مُعاشرے میں منشیات کے بڑھتے ہوئے رجحان کا تدارک و سدِباب

April 02, 2021

مولانا نعمان نعیم

(مہتمم جامعہ بنوریہ عالمیہ)

’’نشہ‘‘ ایک ایسا لفظ ہے جس کے زبان پر آتے ہی اس کی خرابیاں نگاہوں کے سامنے گھومنے لگتی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ایک صالح و صحت مند معاشرہ اسے ہرگز قبول نہیں کرتا۔ دنیا کے تمام ممالک میں منشیات کے استعمال پر قانوناً پابندیاں عائد نظر آتی ہیں، لیکن باوجود اس کے دنیا بھر میں آج ایسے افراد کی بہت بڑی تعداد موجود ہے جو منشیات کا شکار ہے۔ اس وقت پور ی دنیا میں منشیات کے استعمال کا جو عام رواج چل پڑا ہے، خاص طور سے نوجوان نسل جس بری طرح سے نشے کی لت میں مبتلا ہورہی ہے، وہ ہر صاحب فکر کے لئے بے حد تشویش ناک صورت حال ہے، تمام احتیاطی تدبیروں کے باوجود منشیات کے استعمال کی شرح میں کمی کے بجائے مسلسل اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ اسلام میں جن کاموں کی شدت کے ساتھ مذمت کی گئی ہے اور جن سے منع فرمایا گیا ہے ، ان میں ایک نشہ کا استعمال بھی ہے ، قرآن مجید نے نہ صرف یہ کہ اسے حرام بلکہ نا پاک قرار دیا ہے ۔احادیث میں بھی اس کی بڑی سخت وعید آئی ہے اور بار بار رسول اللہ ﷺنے پوری وضاحت کے ساتھ اس کے حرام اور گناہ ہونے کو بتایا ہے، آپﷺ انے ارشاد فرمایا کہ ہر نشہ آور چیز حرام ہے ۔(صحیح بخاری ، حدیث : ۵۵۸۵)

حضرت جابر بن عبد اللہ ؓسے آپﷺ کا ارشاد مروی ہے کہ جس شے کی زیادہ مقدار نشہ کا باعث ہو ، اس کی کم مقدار بھی حرام ہے (ترمذی، : ۱۸۶۵) یہ نہایت اہم بات ہے،کیوںکہ عام طور پر نشہ کی عادت اسی طرح ہوتی ہے کہ معمولی مقدار سے انسان شروع کرتا ہے اور آگے بڑھتا جاتا ہے ، یہاں تک کہ بعض اوقات اتنا آگے بڑھ جاتا ہے کہ زہر آمیز انجکشن کے بغیر اس کی تسکین نہیں ہوتی ۔

ہمارے معاشرے میں منشیات کی وباء عام ہونے کی سب سےپہلی بنیادی وجہ یہی ہے کہ ایمانی جذبات کمزور اور سرد پڑگئے ہیں، بے خوفی اورجرأت بڑھ گئی ہے، اللہ کا خوف رخصت ہورہا ہے، موت کی یاد سے غفلت عام ہے، آخرت کی فکر اور بارگاہ ِرب العزت میں حاضری اور جواب دہی کا استحضار باقی نہیں رہا ، اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ گناہوں کی طرف لوگ سرپٹ دوڑے جارہے ہیں، ایسا لگتا ہے کہ ان کی لگام ان کے نفس کے قبضے میں ہے، اللہ کی سنت یہ ہے کہ جب انسان دین و شریعت کی لگام اپنے اوپر سے ہٹا دیتا ہے، توپھر اللہ کی امان سے محروم ہوجاتا ہے اور اللہ کو پروا بھی نہیں ہوتی کہ وہ ہلاکت کے کس کھڈ میں جاگرا، قرآن میں فرمایا جارہا ہے: ’’بلاشبہ اللہ کے نزدیک بدترین جانور وہ بہرے گونگے لوگ ہیں جو عقل سے کام نہیں لیتے ،اور اگر اللہ کے علم میںان کے اندر کوئی بھلائی ہوتی تو وہ انہیں سننے کی توفیق دے دیتا،لیکن اب جب کہ ان میں بھلائی بھی نہیں ہے، اگر انہیں سننے کی توفیق دے بھی دے تو وہ منہ موڑ کر بھاگ جائیں گے۔ (سورۃ الانفال/ ۲۲-۲۳)معلوم ہوا کہ حق کو سمجھنے اور اس پر عمل کی توفیق اسی کے حصہ میں آتی ہے جس کے دل میں حق کی طلب ہو، اگر کسی کے دل میں حق کی طلب ہی نہ ہو اور وہ غفلت کی حالت میں زندگی بسر کررہا ہو اور نفس کا غلام بن چکا ہو، تووہ حق سمجھنے سے محروم ہوجاتا ہے، اور سمجھ بھی لے تو اسے پلٹنے اور عمل خیر کی توفیق نہیں ملتی، بلکہ وہ بدستور اپنی مجرمانہ غفلتوں میںمبتلا رہتا ہے ۔

