سوال، کمال اور زوال کی کہانی

March 02, 2021

زندگی جتنی بےق درد ہے، اتنی ہی دلچسپ بھی ہے مثلاً میں کبھی کبھی یہ سوچ کر عجیب سا محسوس کرتا ہوں کہ مجھ جیسے ایرے غیرے نے تو شاہجہاں کا شہکار ’’تاج محل‘‘ دو بار دیکھا ہے لیکن نور الدین جہانگیر، جلال الدین اکبر، نصیر الدین ہمایوں، ظہیر الدین بابر جیسے اس کے بزرگوں کے وہم و گمان میں بھی نہ ہو گا کہ ان کا برخوردار دنیا کو کیسا تحفہ دان کر گیا۔ اسی طرح سلطان محمد فاتح سے لے کر سلطان سلیمان عالیشان تک کو کیا خبر کہ ان کی اولادوں پر ان کے اپنے ملک کی زمین ہی کیسے تنگ ہوئی اور وہ کیسے کیسے انجام سے دوچار ہوئے۔ اسی طرح ایک بار کیلگری میں صفوی خاندان کے چشم و چراغ سے ملاقات ہوئی۔ اس خوب صورت نوجوان سے گفتگو کے دوران میں مسلسل سوچتا رہا کہ اسے ملنے دیکھنے والا کوئی شخص سوچ بھی نہیں سکتا کہ کینیڈا میں انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کرنے والا ان لوگوں کی اولاد ہے جنہوں نے صدیوں ایران پر اس طرح حکومت کی کہ ان کے زمانہ میں اصفہان کو ’’نصف جہان‘‘ کہا جاتا تھا۔ یہ خیال بھی آتا ہے کہ کیا امرتسر کے ایک گائوں کے رہائشی نواز شریف کے دادا نے کبھی سوچا ہو گا کہ مجھ غریب کا پوتا پاکستان نامی کسی ملک میں برسہا برس حکمران رہے گا اور جب بابائے قوم محمد علی جناح قیامِ پاکستان کیلئے جان توڑ محنت کر رہے تھے تو کیا کبھی ان کے تصور میں بھی یہ بات آئی ہو گی کہ کیسے کیسے لوگ ان کے پاکستان کے ساتھ کیا کیا کچھ کرتے رہیں گے۔

بے شک وہ انسانوں کے درمیان دنوں کو پھیرتا رہتا ہے۔ آج کے کمیّ کل کے معزز، کل کے حکمران آج کے کمیّ کہ زندگی کا سب سے بڑا عجوبہ تو خود زندگی ہے۔ خدا جانے یہ کیسی پہیلی، کیسا گورکھ دھندا ہے۔ قیام پاکستان کے وقت کے گیزیٹیرز اٹھا کر دیکھیں کہ صرف 70سال پہلے لاہور کے شرفا، رئوسا، عمائدین و معززین کون تھے؟ ان خاندانوں میں سے کوئی ایک بھی آج کسی شمار قطار میں نہیں بلکہ بیشتر کے نام و نشان تک مٹ چکے جبکہ جو اس وقت بے نام و نشان تھے آج ان کی اولادیں اس شہر کی پہچان ہیں تو مطلب صرف یہ کہ ڈرتے رہنا چاہئے۔ کمیوں اور خاندانیوں میں صرف ایک معمولی سے جھٹکے کا فرق اور فاصلہ ہوتا ہے۔

ذرا غور فرمائیں اگر شتر مرغ کو چڑیا کی ٹانگیں مل جاتیں تو کس بری طرح ذلیل و خوار ہوتا۔ ہاتھی کو گھوڑے اور گھوڑے کو ہاتھی کی ٹانگیں مل جاتیں تو آج دونوں کے حالات کیسے ہوتے۔ پوری دنیا کے مہذب لوگ آج بھی دونوں ورلڈ وارز پر گہرے دکھ، رنج اور ملال کا اظہار کرتے ہیں کہ کروڑوں لوگ ان کا شکار ہو گئے لیکن بہت کم لوگ اس راز سے واقف ہیں کہ یہ دونوں عالمی جنگیں انسان کو صدیوں آگے بھی لے گئیں مثلاً جنگ عظیم سے پہلے بال پوائنٹ کا وجود نہ تھا صرف فائونٹین پن ہوتے تھے جو تیز رفتار جنگی جہازوں کے پائلٹوں کی جیبوں میں پریشر سے پھٹ جاتے جس کے نتیجہ میں بال پوائنٹ ایجاد کرنا ضروری قرار پایا کہ ’’ضرورت ایجاد کی ماں ہے‘‘ جیسے محاورے یونہی معرض وجود میں نہیں آتے۔

انسان اشرف المخلوقات ہے لیکن کسی بھالو، بن مانس کے ایک تھپڑ کی مار نہیں لیکن دوسری طرف یہ اپنے بنائے ہوئے ہتھیار سے ہاتھی کو بھی بہ آسانی ڈھیر کر سکتا ہے۔ انسان کا بچہ مدتوں محتاجی کی زندگی گزارتا ہے جبکہ بہت سے جانوروں کے بچے پیدا ہوتے ہی چند دنوں یا ہفتوں کے اندر اندر خودکفیل ہو کر خود ہی کھانے پینے اور بھاگنے دوڑنے لگتے ہیں مثلاً گھوڑے کا بچہ جو انسان کے بچے کے برعکس پیدائش کے فوراً بعد ہی بھاگنے لگتا ہے یا معصوم سی بلی کا بلونگڑا چند ہفتوں میں ہی اس قابل ہو جاتا ہے کہ خود اپنی خوراک کا بندوبست کر سکے جبکہ اشرف المخلوقات کا بچہ عرصہ تک حفاظت، نگرانی، نگہداشت کا محتاج رہتا ہے اور تب کوئی سوچ بھی نہیں سکتا کہ جسمانی طور پر یہ کمزور ترین مخلوق مریخ اور اس سے آگے بھی پہنچ سکتی ہے، حقیر ترین ذرے ایٹم کو توڑ کے تباہیاں بھی مچا سکتی ہے اور جینیاتی کوڈ کی گرہیں کھول کر پوری انسانی تاریخ اور عقائد تک کو زیر و زبر کر سکتی ہے۔ بظاہر کمزور ترین یہ مخلوق جو انسان کہلاتی ہے دراصل اس کرئہ ارض کا طاقتور ترین جانور ہے۔ اکیلی آگ کی ایجاد اور استعمال نے ہی انسان کو عظیم الجثہ جانوروں پر فوقیت دلا دی تھی۔ ڈائنو سارز سے لے کر ہاتھیوں تک کو آگ کے استعمال کی سمجھ نہ آئی تو یہ کس کا کمال ہے؟ یہ جینیاتی تفریق کیا ہے کہ ایک جنس دوسری جنس کے لئے قطعاً کوئی کشش محسوس نہیں کرتی ورنہ کوئی بندر بھی کسی شیریں، جولیٹ، سستی، لیلیٰ کے عشق میں مبتلا ہو سکتاتھا۔

قصہ مختصر کہ مختصر ہی بھلا ورنہ بات زیادہ پھیل کر ہاتھ سے نکل گئی تو لینے کے دینے پڑ جائیں گے کیونکہ پاکیزہ معاشروں میں سوال اٹھانے کی اجازت نہیں ہوتی۔ یہ علیحدہ بات کہ جہاں سوال نہ اٹھایا جا سکے وہاں کمال نہیں صرف زوال مقدر ہوتا ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)