حالات کا نوحہ

April 20, 2021

کافی دنوں سے اداسی ہے، مایوسیوں کے بڑھتے ہوئے سائے اداسی کو پھیلا رہے ہیں بلکہ اب تو اداسی دور دور تک پھیل چکی ہے۔ پاکستان کے یہ مناظر ملک سے محبت کرنے والوں سے نہیں دیکھے جا رہے، ہر طرف افراتفری ہے، بدامنی ہے، لوگوں کے مسائل میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، کہیں بےروزگاری کا سیلاب ہے تو کہیں مہنگائی کا طوفان۔ حالات کی سنگینی کا کسی کو ادراک نہیں ہو رہا کہ غربت کی چکی میں پستے ہوئے طبقات میں کتنی تیزی اور تسلسل سے اضافہ ہو رہا ہے۔ ہر طرف بےیقینی بکھری ہوئی ہے، ہر ادارے میں کرپشن کے چرچے ہیں، کرپشن کو بےنقاب کرنے والے اداروں میں بھی کرپشن کا تذکرہ ہے، انصاف معاشرے سے دور ہو گیا ہے۔ ہر شہر میں، ہر شعبے میں مافیاز کا راج ہے۔ دیانتداری چراغ لے کر ڈھونڈنا پڑتی ہے مگر اس تلاش میں اکثر دِیے بجھا دیے جاتے ہیں۔ ہر طرف دعوے ہیں، ہر جانب وعدے ہیں، نہ کسی کو دعووں کا احساس ہے اور نہ ہی کسی کو وعدوں کا پاس۔ ایسے لگتا ہے جیسے احساس کے سفر میں احساس مر گیا ہو، اس موت پر بھی نعرے بازی ہو رہی ہے، سیاست چمکائی جا رہی ہے۔ ناجانے پاکستان کے مقدر میں چار پانچ وزیر خزانہ کس نے لکھ دیے تھے، انہوں نے ہیبربادی کی، انہی سے علاج کروایا جا رہا ہے اور اب تو حالات ایسے ہیں کہ لوگ رہنمائوں سے دور ہو گئے ہیں۔ جب آس کا دیا بجھ جائے تو کیا ہو سکتا ہے۔ اگر یہاں انصاف ہوتا تو کوئی کسی کی زمین پر قبضہ کرتا، اگر ظلم نہ ہوتا تو مظلوموں کے ہجوم کیسے پیدا ہو جاتے؟

بہت کوشش کی کہ افریقی ملکوں پر اور زیادہ لکھوں، اپنے درد بھول جائوں مگر ڈاکٹر شاہد مسعود سمیت کئی اور ہمدرد دوستوں نے اپنے برباد ہوتے ہوئے کھلیانوں کی طرف رُخ موڑ دیا۔ کیا لکھوں جہاں صحت اور تعلیم جیسے شعبے بھی کرپشن سے آلودہ ہو جائیں، جہاں اربابِ بست و کشاد دولت کے پجاری بن جائیں، کیا لکھا جائے کہ جہاں عوام کے لئے فیصلے ہونا تھے وہاں رشوت کی تقسیم کی باتیں ہوتی ہیں۔ ایمانداری اور دیانتداری کے دعوے ہیں، حقیقت کے آئینے میں اس کا عکس بھی نہیں، ظلم و جبر سے رکاوٹیں تو پیدا کی جا سکتی ہیں مگر راستے نہیں روکے جا سکتے۔ بند باندھ کر دریائوں کے رخ موڑنے کی کوشش تو کی جا سکتی ہے مگر سیلاب کا رُخ تو نہیں موڑا جا سکتا۔ شاید اب پاکستانی سیاستدانوں کے بس سے بہت کچھ باہر ہو گیا ہے۔ بدقسمتی تو یہ ہے کہ پاکستان کی کسی بھی سیاسی جماعت کے رہنمائوں کا عوامی نبض پر ہاتھ ہی نہیں۔ سیاسی قیادت کو عوامی مسائل کی خبر ہی نہیں۔ اس کی دو تین بڑی وجوہات ہیں۔ چالیس پچاس سال پہلے عوامی نمائندہ بھی وہیں رہتا تھا جہاں عام لوگ رہتے تھے۔ اب امیروں نے اپنی بستیاں الگ بسا لی ہیں۔ پہلے عوامی نمائندے بھی انہی اسکولوں اور کالجوں میں پڑھتے تھے جہاں عام لوگ پڑھتے تھے، طلبہ یونین پر پابندی نے عام طبقات سے آنے والے رہنمائوں کا راستہ روک دیا، انتخابات دولت کا کھیل بن کر رہ گئے، پہلے سیاسی پارٹیاں اور لوگ کردار کو دیکھتے تھے، اب دولت کے ڈھیر دیکھتے ہیں۔ اب جب بڑے بڑے سیاستدان عوامی محلوں میں رہتے نہیں، عام اسکولوں کالجوں میں پڑھتے نہیں، کچھ تو بیرون ملک سے ڈگریاں لے آتے ہیں، اس طرز عمل نے سیاستدانوں کو عام لوگوں سے دور کر دیا ہے۔ اسی طرزعمل سے عزت کے معیار بدل گئے ہیں۔ ہر سیاسی جماعت میں بڑے دولت مندوں کی الگ لائن ہے، ہر سیاسی جماعت میں بیس سے پچیس افراد ہیں، انہی میں سے کابینہ بنے گی۔ جتنی بار بھی کابینہ بدلے گی، وزیر وہی ہوں گے، ٹوپیاں گھمائی جاتی ہیں، بندے تبدیل نہیں کئے جاتے۔

گزشتہ رات تین بڑی سیاسی جماعتوں کے اراکینِ اسمبلی سے ملاقات ہوئی، بہت دیر گپ شپ ہوئی، ایک بہت بولنے والا بولا ’’تمام وزراء کیمبرج، آکسفورڈ یا ہارورڈ کے فارغ التحصیل ہونے چاہئیں‘‘ اس کے سامنے کون بولتا، پھر خاکسار نے ہمت کی کہ جناب! یہی تو مسئلہ ہے، ہم مسائل کا ادراک رکھنے والوں کو کابینہ میں شامل ہی نہیں کرتے، ہمیں بتائیے کہ لالو پرشاد یادیو انڈین ریلوے کو کہاں سے کہاں لے گیا، لالو کونسا کیمبرج سے پڑھ کر آیا تھا، چین کے صدر شی جن پنگ کونسے ہارورڈ سے پڑھ کر آئے اور تو اور ایرانی رہبر کس لندن اسکول آف اکنامکس کے فارغ التحصیل ہیں؟ آپ کے وزیراعظم خیر سے آکسفورڈ کے پڑھے ہوئے ہیں، کیا آپ اپنے ملک کا موازنہ چین یا ایران سے کر سکتے ہیں؟ اسی طرح کیا آپ اپنی ریلوے کا موازنہ انڈین ریلوے سے کر سکتے ہیں؟ آپ کے پاس زرخیز زمین ہے مگر آپ اپنی زراعت کا موازنہ بھی نہیں کر سکتے۔ آپ تسلی رکھیں پاکستان میں لیