علی زیب پر فلمائے گئے سُپر ہٹ گیت !!

March 16, 2021

فلم ’’چراغ جلتا رہا‘‘ محمد علی اور زیبا متعارف ہوئے۔ محمد علی نے ایک خودسر مغرور نواب کا کردار بہ خوبی نبھایا۔ حسین و جمیل زیبا پر اس فلم میں دو سولو نغمات نور جہاں کے فلمائے گئے ، جب کہ محمد علی پہ کوئی نغمہ فلمایا نہیں گیا۔ اس فلم کے بعد علی زیب ’’دل نے تجھے مان لیا‘‘ میں آئے۔ کمال نے زیبا کے مقابل ہیرو کا کردار نبھایا، جب کہ محمد علی ولن بنے تھے۔ علی زیب بہ حیثیت ہیرو، ہیروئن پہلی بار ہدایت کار نذیر صوفی کی فلم ’’ہیڈکانسٹیبل‘‘ میں جلوہ گر ہوئے۔ اس فلم میں علی زیب پر پہلا دو گانا ’’لے کے انگڑائی میرا پیار جگانے والے‘‘ فلمایا گیا۔

اسے موج لکھنوی نے لکھا اور دھن نثار بزمی کی تھی۔ علی زیب پر دوسرا دو گانا فلم ساز زیبا، ہدایت کار ایس سلیمان، موسیقار نثار بزمی، نغمہ نگار مسرور انور اور کہانی نویس یونس راہی کی گولڈن جوبلی ہٹ فلم ’’آگ‘‘ میں فلمایا گیا، جو نہایت مقبول دو گانا ثابت ہوا۔ ’’موسم حسیں ہے لیکن تم سا حسیں نہیں ہے‘‘۔ علی زیب پر فلمائے دونوں ابتدائی دو گانوں کی دھنیں بنانے کا اعزاز نثار بزمی کو حاصل ہوا۔ ’’آگ‘‘ کے اس دل کش دو گانے کے بعد فلم ساز میاں احسان، ہدایت کار لقمان اور موسیقار رشید عطرے کی گولڈن جوبلی ہٹ فلم ’’محل‘‘ میں علی زیب پر دو خوب صورت فلمائے گئے۔ ان دونوں دوگانوں کو فیاض ہاشمی نے رقم کیا۔

’’سنا ہے کہ دل دے کے دیتے ہیں دھوکہ، مگر میری جان ہم تو ایسے نہیں ہیں‘‘ اسے احمد رشید اور رونا لیلیٰ نے اپنی آوازوں سے نکھارا۔ ’’آواز جب بھی دیں ہم، پہچان جائیے گا‘‘ مہدی حسن اور نگہت سیما نے خُوب صورتی سے اسے گایا۔ ’’محل‘‘یکم مارچ 1968ءکو کراچی کے مین سنیما ’’بمبینو‘‘ پر ریلیز ہوئی۔ علی زیب پر فلمایا گیا پانچواں دو گانا سولہ اگست 1968ء کو نمائش کے لیے پیش کی جانے والی فلم ’’دل دیا درد لیا‘‘ میں شامل ہوا۔ تنویر نقوی کے تحریر کردہ اور اے حمید کے کمپوز کردہ اس طربیہ دو گانے کو احمد رشدی اور رونا لیلیٰ نے بڑے چائو سےگایا۔ ’’میں نے کہا ذرا سنیئے ذرا! مجھ سے محبت ہے کہ نہیں! نہیں نہیں ابھی نہیں‘‘۔

ہدایت کار ایس ٹی زیدی (پورا نام سید طیب زیدی) اور موسیقار نثار بزمی کی فلم ’’تاج محل‘‘ جو 22؍ دسمبر 1968ء کو عیدالفطر پر کراچی کے مرکزی سنیما نشاط پر ریلیز ہوئی۔ اس تاریخی، ملبوساتی سلور جوبلی فلم میں خُوب صورت جوڑی علی زیب پر چھٹا دو گانا فلم بند ہوا، جسے تنویر نقوی نے لکھا۔ مالا اور مسعود رانا نے رعنائی سے اس دو گانے کو گایا۔’’مٹ گئے سارے غم، مل گئے جب حضور، مٹ گئے سارے غم‘‘۔اس فلم میں علی زیب پر دوسرا دوگانا ’’آج وعدہ وفا کا کرنا ہوگا‘‘۔بھی فلمایا گیا۔ اسے منیر حسین اور رونا لیلی نے گایا تھا۔ شاعر کلیم عثمانی تھے۔

