنجاب یا پورے ہندوستان میں پنجابی بولنے والے 33ملین یعنی پاکستان کے مقابلہ میں ایک چوتھائی بھی نہیں ہیں لیکن وہاں 30سے 35پنجابی اخبار شائع ہوتے ہیں اور وہ اپنی مادری زبان میں گفتگو کرنا فخر محسوس کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بھارتی پنجابی خواہ وہ سکھ ہو، ہندو یا کسی دوسرے مذہب کا ہو اور اُس کی نوجوان نسل خواہ امریکہ، برطانیہ، یورپ، افریقہ یا دنیا کے کسی حصے میں پیدا ہو اور پروان چڑھے وہ پنجابی بولتے سمجھتے ہیں لیکن ہم پاکستانیوں کے ساتھ ایسا نہیں ہے، گزشتہ ہفتے 21؍ فروری کو پاکستان میں مادری زبانوں کا دن تو منایا گیا لیکن شائد کم لوگوں کو علم ہو کہ یہ شروعات کیسے ہوئی۔ تاریخی حقائق کے مطابق قیام پاکستان کے وقت اس کی آبادی 6کروڑ 90لاکھ تھی اور اس میں 4 کروڑ 40لاکھ افراد بنگالی بولتے تھے لیکن جب ملک بنتے ہی اہم سرکاری دستاویزات پر سے بنگالی ہٹا کر اردو لکھ دی گئی تو یہ پہلا جھٹکا تھا کہ بنگالیوں کے دلوں میں خلش پیدا ہوئی۔ 21؍ فروری 1952ء کو اپنی مادری زبان بچانے کیلئے ایک جلوس نکالا گیا یہ پاکستان میں اردو کو سرکاری زبان کی حیثیت دیئے جانے کے خلاف تھا۔ پولیس نے جلوس کے شرکاء پر گولی چلا دی یہ شرکاء زیادہ تر طلبہ تھے‘ متعدد طالب علم ہلاک ہو گئے۔ 1999ء میں دو بنگلہ دیشی شہریوں کی جانب سے اُس وقت کے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کوفی عنان کو خط لکھا گیا اس کے بعد 21؍ فروری کو مادری زبان کا بین الاقوامی دن قرار دیا گیا اور 2010ء میں جنرل اسمبلی نے اس کی منظوری دے دی۔

سوال یہ ہے کہ اب ہمیں اپنی ماں بولی کی بقا کے لئے بھی چیخنا چلانا اور ماتم کرنا پڑے گا؟ ہم نے پنجابی جو ہمارے ملک کے آدھے لوگوں کی زبان ہے،کو کھڈے لائن تو لگا دیا لیکن یہ بھول گئے کہ آج جب دنیا کے تمام علوم زیادہ تر انگریزی میں ہیں اور انگریزی ہی ترقی کی زبان سمجھی جاتی ہے تو کیا یورپ کے 30ملکوں نے اپنی زبانیں چھوڑ کر انگریزی بولنا شروع کر دی ہے؟ تاریخی حقیقت تو یہ ہے کہ دنیا میں آج بھی سب سے زیادہ چینی زبان مندرین بولی جاتی ہے جسے ایک ارب لوگ بولتے ہیں‘ اس کے بعد ہسپانوی ہے جسے 400 ملین اور تیسرا نمبر انگریزی کا ہے جسے 335ملین لوگ بولتے ہیں، لہٰذا اپنی مادری زبان کو پس پشت ڈال کر کبھی قومیں ترقی کا زینہ نہیں چڑھ سکتیں، کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ دنیا بھر میں کم از کم پرائمری سطح تک بچوں کو اُن کی مادری زبان میں تعلیم دی جاتی ہے، ہمارے تاریخ دانوں اور محققین کو اس نکتے پر بھی روشنی ڈالنی چاہئے۔ آخر کیا وجہ تھی کہ پنجاب کے دو عظیم شاعروں علامہ اقبال اور فیض احمد فیض نے پنجابی ہونے کے باوجود اس زبان میں شاعری کرنے سے احتراز کیا؟