سینیٹ انتخابات، قرضوں میں اضافہ اور شعبہ صحت!

February 28, 2021

سینیٹ انتخابات میں بھی روپے، پیسے کے استعمال کے بارے میں خبریں گردش کر رہی ہیں۔ سینیٹ انتخابات 2018 میں ارکان اسمبلی کی خرید و فروخت کی ویڈیو کا منظر عام پر آنا تشویشناک امر اورناقابل فہم ہے۔ ویڈیو کا سینیٹ انتخابات 2021 سے چند روز قبل وائرل ہونا شکوک و شبہات کو جنم دیتا ہے۔ اگر آرٹیکل 63,62 پر اس کی اصل کے روح کے مطابق عمل در آمد ہوجائے تو ملکی سیاست کرپٹ عناصر سے پاک ہو جائے گی۔ نظریہ ضرورت کو بھی ہمیشہ کے لئےدفن کرنے کی ضرورت ہے۔ حالات چاہے جیسے بھی ہوں ملکی مفاداسی میں ہے کہ آئین و قانون پر سختی سے عمل در آمد کیاجائے۔مقام افسوس یہ ہے کہ اختیارات کے حصول کے لئے ہمیشہ کرپشن سے کمایا ہوا پیسہ استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ ضمیر فروشوں کی پشت پناہی کرنے والے اصل مجرم ہیں۔ جب تک ان کو قانون کی گرفت میں نہیں لایا جاتا اس وقت تک حقیقی تبدیلی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ پاکستان پر 74برسوں سے جاگیر داروں، وڈیروں اور سرمایہ داروں کا قبضہ ہے۔ مٹھی بھر اشرافیہ پاکستانی عوام کے مقدر سے کھیل رہی ہے۔ ان سے نجات حاصل کرنا وقت کا تقاضاہے۔حکومت نے یہ طرزعمل اختیار کرلیا ہے کہ اپنی ناکامی اور نا اہلی کا بوجھ اداروں پر ڈال دیا جائے۔ پاکستان کے 22کروڑ عوام با شعور ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ حکومت اپنی خراب کارکردگی کا سارا ملبہ اداروں پر ڈال کر خو د بری الذمہ ہونا چاہتی ہے۔ اب لوگ ان پر یقین نہیں کریں گے۔ معیشت تباہ ، ادارے بد حال اور مستقبل میں بہتری کی کوئی امید نظر نہیں آتی۔ ایسے فرسودہ نظام سے جب تک بغاوت نہیں ہوتی اس وقت تک حقیقی تبدیلی نہیں آسکتی۔ آئی ایم ایف سے کڑی شرائط اور حکومتی یقین دہانیوں کے بعد تعطل کاشکار چھ ارب ڈالر قرض کا پروگرام تو بحال ہو گیا لیکن معاشی بدحالی، غربت اور مزیدمہنگائی کی صورت میں پاکستانی عوام کو اس کی بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔حکومت پہلے ہی آئی ایم ایف سے قرضہ حاصل کرنے کی غرض سے مہنگائی میں مسلسل اضافہ کررہی تھی۔ مستقبل میں معاشی صورتحال زیادہ خراب ہوتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے۔ حکومت نے قرضہ حاصل کرنے کیلئےماضی کی حکومتوں کے بھی سارے ریکارڈ توڑ ڈالے ہیں۔ہمارے ارباب اقتدار کی ناقص پالیسوں کی بدولت گزشتہ دوبرسوں میں ملک وقوم پر قرضوں کے مجموعی بوجھ میں 11300ارب روپے کے اضافے کے بعد قرضہ36300ارب روپے تک پہنچ چکا ہے جو کہ جی ڈی پی کا 87فیصد بنتا ہے جبکہ اس رقم میں سعودی عرب اورمتحدہ عرب امارات سے لیا گیا قرضہ اورواجبات شامل نہیں ہیں۔

آٹے، پٹرول اور چینی کے مصنوعی بحران پیدا کرکے ملک وقوم کو لوٹنے والوں سے پائی پائی وصول کرنی چاہئے۔ اس حوالے سے شوگر ملوں سے 386 ارب روپے کی وصولی کا فیصلہ قابل تحسین ہے جس پر عملدرآمد ہونا چاہئے۔ شوگر ملوں کے ساتھ ساتھ ہر اس شخص سے وصولی کی جانی چاہئے جس نے قومی خزانے کو نقصان پہنچایا ہے۔ اس کا تعلق خواہ کسی بھی سیاسی جماعت سے کیوں نہ ہو۔بلاتفریق کارروائی عمل میں لائی جائے۔ ملک میں ہر طبقہ پریشان حال ہے۔حکومت کی جانب سے مہنگائی کے ستائے عوام پر مسلسل پٹرول بم گرائے جارہے ہیں۔ جب سے موجودہ حکومت آئی ہے، ایک دن بھی ایسا نہیں جب عوام نے سکھ کا سانس لیا ہو۔بیگم کوٹ لاہور میں اسکریپ کے گوداموں سے بھاری مقدار میں پولیو ویکسین کی بر آمدگی نے حکومت کی پولیو مہم پر سنگین سوالات کو جنم دیا ہے۔گودام سے ملنے والی پولیو ویکسین وائلز کو دوبارہ استعمال کےلئے واش کیا جارہا تھا جبکہ ویکسین 2022 میں ایکسپائر ہونا تھی۔ اس گھناؤنی حرکت میں ملوث افراد کو جلد ازجلد گرفتار کرکے نشانِ عبرت بنایا جانا چاہئے۔ حکومت کی کمزور رٹ کے باعث انسانی زندگیوں سے کھیلنے والے دندناتے پھررہےہیں ، ان کو کسی قسم کاکوئی ڈر خوف نہیں۔ اگر کوئی پکڑا بھی جائے تو رشوت دیکر اور قانون میں موجود سقم سے فائدہ اٹھاتے ہوئے با عزت بری ہوجاتا ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ انسانی جانوں سے کھیلنے والوں کا سخت محاسبہ کیا جائے۔ پاکستان کے 22کروڑ عوام کو پہلے ہی صحت کی بنیادی سہولتیں میسر نہیں ہیں۔ اسپتالوں کی حالت زار کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ مریض لواحقین کے ساتھ دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں، ان کا کوئی پرسانِ حال نہیں۔ کورونا ویکسین کے حوالے سے بھی لوگوں میں خدشات بڑھ رہے ہیں۔ہیلتھ ورکرز بھی کورونا ویکسین لگوانے سے ہچکچا رہے ہیں۔ ابھی تو کورونا ویکسین کا پہلا مرحلہ ہے اگر شکوک و شبہات کی یہی فضا رہی تو حکومت پورے پاکستان میں کورونا ویکسین لگانے کا ہدف پورا نہیں کر سکے گی۔