اسی حقیقت کو اگلی آیت میں اس طرح بیان کیا گیا ہے:’’جان لو کہ اللہ انسان اوراس کے دل کے درمیان آڑ بن جاتا ہے ۔‘‘(سورۃالانفال/۲۴)یعنی جس کے دل میں حق کی طلب ہوتی ہے اگر اسے گناہ کا تقاضا ہو، مگر وہ طالب حق کی طرح اللہ سے طالب مدد ہوجائے تواس کے قدم گناہ کی راہ پر چلنے سے محفوظ ہوجاتے ہیں، اور جس کے دل میں حق کی طلب ہی نہ ہو اور وہ اللہ کی طرف رجوع بھی نہ ہوتا ہو وہ توفیق خیر سے محروم اور گناہوں میں غرق ہوتا چلا جاتا ہے ۔مزید فرمایا گیا:’’جب انہوں نے کج روی اختیار کی تواللہ نے ان کے دلوں کو کج کردیا، اور اللہ نافرمانوں کو ہدایت تک نہیں پہنچاتا۔‘‘ (سورۃالصف / ۵ )

احادیث میں وارد ہوا ہے کہ جو بندہ اللہ کے دین کی طرف متوجہ ہوتا ہے اللہ اسےتوفیق سے نوازتا ہے، جواللہ سے نصرت کاطالب ہوتا ہے ، اللہ اس کی مددکرتا ہے، جو اللہ کی طرف رجوع ہوتاہے اللہ اس کی حفاظت کرتا ہے۔ان تفصیلات سے واضح ہوتا ہے کہ جب تک ایمانی جذبات کم زور رہیں گے، اور اللہ و آخرت کا خوف دلوں میں پیدا نہیں ہوگا، گناہ کے راستے سے واپسی نہیںہوسکے گی، آج منشیات کے رواج عام کا بہت بنیادی سبب یہی ہے کہ امت ایمانی قوت سے محروم اور بارگاہ الٰہی میں باز پُرس کی حقیقت سے بے فکری اور بے خوفی میں مبتلا ہے۔

رسول اللہ ﷺ نے نشہ آور اشیاء کے ساتھ ساتھ ایسی چیزوں سے بھی منع فرمایا ، جو جسم کے لئے ’’ فتور ‘‘ کا باعث بنتی ہوں ، یعنی ان سے صحت میں خلل واقع ہوتا ہو۔

رسول اکرم ﷺنے شراب کو ’’ امّ الخبائث ‘‘ یعنی برائیوں کی جڑ ( نسائی : ۵۶۶۶) اور ’’ اُم الفواحش‘‘ یعنی بے حیائیوں کی جڑ قرار دیا ہے ، ( ابن ماجہ، : ۳۳۷۲) شراب کی اخلاقی قباحتوں کی اس سے بہتر کوئی تعبیر نہیں ہو سکتی، ایک موقع پر آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جیسے درخت سے شاخیں پھوٹتی ہیں، اسی طرح شراب سے برائیاں۔ ( سنن ابن ماجہ : ۳۳۷۲۱ )

مسند احمد میں ہے، حضرت ابو ہریرہؓ نے فرمایا ہے کہ شراب تین مرحلوں میں حرام ہوئی ہے ، رسول اللہ ﷺجب مدینہ تشریف لائے تو اس وقت لوگ شراب پیتے اور جوئے کی آمدنی کھاتے تھے، ایک مرتبہ لوگوں نے اس کا حکم دریافت کیا تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی :’’وہ تم سے شراب اور جوئے کے متعلق سوال کرتے ہیں‘‘۔

لوگوں نے اس آیت سے یہ سمجھا کہ ابھی یہ چیزیں حرام نہیں کی گئی ہیں، بلکہ ان کے نقصانات بیان کئے گئے ہیں۔ چنانچہ وہ بدستور شراب پیتے رہے، یہاں تک کہ ایک دن مہاجرین میں سے ایک شخص نے مغرب کی نماز پڑھائی اور قرأت میں خلط ملط کر دیا تو اللہ نے پہلی آیت سے زیادہ سخت آیت نازل فرمائی :’’اے ایمان والو، نشے کے حال میں نماز کے پاس نہ جایا کرو‘‘۔لیکن لوگ اب بھی پیتے رہے یہاں تک کہ اس حالت میں نماز کا وقت آجاتا ، اب مزید سخت آیت نازل ہوئی اور فرمایا:’’اے ایمان والو، شراب، جوا تھان، اور پانسے کے تیر بالکل نجس شیطانی کاموں میں سے ہیں ‘‘۔اب لوگوں کو سمجھ میں آئی کہ بےشک ،شراب حرام ہے۔ذرا غور کریں کہ شراب کتنی خراب چیز ہے کہ اسے تین مرحلوں میں حرام کیا گیا۔

حرمت شراب کی ایک وجہ یہ ہے کہ شراب انسان کو ذکر الٰہی اور ذکر اللہ سے غافل کرتی ہے ،‌جیسا کہ فرمان باری ہے :شیطان تو بس یہ چاہتا ہے کہ تمہیں شراب اور جوئے میں لگا کر تمہارے درمیان دشمنی اور کینہ ڈالے اور تمہیں اللہ کی یاد اور نماز سے روکے تو بتاو کیا اب تم ان سے باز آتے ہو۔

اولاد کو بنانے یا بگاڑنے میں سب سے نمایاں کردار گھر کی اخلاقی تعلیم و تربیت کا ہوتا ہے، اگرو الدین یا ذمہ داران اپنی اولاد کی ٹھوس اور پختہ دینی تعلیم اور اعلیٰ اخلاقی تربیت کی فکر کریں گے، ان کے شب و روز کی تمام مشغولیات کی حکمت کے ساتھ نگہداشت رکھیں گے، انہیں منکرات اور فواحش کے راستوں پرجانے سے روکیں گے، وہ تمام اسباب اور ذرائع جو بگاڑ کے راستے پر لے جاتے ہیں۔آج صورت حال یہ ہے کہ زندگی کے ہنگاموں اور مشغولیات میں والدین کو اپنی اولادکی دینی و اخلاقی تربیت کی فرصت ہی نہیں ہے اور نہ ہی اس کے ضروری ہونے کا انہیں احساس ہے،، وہ بے حیائی کی راہ پر کس طرح جارہی ہے اور منشیات کی لعنت میں کس طرح مبتلا ہورہی ہے، اس کی کوئی فکر والدین کو نہیں رہتی ہے، نتیجہ سامنے ہے کہ نوجوانوں کی وہ نسل سامنے آرہی ہے جو منشیات کی رسیا اور بگاڑ کا مرکب ہے۔

اس لئے مثبت اور مفید مشغولیات میں لگے رہنا بہت بڑی نعمت ہے اور بگاڑ سے سلامتی کا ذریعہ بھی ہے، موجود ہ حالات میں جب معاشی بد حالی کا دور دورہ ہے، ایک بہت بڑاطبقہ بے روزگاری کی زندگی گزار رہا ہے، اور مایوسی، نفسیاتی کرب اور اضطراب کا شکار ہے، اور یہ کرب بسا اوقات اسے اپنے غم غلط کرنے کے لئے شراب و نشہ کے مہلک راستے پر لے جاتا ہے، یہ بھی معاشرے میں نشے کے عموم کا ایک سبب ہے۔

نوجوانوں میں نشے کی لت کا ایک محرک نشے باز ساتھیوں کی صحبت و رفاقت بھی ہے، بری صحبت کے بدترین اثرات عقل و نقل سب سے ثابت ہیں، ارشاد نبویؐ ہے:’’آدمی اپنے دوست کے طریقے پر کاربند ہوتا ہے، اس لئے دوستی سے پہلے دیکھ لینا چاہئے کہ کس سے دوستی کی جارہی ہے۔‘‘ (سنن ابو داؤد)سلف صالحین کے اقوال میں ہے: د ل کے لئے بروں کی صحبت اور ان کے برے افعال کو دیکھنے سے زیادہ ضرررساں چیز کچھ اور نہیں ہے۔ عموماً یہ مشاہدہ ہے کہ شراب و نشے سے دور آدمی جب غلط صحبت میں آتا ہے تواس کی زندگی اس لعنت سے آلودہ ہوئے بغیر نہیں رہتی، آج ہمارے نوجوانوں میں اپنے نام نہاد’اسٹیٹس‘ کو بحال رکھنے کے لئے اپنے دوستوں کا جو ’ سرکل‘ بنانے کا فیشن چل پڑا ہے، وہ عیاش، بے حیا، اخلاق باختہ، شراب و کباب کے عادی نوجوانوں کا سرکل ہوتا ہے، وہاں کسی دین دار، با شرع، صالح، دینی خدمات سے وابستہ جوان کو داخلے ہی کی اجازت نہیں ہوتی، اور پھر اس کا نتیجہ یہ ظاہر ہوتا ہے کہ آدمی ان ہی بروں کے رنگ میں رنگتا چلا جاتا ہے ، اور اپنا سب کچھ داؤ پر لگا بیٹھتا ہے۔

