خون سے افسانے تحریر کرحوّا زادی

March 07, 2021

حرف بہ حرف … رخسانہ رخشی، لندن
ایسی سنگدل ہوجانا کہ پیچھے مڑ کر نہ دیکھنا کیونکہ بہت سے خدائوں کے درمیان تنہائیت بن کر کھڑے رہنے سے بہتر ہے کہ خود کو لہروں کے حوالے کردو۔ کیا ہوا کہ تمہارے خواب شرمندہ تعبیر ہیں۔ تم ابھی تک پتھروں کے درمیان سنہرے خواب دیکھنے کی تمنائی ہو، پھر اس کی تعبیر بھی معصوم سی خواہشات کے درمیان دیکھنا چاہتی ہو۔ ابھی تمہاری قسمت چمکنے سے رہی۔ اے حوا زادی! ابھی اور آزمائش سہہ لو، حادثے بغل گیر ہوں گے اور ہوتے رہیں گے۔ ابھی ہوس کے پجاری تمہیں اور سزا دیں گے۔ ابھی تو آس ویاس اور حسرت تمہارا مقدر ہے۔ کب بچا پایا زمانہ تمہیں حریص اور ہوس پروروں سے کہ ان کا لالچ ختم نہ اور تمہاری مجبوری طویل ہو۔سائنسی شعور کا عالم یہ ہے کہ کوئی اپنی محبوبائوں کو چاند پر بسانا چاہتا ہے، وہ جو چاند لانے کی بات کرتے تھے، اب چاند پر بسیرا چاہتے ہیں۔ سائنسی شعور نے انسان کو کہاں سے کہاں تک پہنچا دیا مگر سمندروں میں جواہر تلاش کرنے والے موجوں کی لہروں میں فنا ہوتی حوا زادی کو بھی تاحال زمانے میں ڈٹ کر شعور حاصل ہوگیا، بلکہ شعور کے بعد عروج حاصل ہوگیا مگر عورت کی قسمت ابھی تک جہیز کے طعنے سہنے تک ہے، الجھی ہوئی ہے کہ ابھی تک اس کی موت جو مختلف وجوہات کی بنا پر ہوتی ہے، اس کی گتھی سلجھنا مشکل ہے۔ کبھی اس کی ساس جلاکر مار دیتی ہے۔ کبھی خود جھلس جاتی ہے۔ جدیدیت کا رونا رونے والی ’’لبرل آنٹیاں‘‘ انہیں بے حیائی اور بغاوت پر آمادہ ضرور کرتی ہیں، ہر سال خواتین کے عالمی دن پر مختلف نعرے دے کر مگر ان کے مسائل سے لا علم ہیں۔ حتیٰ کہ کبھی ان کے قاتلین کو سزا تک دلانے میں یہ لوگ مقتولہ کے گھر والوں کے ساتھ نہ کھڑی ہوئی ہیں۔ کیسے انصاف ملے گا اس حوا زادی کومعاشرے کا کوئی ادارہ ایسا نہیں جہاں خواتین کے حقوق کی بات ٹھوک بجاکر کی جائے۔ قانون تک انصاف دلانے میں ناکام ہے، کہیں بھی اس کے حقوق کی پاسداری ممکن نہیں، تب ہی آج بھی عورت اپنے حق کے لیے تنہا کھڑی ہے۔ جب سے کائنات وجود پائی ہے، تب سے اب تک 1911ء میں یعنی صدی پہلے اسے اس قابل جانا گیا کہ اس اہم وجود کو پذیرائی بخش کر اس کا دن ہی منالیا جائے مگر اقوام متحدہ نے بھی اسے60سال کے بعد اتنی اہمیت بخشی کہ چلو اسے لیگل اہمیت دے ہی دو، یوں پھر1999ء میں اسے وہ مقام تو حاصل ہوگیا کہ اس کے نام کا ڈنکا بجایا جائے۔ 8مارچ کو تو وہ تو بج ہی گیا نہ صرف بجا بلکہ ہر سال بجایا جاتا ہے بلکہ ایک قسم کا عورت کو مزید پیچھے یہ دن لے جاتا ہے۔ ہر سال مختلف واقعات مگر اشرف المخلوقات پر بھی مرد ہی ٹھہرا۔ بس اشرف المخلوقات کہلانے کا حق ہر جاندار کو ہے، عورت اور مرد کو مختلف فضلیتیں بخشی گئیں۔ کچھ باتوں میں مرد اور کچھ میں عورت کو برتری دے کر قدرت نے ہی برابری کا حق دیا تھا مگر زمانے کے معاشروں نے عورت کو وہ مقام نہ بخشا جس کی وہ حق دار ہے۔ حالانکہ عورت مرد سے صلاحیتوں کے لحاظ سے کافی اہمیت رکھتی ہے۔ دماغی صلاحیتیں تہذیب وسلیقہ یہاں تک کہ اگر تعلیم نسواں پر دھیان دیا جائے تو ہر شعبے میں صرف خواتین ہی چھائی رہیں، خواتین نہ صرف ذمہ داری نبھاتی ہیں بلکہ منظم طریقے سے کام سنوارنے کی اہلیت بھی عورت ہی کا کمال ہے۔جس قوم اور سلطنت میں عورت کو ذمہ دار بنایا گیا، وہ اں ان کی لیاقت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے مگر معاشرے کی کچھ منفی رویے اور مردوں کی انتہا پرستی کہ عورت کو ہر حال میں غلام اور قید رکھا جائے نے عورت کی صلاحیتوں کو زنگ آلود کردیا اور کچھ عورت کے دن کی اہمیت نے بھی اسے وہیں کھڑا رہنے دیا کہ مسائل جوں کے توں ہیں کیونکہ ہر عالمی دن پر ایک خاص رسہ کشی لبرل آنٹیوں اور انتہا پرست مردوں میں شروع ہوجاتی ہے، وہہ آنٹیاں ان کے حقوق کی جنگ لڑنے کی بجائے عورت کو کون سی آزادی دلوانے کے چکر میں رہتی ہیں کہ بے چاری عام عورت چادر اور چار دیواری کی عزت سے بھی محروم اگرچہ نہیں ہوتیں مگر اس کے تقدس سے بھی چلی جاتی ہیں۔ ان آنٹیوں سے پوچھا جائے کہ وہ کون سی انہیں آزادی دلوائیں گی اور وہ کون سے حقوق ہیں جو انہیں اسلام نے عطا نہیں کیے، گندے سلوگن سے اگر عورت کی تقدیر بدلتی تو یہ دن منانے سے پہلے ہی بدل جاتی، دنیا بھر کی خواتین جس بھی آزادی کی جنگ جب سے لڑ رہی ہیں تب ہی سے انہیں ان کے حسب منشاء مل چکا ہوتا اور عام مظلوم خواتین بھی ظلم سہنے کی بجائے اپنی موت کے پروانے ہاتھوں میں اٹھاکر مختلف طریقوں کی موت کو گلے نہ لگاتیں۔ ان کے حقوق کی جنگ زیادہ ضروری ہے آزادی کی جنگ سے۔غم ماضی، غم امروز و فرد۔اخیالوں کو ملے کتنے سہارے عورت کا نصیب اگر خریدا جاتا تو والدین سب سے پہلے بیٹیوں کا نصیب خریدلیتے کہ انہیں غم ماضی، غم امروز و فردا کے غمزے نہ سہنا پڑتے اور کوئی حوا زادی موت کے افسانے اپنے خون سے تحریر نہ کرتی۔ کوئی عائشہ مسلم سماج میں یہ کہہ کر خودکشی نہ کرتی کہ ’’اے اللہ کسی بھی جسم میں کبھی مجھے انسانوں کی شکل نہ دکھانا۔‘‘ کتنی بڑی منطق چھپی تھی اس کے درد میں۔وہ کہتے ہیں تاکہ ہمارے سے ہمارا مذہب نہ پوچھو کہ ہم انسانوں میں شامل ہوگئے ہیں، تو پھر انسان ہی انسانوں کو کیا، کیا دن دکھاتا ہے۔ آج ہمارا معاشرہ بھی انسانوں اور اس کے ساتھ جڑے مذہبی معاشرہ ہے۔ دینی جماعتیں ہیں، اجتماعات منعقد ہوتے ہیں، شعائر اسلام پر بات کرتے لوگ دین کی جزئیات پر زور دیتے ہیں مگر حقوق العباد اور معاملات پر بات نہیں ہوتی ہے۔ آزادی کی علمبردار لبرل آنٹیاں بھی جہیز جیسی لعنت کے خلاف مہم کم چلاتی ہیں، تب ہی پھر مسلم لڑکیاں یا تو ارتداد کا شکار ہورہی ہیں یا پھر خودکشی کررہی ہیں۔ عورت کو انصاف ہر طرح سے ملنا چاہیے۔ جہیز کے خلاف سماجی بیداری لانے کی ضرورت ہے کہ کسی عائشہ کو پھر کسی نہ کسی منطقی الفاظ و معنی کے ساتھ خودکشی نہ کرنا پڑے۔ علما کو نکاح اس وقت پڑھوانا چاہیے کہ جب تک لڑکا یا اس کے گھر والے جہیز کی لعنت سے تائب نہیں ہوجاتے۔عورت کو راحت جاں، سکون قلب، رونق کائنات، افق کی دھنک اور گوہر نایاب سمجھ کر اس کی عزت کی جائے تو کبھی اس کا عالمی دن منانے کی ضرورت نہ ہو کیونکہ ہر دن عورت کا دن ہو تو کبھی پھر اسے سمندر کی لہروں پر جان دے کر موت کا افسانہ نہ تحریر کرنا پڑے۔