بلوچستان کی محرومیاں: اعلانات نہیں، عملی اقدامات کریں

March 25, 2021

بلوچستان میں موسم سرما میں بارشیں اور برفباری نہ ہونے کی وجہ سے ماضی کی طرح ایک بار پھر مشکل صورتحال پیدا ہونے کے خدشات جنم لے رہے ہیں خاص طور پر زرعی اور مالداری کے بری طرح سے متاثر شعبوں سے وابستہ لوگوں کی مشکلات میں اضافہ کا خدشہ ہے اور یہ دونوں شعبے اس وقت بھی صوبے میں روزگار کے بڑئے زرائع ہیں، ایک رپورٹ کے مطابق صوبے میں اس سال معمول سے 72 فیصد کم بارشیں ہوئی ہیں ، بلوچستان میں اگرچہ ماضی میں بھی خشک سالی کے اسپیل آتے رہے ہیں لیکن گزشتہ چند سال کے دوران دیکھنے میں آیا ہے کہ ایک دو سال موسم سرما میں اچھی برفباری اور بارشوں کے بعد ایک دو سال بارشیں نہیں ہوتی ہیں۔

بلوچستان میں جہاں پانی کے زرائع انتہائی محدود ہیں ایسے میں ایک سال بھی معمول کے مطابق بارشیں نہ ہوں تو اس کے اثرات نمایاں طور پر نظر آنا شروع ہوجاتے ہیں، 2018 میں بھی موسم سرما کے دوران معمول کی بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے زرعی اور مالداری کے شعبے متاثر ہوئے تھے کوئٹہ سمیت صوبے بھر میں زیر زمین پانی کی سطح پہلے ہی تشویش ناک حد تک نیچے گرگئی ہے،یوں تو بلوچستان گزشتہ دو عشروں سے زائد عرصے سے قدرتی آفات کی زد میں ہے،1997سے 2002 تک بدترین خشک سالی نے صوبے میں وسیع پیمانے پر تباہی پھیلادی تھی، اس کے بعد مسلسل آنے والے سیلابوں سے صوبے کو ناقابلِ بیان نقصان پہنچا ، ماہرین کے مطابق موسمیاتی تبدیلی اور بارشوں میں کمی کے باعث ڈیمز کی تعمیر ناگزیر ہوگئی ہے،بارشوں کا پانی ذخیرہ کرنے کا بہتر انتظام نہ ہونے کی وجہ سے ایک جانب پانی ضائع ہوجاتاہے تو دوسری جانب سیلابی پانی تباہی پھیلانے کا باعث بھی بنتا ہے۔

دوسری جانب بارشیں معمول سے کم اور واٹر ریچارج نہ ہونے کی وجہ سے زیرزمین پانی کی سطح تشویش ناک حدتک نیچے گر گئی ہے، ماہرین کی جانب سے اس جانب بار بار توجہ مبذول کرانے اور حالات کی انتہائی سنگینی سے آگاہ کیے جانے کے باوجود کسی سطح پر بہت بڑئے اقدامات نظر نہیں آتے، بلوچستان میں موسمی تبدیلی ملک کے دوسرئے حصوں کے مقابلے یہاں زیادہ نظر آرہے ہیںوزیراعظم کے اسپیشل اسسٹنٹ برائے ماحولیات ملک امین اسلم نے اپنے حالیہ دورہ کوئٹہ کے دوران اس بات کا واضح طور پر اظہار بھی کیا کہ بلوچستان میں موسمیاتی تبدیلیوں کے خطرناک اثرات سامنے آرہے ہیں جن کے تدارک کے لئے درخت لگائے جارہے ہیں اور وزیراعظم کے پروگرام کے تحت بلوچستان میں 2023 تک 10 کروڑ درخت لگانے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔

درخت لگانے کے بعد 3 سال تک انہیں پانی فراہم کرنے کے لئے میکانزم بھی بنالیا گیا ہے، وفاقی حکومت کلین گرین منصوبے کی تکمیل کیلئے بلوچستان کی ہر ضرورت پوری کرئےگاتاہم انہوں نے 10 کروڑ درخت لگانے کے بعد انہیں پانی فراہم کرنے کے میکانزم کے بارئے میں آگاہ نہیں کیا بلوچستان میں جہاں اکثر علاقوں میں جہاں پینے کے پانی کا حصول بھی انتہائی مشکل ہے وہاں اتنے درختوں کو پانی فراہم کرنا اگر ناممکن نہین لیکن مشکل ضرور ہوگا ،تاہم وزیراعظم کے اسپیشل اسسٹنٹ برائے ماحولیات ملک امین اسلم نےیہ یقین ضرور دلایا کہ صوبے میںخشک سالی کے اثرات کو زائل کرنے کے لئے نئے ڈیمز تعمیر کئے جائیں گے، وزیراعظم کے اسپیشل اسسٹنٹ برائے ماحولیات ملک امین اسلم نےواضح طور پر کہا کہ اس وقت ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے 10 ممالک میں پاکستان بھی شامل ہے جبکہ رواں برس پاکستان آٹھویں نمبر پر رہا جس کی وجہ پاکستان نہیں بلکہ دوسرے ممالک ہیں۔

