لبنیٰ کا باغ

March 27, 2021

قراۃ العین فاروق، حیدرآباد

لبنیٰ کو باغبانی کرنے کا بہت شوق تھا وہ پڑھائی سے فارغ ہو کے اپنے گھر کے باغ میں باغبانی کرتی۔ اسےباغ میں پانی دیتے ہوئے بہت مزاہ آتا وہ ہر پھول و پودے کو بڑے آرام آرام سے پانی دیتی اور ساتھ ساتھ پھولوں سے باتیں بھی کرتی جاتی۔ اس کے چھوٹے سے باغ میں طرح طرح کے پھول کھلتے تھے۔ باغ میں طرح طرح کے پرندے اڑ کر آتے ساتھ تتلیاں بھی بہت آتیں۔ باغ میں چڑیوں نے گھونسلے بھی بنائے ہوئے تھے ان گھونسلوں میں چڑیاں اپنے بچوں کے ساتھ رہتیں یوں لبنیٰ کا چھوٹا سا باغ اپنے علاقے میں اپنی مثال آپ تھا۔

ایک دن بہت تیز آندھی آئی ہوا کے جھکڑچلنے کی وجہ سے سارے پودے و بیلیں تیز ہوا کے سبب گر گئیں درخت ایک طرف کو جھک گئے اور تو اور چڑیوں کے گھونسلے بھی گر گئے۔ اس اچانک افتاد سے لبنیٰ پریشان ہو گئی اور گھر کے اندر سے اپنے باغ کی بگڑتی شکل کو دیکھنے لگی اور تیز ہوا کے رکنے کا انتظار کرنے لگی۔ بارش مسلسل دو دن ہوتی رہی جس کی وجہ سے باغ میں پانی کھڑا ہو گیا یہ سب منظر دیکھ کر لبنیٰ کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔

وہ اداس کھڑکی کے پاس بیٹھی بارش کےپانی کو دیکھنے لگی کہ اچانک اس کی نظر ایک چمکتی ہوئی چیز پر پڑی ۔وہ فوراً اٹھ کر دروازے کی طرف بھاگی۔ وہ چمکتی ہوئی چیز پانی میں تیرتی ہوئی اس کی طرف پانی کے بہائو کے ساتھ آئی، لبنیٰ نے اچک کر اس چیز کو اٹھایا ’’ارے یہ تو انگوٹھی ہے اور بالکل میری انگلی کے ناپ کی ‘‘ ۔لبنیٰ منہ ہی منہ میں بڑبڑائی اور اس نے وہ انگوٹھی پہن لی۔ اسے پہننے کے بعد باے کا سارا منظر ہی بدل گیا۔

’’ارے یہ میرے باغ کا سارا پانی کہاں گیا او رجو درخت اور پودے گرے تھے وہ کیسے سیدھے کھڑے ہو گئے اور تتلیاں اور پرندے بھی واپس آگئے‘ اس نے اسی وقت گھبرا کے انگوٹھی اتار دی انگوٹھی کا اترنا تھا کہ دوبارہ پچھلا منظر آگیا اور باغ کی پہلے جیسی صورت ہوگئی۔ لبنیٰ نے دوبارہ انگوٹھی پہنی تو دوبارہ باغ کی شکل ویسی ہی ہو گئی۔ سارا منظر ہرا بھرا ہو گیا لبنیٰ نے پھر انگوٹھی اتار دی وہ سمجھ گئی کہ یہ کوئی جادوئی انگوٹھی ہے جس کے پہنتے ہی سارے کا سارا منظر تبدیل ہو جاتا ہے۔

لبنیٰ وہ انگوٹھی لے کر اپنی امی کے پاس گئی اور انہیں اس جادوئی انگوٹھی کے بارے میں بتانے لگی۔

’’امی امی یہ دیکھیں یہ جادوئی انگوٹھی ہے اسے پہن کر آپ باغ میں دیکھیں گی تو وہ ایک دم ہرا بھرا نظر آئے گا‘‘

’’کون سی انگوٹھی اور تمہیں کہاں سے ملی یہ ‘‘

’’امی باغ میں سے ہی ملی ہے یہ پانی میں تیرتے ہوئے میری طرف آئی میں نے لپک کر اٹھا لی ، آپ بھی پہن کر دیکھیں‘‘۔

’’بیٹی انگوٹھی کیسے پانی میں تیر سکتی ہے یہ تو وزنی ہوتی ہے یہ تم مجھے کچھ عجیب سی باتیں بتا رہی ہو‘‘۔

’’وہی تو امی جب ہی تو میں کہہ رہی ہوں کہ یہ جادوئی انگوٹھی ہے آپ پہن کر دیکھ لیں‘‘۔

’’بیٹی پہلی بات تو یہ کہ یہ انگوٹھی بہت چھوٹے سائز کی ہے اور میری انگلی میں پوری نہیںآئے گی اور تم اسے مجھے دو میں باہر پھینک کر آتی ہوں انگوٹھی کو ، بیٹی ایسے کوئی بھی چیز اٹھا کر نہیں پہنتے یہ غلط بات ہوتی ہے‘‘

پھر لبنیٰ کی امی نے انگوٹھی کو دروازہ کھول کے گھر سے باہر پھینک دیا پھر لبنیٰ سے آکے کہا کہ ’’دیکھو اب بارش رک گئی ہے دھوپ نکل آئی ہے اور بادلوں کے آنے کے آثار بھی نہیں ہیں تو میں اور آپ کے ابو موٹر منگوا کے پہلے سارا پانی پمپ کے ذریعے ختم کروا دیں گے پھر باغ کو ٹھیک کریں گے‘‘۔

’’او کے ٹھیک ہے امی‘‘لبنیٰ نے خوشی سے کہا ۔

پھرلبنیٰ کے ابو نے پمپنگ مشین سے پانی کھنچوا کے سارا پانی باغ سے ختم کروایا ۔ اب باغ میں چلنا دشوار نہ تھا۔ لبنیٰ اس کی امی اور ابو نے وہ سارے پودے اور درخت جو گر گئے تھے چھوٹی بڑی رسیسوں کی مدد سے باندھے تاکہ پودے اور درخت سیدھے پہلے جیسی شکل میں واپس کھڑے ہو جائیں جو گھونسلے گرے تھے ان کو بھی واپس اپنی اپنی جگہ رکھا۔

یوں بارش کی وجہ سے لبنیٰ کے باغ کی حالت جو بگڑگئی تھی وہ ایک دم ان تینوں کی محنت سے دوبارہ پہلے جیسی ہو گئی اور لبنیٰ خوشی خوشی دوبارہ اپنے باغ میں جانے لگی۔