پاک بھارت امن، مگر کیسے؟

April 20, 2021

پاکستان اور بھارت کے درمیان سات عشروں سے زائد عرصہ پر محیط تصفیہ طلب مسائل حل کرنے کی بیک ڈور کوششیں اس وقت بین الاقوامی میڈیا کی دلچسپی کا موضوع ہیں۔ اگرچہ اس بارے میں خود متعلقہ حلقے مہر بلب ہیں مگر یہ بات زبان زدعام ہے کہ متحدہ عرب امارات خاموشی سے دونوں ملکوں کو مذاکرات کی میز پر لانے کیلئے فضا ہموار کر رہا ہے اور اس معاملے میں امریکہ بھی اس کی حوصلہ افزائی کر رہا ہے۔ ڈی جی ملٹری آپریشنز کے درمیان جموں و کشمیر کنٹرول لائن پر بھارت کی اشتعال انگیزیاں روکنے کا سمجھوتہ اور ایک دوسرے کے خلاف جارحانہ بیان بازی بند کرنے کے عمل کواس حوالے سے نظیر کے طور پر پیش کیا جاتا ہے جو ایک مثبت پیش رفت ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے دبئی میں اتوار کو ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اگرچہ کہا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کوئی باضابطہ بیک چینل رابطہ نہیں مگر بےضابطہ یا خاموش ڈپلومیسی کے حوالے سے کوئی بات نہیں کہی۔ اس کا مطلب ہے کہ میڈیا میں جو خبریں چل رہی ہیں وہ بےبنیاد نہیں ہیں۔ وزیر خارجہ نے سفارت کارانہ مہارت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ بیک چینل کی کیا ضرورت ہے۔ بھارت کو چاہئے کہ کشمیر، سر کریک اور پانی کے مسئلے پر آئے اور میز پر بیٹھ کر بات کرے لیکن میز پربیٹھنے سے پہلے کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کا خاتمہ تو کرے۔ اگر بھارت 5؍اگست کے اقدامات پر نظرثانی کرتا ہے تو ہم بات چیت کیلئے تیار ہیں۔ ہم تو اپنے تمام ہمسایوں، جن میں بھارت بھی شامل ہے کے ساتھ پرامن رہنا چاہتے ہیں۔ وزیر خارجہ نے بات چیت کیلئے جوشرط رکھی ہے پوری دنیا اسی پر زور دے رہی ہے۔ انسانی حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کے ماہرین نے بھی بھارتی حکومت کو ایک خط لکھا ہےجس میں مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی اور نئے جابرانہ قوانین کے خاتمے کا مطالبہ کیا ہے۔ پاکستان کے وزیر خارجہ ایک تقریب میں شرکت کیلئے دبئی گئے ہیں اور بھارتی وزیر خارجہ بھی اس موقع پر وہاں موجود ہیں۔ دونوں کے درمیان غیراعلانیہ ملاقات کے حوالے سے قیاس آرائیاں جاری ہیں۔ شاہ محمود قریشی نے قطعیت کے ساتھ اپنے ہم منصب سے ملاقات کے امکان کی تردید نہیں کی تاہم کہا ہے کہ ان کی ملاقات طے نہیں ہے۔ دبئی کے بعد افغان انٹرنیشنل کانفرنس کے سلسلے میں 24اپریل کو ترکی میں بھی دونوں موجود ہوں گے اور ان کے درمیان ملاقات بھی خارج ازامکان نہیں تاہم باقاعدہ مذاکرات سے قبل بھارت کومقبوضہ کشمیر میں اپنے اقدامات کے خاتمے کی شرط پوری کرنا ہو گی تاکہ ماحول سازگار ہو سکے۔ متحدہ عرب امارات اور بعض دوسرے دوست ممالک کی پس پردہ کوششیں کامیاب ہو گئیں تو نہ صرف برصغیر بلکہ پوری دنیا کے امن کو لاحق خطرات ختم کرنے میں مدد ملے گی۔ دراصل پاکستان ہمیشہ سےمذاکرات کے ذریعے بھارت سے اچھے ہمسایوں جیسے تعلقات کا خواہش مند ہے مگر یہ بھارت ہے جس نے سلامتی کونسل کی قراردادوں کی دھجیاں اڑاتے ہوئے کشمیر پر جابرانہ تسلط قائم کیا اور پاکستان پر جنگیں مسلط کیں خاص طور پر جب سےبھارت میں ہندو راج قائم کرنے کی داعی جنتا پارٹی برسر اقتدار آئی ہےاور انتہا پسند نریندر مودی وزیر اعظم بنے ہیں، جموں و کشمیر اور دوسرے متنازع امور پر پاکستان کے خلاف بھارت کا جارحانہ رویہ مزید سخت ہو گیا ہے۔ آزاد کشمیر کے صدر سردار مسعود نے درست کہا کہ مودی ، جموں و کشمیر کو بھی ہندو ریاست بنانا چاہتےہیں جہاں کے عوام کی بھاری اکثریت مسلمانوں پر مشتمل ہے اور وہ گزشتہ 73سال سے بھارت کی بہیمانہ کارروائیوں کے باوجود آزاد ی کی شمع روشن کئے ہوئےہیں۔ وقت آ گیا ہے کہ اقوام متحدہ اور عالمی قوتیں کھل کر سامنے آئیں اور بھارت کوجموں و کشمیر میں اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت استصواب رائے کرانے پر مجبور کریں۔ اس کے بغیر برصغیر کے ڈیڑھ ارب عوام امن اور خوشحال کوہمیشہ ترستے رہیں گے۔