سرفراز احمد کو وائٹ بال فارمیٹ میں مستقل چانس دینے کی ضرورت

April 13, 2021

پروفیسر اعجاز احمد فاروقی

سابق رکن پی سی سی بی گورننگ بورڈ

پاکستان کرکٹ ٹیم نے ہوم گراونڈ پر جب جنوبی افریقا کو شکست دی تھی تو کچھ ماہرین کی رائے تھی کہ ہوم گراونڈ پر جیتنا کون سی بڑی بات ہے۔غیر ایشیائی ٹیمیں ایشین پچوں پر اکثر ہار جاتی ہیں۔لیکن اب پاکستانی کرکٹ ٹیم کی جنوبی افریقا میں ون ڈے سیریز میں جیت نے اس تاثر کو غلط ثابت کر د یا۔اس جیت کا کریڈٹ بلاشبہ بابر اعظم کی قائدانہ صلاحیتوں اور ان کی بیٹنگ کو جاتا ہے سب سے بڑھ کر فخر زمان نے مسلسل دو سنچریاں بناکر اپنے ناقدین کو غلط ثابت کر دکھایا۔

مصباح الحق اور دیگر کوچز بھی مبارک باد کے مستحق ہیں جنہیں مسلسل تنقید کا سامنا تھا۔بابر اعظم نے سیریز میں بازی پلٹ دی اور جب فخر زمان کی وکٹ گرنے کے بعد تاریخ خود کو دہرانے کے موڈ میں نظر آئی تو بابر مردِ بحران بن گئے۔

سنچورین اور وانڈررز کی وکٹ ایسی نہیں تھی کہ کوئی بھی بیٹسمین ہم آہنگ ہو کر اپنے شاٹس کھیلنے لگے۔ یہاں سنبھلنے کے لیے وقت درکار تھا ۔پاکستان وہ پہلی ایشیائی ٹیم ہے جو جنوبی افریقی سرزمین پر پہلی بار کوئی ون ڈے سیریز جیتنے میں کامیاب ہوئی ، اس وقت پاکستان وہ پہلی ٹیم بن چکی ہے جو ان کنڈیشنز میں دوسری ون ڈے سیریز جیتنے میں کامیاب ہوئی ہے۔

اس سیریز کے آغاز سے قبل پاکستان کی حالت بھی جنوبی افریقا جیسی تھی۔ یہ ٹیم ون ڈے سپر لیگ میں کافی نیچے تھی،جنوبی افریقا کی سیریز کی جیت نے کئی نئے کھلاڑیوں کو اعتماد دیا تو بابر اعظم کی کپتانی کو استحکام ملا ۔ آخری ون ڈے میں پاکستانی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان سرفراز احمد نے جنوبی افریقا کے خلاف 18ماہ بعد اپنا پہلا ون ڈے انٹر نیشنل کھیلا انہوں نے اس میچ سے قبل دو اکتوبر2019میں سری لنکا کے خلاف کراچی میں کپتان کی حیثیت سے میچ کھیلا تھا جبکہ سرفراز احمد نے آخری ٹی ٹوئینٹی انٹر نیشنل یکم ستمبر2020 کو انگلینڈ کے خلاف مانچسٹر میں کھیلا تھا۔33سالہ سرفراز احمد نے وکٹ کیپر بیٹسمین جبکہ محمد رضوان نے بیٹسمین کی حیثیت سے میچ کھیلا۔

سرفراز احمد کو وائٹ بال فارمیٹ میں مستقل چانس دینے کی ضرورت ہے اگر بھارت، انگلینڈ اور دیگر ٹیموں میں ایک سے زائد وکٹ کیپر کھیل سکتے ہیں تو پھر پاکستان کے پاس اگر محمد رضوان اور سرفراز احمد کی شکل میں اچھے اور ورلڈ کلاس وکٹ کیپرز ہیں تو ان سے فائدہ کیوں نہ اٹھایا جائے۔

دانش عزیز جیسے نوجوان اور آصف علی جیسے آزمودہ ناکام بیٹسمین سے بہتر ہے کہ سرفراز احمد کی خدمات سے فائدہ اٹھایا جائے۔جیت کا یہ تسلسل جاری رہنا چاہیے پی سی بی کو بھی گراس روٹ پر توجہ دے کر کلب کرکٹ کا جلد سے جلد آغاز کرنے کی ضرورت ہے۔