علی زیب پر رنج و الم کی کیفیت میں ڈوبا پہلا دو گانا مذکورہ چھ طربیہ دو گانوں کے بعد فلم ساز قدیر خان، ہدایت کار و اداکار اقبال یوسف کی رومانوی، نغماتی فلم ’’تم ملے پیار ملا‘‘ میں فلمایا گیا۔ مہدی حسن اور نورجہاں کے گائے اس لاجواب دو گانے کے بول یہ ہیں۔’’آپ کو بھول جائیں ہم اتنے تو بے وفا نہیں‘‘۔ اس غمگین دو گانے کے علاوہ اسی فلم میں علی زیب پر ایک دل کش طربیہ دو گانا بھی فلمایا گیا، جسے نور جہاں اور منیر حسین نے خوب صورتی سے گایا۔’’اپنے پہلو میں میرے دل کو مچل جانے دو، مچل جانے دو‘‘

9؍ مئی 1969ء کو ریلیز ہونے والی سید سلیمان کی سلور جوبلی فلم ’’جیسے جانتے نہیں‘‘ میں علی زیب پر مسرور انور کا لکھا ہوا اور نثار بزمی کا کمپوز کردہ دو گانا فلمایا گیا، اسے مالا اور احمد رشید نے گایا ’’تیری آنکھوں سے میرے دل نے دھڑکنا سیکھا‘‘۔ فلم ’’بہورانی‘‘ میں علی زیب پر فیاض ہاشمی کا لکھا ایک دل کش دوگانا فلمایا گیا، جسے اپنی آوازوں سے سجایا احمد رشدی اور مالا نے اور بول تھے۔’’محبت کے قابل ہے صورت تمہاری۔ ’’بہورانی‘‘ کراچی کے مین سابقہ تھیٹر ’’کوہ نور‘‘ کی زینت بنی۔ علی زیب پر اگلا دو گانا بارہ دسمبر 1969ء کی عیدالفطر پر ریلیز ہونے والی ہدایت کار سید سلیمان اور خاتون موسیقار شمیم نازلی کی فلم ’’بہاریں پھر بھی آئیں گی‘‘ میں فلمایا گیا۔ خواجہ پرویز کے لکھے اس دو گانے کو احمد رشید ور مالا نے گایا ’’خوش نصیبی ہے میری تم نے اپنایا ہے۔

شباب کیرانوی کی گولڈن جوبلی ہٹ فلم ’’انسان اور آدمی‘‘ میں علی زیب پر نہایت شاندار دو گانا ’’تو جہاں کہیں بھی جائے میرا پیار یاد رکھنا‘‘ فلمایا گیا۔ شباب کیرانوی کے اس یادگار دو گانے کو موسیقار ایم اشرف کی بنائی طرز پر مہدی حسن اور نور جہاں نے گایا۔ ’’انسان اور آدمی‘‘ 15؍ مئی 1970ء لیرک سنیما پر ریلیز ہوئی۔ کراچی سرکٹ میں یہ فلم 57؍ ہفتوں کے ساتھ شاندار گولڈن جوبلی کے اعزاز سے نوازی گئی۔ علی زیب پر اگلا دو گانا ہدایت کار لئیق اختر کی فلم ’’نورین‘‘ میں نثار بزمی کے کمپوز کردہ دو گانے کو احمد رشدی اور مالا نے گایا۔ ’’کتنی بار ملے ہیں لیکن آج بھی یوں لگتا ہے کہ جیسے ملے ہوں پہلی بار‘‘۔فلم ’’نورین‘‘ کے بعد علی زیب پر ہدایت کار سید سلیمان کی فلم ’’محبت رنگ لائے گی‘‘ میں مہدی حسن اور مالا کا گایا دو گانا فلمایا گیا۔

مسرور انور نے اسے لکھا اور نثار بزمی نے اس کی دھن مرتب کی۔ ’’تم میری آنکھوں میں ایک بار ذرا دیکھو تو‘‘۔سال 1970ء ہی میں علی زیب پر ایک اور یادگار دوگانا ہدایت کار مسعود پرویز کی رنگین فلم ’’نجمہ‘‘ میں فلمایا گیا، ماسٹر عنایت حسین کے کمپوزکردہ اور قتیل شفائی کے تحریر کردہ اس دو گانے کو آوازوں سے سجایا، احمد رشدی اور مالا نے کچھ اس طرح سے۔’’چلے ٹھنڈی ہوا تھم تھم، لے لے سیاں مجھ سے پیار نبھانے کی قسم‘‘۔

