میں بچ گئ ماں

March 08, 2021

زہرا نگاہ

میں بچ گئی ماں

میں بچ گئی ماں

ترے کچے لہو کی مہندی

مرے پور پور میں رچ گئی ماں

میں بچ گئی ماں

گر میرے نقش ابھر آتے

وہ پھر بھی لہو سے بھر جاتے

مری آنکھیں روشن ہو جاتی تو

تیزاب کا سرمہ لگ جاتا

سٹے وٹے میں بٹ جاتی

بے کاری میں کام آ جاتی

ہر خواب ادھورا رہ جاتا

مرا قد جو تھوڑا سا بڑھتا

مرے باپ کا قد چھوٹا پڑتا

مری چنری سر سے ڈھلک جاتی

مرے بھائی کی پگڑی گر جاتی

تری لوری سننے سے پہلے

اپنی نیند میں سو گئی ماں

انجان نگر سے آئی تھی

انجان نگر میں کھو گئی ماں

میں بچ گئی ماں

میں بچ گئی ماں