مگر اس سے پاکستان اور خصوصاً بلوچستان متاثرہورہا ہے بلوچستان قحط اور خشک سالی سے بہت زیادہ متاثر ہے خشک سالی کے اثرات سے بچنے کے لئے مصنوعی بارش کے بارے میں اسٹڈی کررہے ہیں ، وزیراعظم کےکلین اینڈ گرین پاکستان پروگرام میں کوئٹہ اور زیارت سمیت بلوچستان کے 6 شہروں کو شامل کیا گیا ہے جبکہ صوبے کے ساحلی علاقوں میں مینگروز کی پلانٹیشن اور کوئٹہ میں 2 ہزار ایکڑ رقبے پر درخت لگانے کا منصوبہ بھی ہےجبکہ وفاقی حکومت کی جانب سے صوبے میں پانی کے مسائل کے حل کے لئے ڈیلے ایکشن ڈیمز تعمیر کرنے کی ضرورت ہے جس پر موجودہ حکومت خصوصی توجہ دے رہی ہے ، ملک میں بارشوں کے بعد سیلابی نالوں میں آنے والا پانی محفوظ کرنے کے لئے حکومت ری چارج منصوبہ شروع کررہی ہے جس کی فزیبلٹی تیار کرلی گئی ہے ری چارج پاکستان منصوبے میں بلوچستان کو بھی شامل کیا جائے گا۔

وفاقی حکومت کی جانب سے اعلانات اور یقین دہانیاں اگرچہ حوصلہ افزا ہیں لیکن اس حوالے سے ماضی کچھ حوصلہ افزا نہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ اس حوالے سے بلوچستان پر خصوصی توجہ دی اور اعلانات سے بڑھ کر عملی اقدامات کو یقینی بنایا جائے ۔بلوچستان کے مختلف سرکاری محکموں کے ملازمین ان دنوں اپنے مطالبات کے حق میں سراپا احتجاج ہیں ، کوئٹہ پریس کلب کے سامنے گزشتہ کئی روز سے محکمہ مواصلات و تعمیرات سے کئی سال کی ملازمت کے بعد برطرف کیے جانے والے 361 ملازمین اپنی برطرفی کے خلاف احتجاج کرہے ہیں تو دوسری جانب جونیئر ٹیچرز ایسوسی ایشن اور گورنمنٹ ٹیچرز ایسوسی ایشن (آئینی) کی جانب سے بھی بھوک ہڑتالی کیمپ لگائے گئے ہیں۔

دوسری جانب صوبے کے مختلف محکموں میں سرکاری ملازمین کے ایسوسی ایشنز پر مشتمل بلوچستان ایمپلائز اینڈ ورکرز گرینڈ الائنس نے 17 نکاتی چارٹر آف ڈیمانڈ پر عملدرآمد نہ ہونے پر 29 مارچ کو صوبہ بھر کے تمام سرکاری اداروں میں ہڑتال کا اعلان وزیراعلیٰ ہاوس کا گھیراو اوردھرنا دینے کا عندیہ دیدیا ہے، جبکہ اس سےقبل محکمہ تعلیم میں گلوبل فنڈز کے تحت کنٹریکٹ کی بنیاد ہر بھرتی ہونے والے مرد و خواتین اساتذہ سمیت دیگر ملازمین بھی اپنے مطالبات کے حق میں احتجاج کرتے آئے ہیں یہاں یہ بات قابل زکر ہے کہ سرکاری ملازمین کی جانب سے اپنے مطالبات کے حق میں تو احتجاج تو کیا جاتا ہے مگر گزشتہ کچھ عرصے میں بلوچستان میں سرکاری ملازمت کے حصول سمیت مختلف تنظیموں کی جانب سے اپنے اپنے علاقون کے حقوق کے لئے کئی کئی سو کلومیٹر طویل لانگ مارچ بھی دیکھنے میں آئے ہیں۔