ہدایت کار لقمان کی فلم ’’دنیا نہ مانے‘‘ 7؍ فروری 1971ء کو کراچی کے سابقہ نشاط سنیما پر ریلیز ہوئی علی زیب پر احمد رشدی اور مالا کا گایا یہ دوگانا تھا جسے ناشاد نے کمپوز کیا اور تسلیم فاضلی نے اسے لکھا۔ ’’سنا ہے چاند پر انسان رہیں گے‘‘۔ عزیز میرٹھی کی بہ طور ہدایت کار آخری فلم ’’یادیں‘‘ دو اپریل 1971ء کو نشاط پر ریلیز ہوئی، گلوکار رجب علی اس فلم سے متعارف ہوئے۔ انہوں نے نور جہاں کے ساتھ ایم اشرف کی بنائی دل کش دھن پر تسلیم فاضلی کا دو گانا گایا، جو علی زیب پر فلمایا گیا۔’’مجھ سا تجھ کو چاہنے والا اس دنیا میں کوئی اور ہو اللہ نہ کرے جی اللہ نہ کرے۔‘‘۔ ’’ڈھونڈھ رہی تھیں جانے کب سے تیری صورت میری آنکھیں‘‘۔ یہ خُوب صورت دوگانا علی زیب پر سید سلیمان کی گولڈن جوبلی ہٹ فلم ’’تیری صورت میری آنکھیں‘‘ میں فلمایا گیا۔

اسے تسلیم فاضلی نے لکھا، ناشاد کی بنائی طرز پر احمد رشدی اور مالا نے اسے گایا۔ ہدایت کار ایس ٹی زیدی کی فلم ’’بدلے گی دنیا ساتھی‘‘ 28؍ اپریل 1972ء کو ریوالی پر ریلیز ہوئی علی زیب پر موسیقار طافو کی موسیقی میں احمد رشدی اور مالا کی آوازوں میں یہ دو دوگانے فلمائے گئے۔ ان دو گانوں کو بالترتیب خواجہ پرویز اور تسلیم فاضلی نے لکھا۔ ’’یہ جھومتی فضا ہے یا پیار کا نشہ ہے‘‘۔ ’’تجھ سے ملی ہے زندگی، تجھ سے ہے میری زندگی‘‘۔ ’’اگر کوئی پوچھے بہاروں کا مطلب بتادوں گا تیری ادائوں کا نام‘‘۔ طربیہ اور غمگین امتزاج کا حامل یہ دو گانا علی زیب پر سید سلیمان کی شان دار سلور جوبلی ہٹ فلم ’’محبت‘‘ میں فلمایا گیا۔ طربیہ حصہ محمد علی پر اور غمگین حصہ زیبا پر فلمایا گیا۔ اس دو گانے کی لاجواب منفرد دھن نثار بزمی نے بنائی اور اسے قتیل شفائی نے لکھا ۔ گلوکاران احمد رشدی اور رونا لیلی تھے ۔

اسی سال 1972ء میں سید سلیمان کی فلم ’’سبق‘‘میں بھی علی زیب پر ایک دو گانا فلم بند ہوا۔ اسے بھی نثار بزمی نے کمپوز کیا اور کلیم عثمانی نے اسے لکھا۔ احمد رشدی اور مالا نے دلکش انداز میں یہ دوگانا گایا۔ ’’یہ ہوائیں، یہ فضائیں تیرا میرا پیار دیکھ کر مسکرائیں‘‘۔ سبق آموز فلم ’’سبق‘‘ 15؍ دسمبر کو کراچی کے مین سابقہ سنیما اوڈین پر ریلیز ہوئی اور گولڈن جوبلی سے ہمکنار ہوئی۔ 11؍ جولائی 1975ء کو ریلیز ہونے والی ہدایت کار لئیق اختر کی فلم ’’ایثار‘‘ میں علی زیب پر مہدی حسن اور مہناز بیگم کا گایا یہ دلکش دوگانا فلمایا گیا۔’’محبت کو تم میری منزل بنادو، مجھے اپنی چاہت کے قابل بنادو‘‘۔

یہ دو گانا مہناز بیگم کا مہدی حسن کے ہمراہ اولین دوگانا بھی ہے، جسے مسرور انور نے لکھا اور نثار بزمی نے کمپوز کیا۔ علی زیب پر آخری دو گانا 15؍ ستمبر 1989ء کی ریلیز فلم ’’محبت ہو تو ایسی ہو‘‘ میں فلمایا جو اتفاق سے اس حسین جوڑی کی بہ طور ہیرو، ہیروئن آخری فلم تھی۔ علی زیب پر فلمائے آخری دو گانے کو مہناز بیگم اور غلام عباس نے گایا۔ اسے مسرور انور نے لکھا اور نثار بزمی نے کمپوز کیا، اس لحاظ سے نثار بزمی کو یہ اعزاز حاصل رہا کہ علی زیب پر فلمائے پہلے دو گانے کو بھی اور اس آخری دوگانے کو انہوں نے کمپوز کیا۔ دوگانے کے بول یہ ہیں۔ ’’پیار کرنے والوں کو پیار یہ سکھاتا ہے‘‘۔