معاشرےمیں بڑھتے ہوئے منشیات کے رواج کو ختم کرنے اور معاشرےکو اس برائی سے بچانے کے لئے تما م برائیوں کے سدباب اور ہر نوع کی مجرمانہ عادتوں کو ختم کرنے کے لئے اس کی ضرورت ہوتی ہے کہ ایمانی جذبات بیدار کردیئے جائیں، اوراللہ کا خوف جگا دیا جائے، برائیوں سے نفرت پیدا کرنے کا سب سے کارگر نسخہ ایمانی جذبات کی بیداری اوراللہ کی بارگاہ میں جواب دہی کا مکمل استحضار ہے ، قرآن میں صحابہؓ کے تذکرے میں آیا ہے :’’اللہ نے تمہا رے لئے ایمان کومحبوب اور دل پسند بنادیا اور تم میں کفر ، فسق اور نافرمانی کے کاموں کی نفرت پیدا کردی۔‘‘ (سورۃالحجرات/۷)اللہ کا خوف اور فکر آخرت وہ مضبوط زنجیر ہے جو انسان کو معاصی کے راستے پر چلنے سے بالکل روک دیتی ہے۔

تجربات اورمشاہدات سب سے ثابت ہوچکا ہے کہ جوافراد قرآنی اوردینی تعلیم سے آراستہ ہوتے ہیں، اور اسے اپنا مشغلہ بنالیتے ہیں وہ بالعموم جرائم سے محفوظ رہتے ہیں، اور بطورخاص نشے بازی اور اس جیسے گناہوں سے تو بالکل الگ رہتے ہیں، صاحب ایمان معاشرے میں ہر فرد کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے لئے اور اپنے تمام متعلقین کے لئے قرآن کی اور بنیادی دینی تعلیم کو ضروری سمجھے، زندگی کا سفر اس کے بغیر صحیح سمت میں جاری نہیں رہ سکتا اورمنشیات سمیت دیگر جرائم سے تحفظ کے لئے بھی یہ بنیادی ضرورت ہے۔مثبت، صالح، اور مفید مشاغل میں مشغولیت انسان کو گناہوں کے راستے سے روکتی ہے، انسان بالکل خالی ہو اور کوئی صالح مشغلہ نہ رکھتا ہو تو بسا اوقات نفس و شیطان کے وساوس اسے منشیات اور دیگر جرائم کی راہ پر لے جاتے ہیں، اس لئے حتیٰ الامکان صالح مشاغل میں مشغول رہنے کی کوشش ہونی چاہئے۔

اسی طر ح بے روزگاری اور پھر اس کی وجہ سے آنے والے افلاس کی صورت حال انسان سے وہ سب کچھ کرا سکتی ہے جو نہیں کرنا چاہئے، مایوسی اور اضطراب کی کیفیات انسان کو منشیات کا عادی بھی بنادیتی ہیں، اس لئے معاشرے سے بے روزگاری کے خاتمے کی مہم میں سب کا حصہ ہونا چاہئے، کسی بے روزگار کو روزگار فراہم کرنا یا اس ضمن میں تعاون کرنا اسوہ ٔ نبویؐ اور اعلیٰ درجہ کا عمل خیر ہے،اور گناہوں سے بچانے کا بابرکت کام بھی ہے، دنیا میں رائج الوقت معاشی نظام تجربات کے بعد ناکام ثابت ہوچکے ہیں، معاشی ناہمواریوں اورغربت و بے روزگاری کا خاتمہ اگر کسی نظام کے ذریعہ ہوسکتاہے تو وہ اسلام کا برکت اور عدل و مواسات پر مبنی معاشی نظام ہے، معاشرے کے ذمہ داران کو اس حوالے سے بھی حتی المقدور اپنا کردار ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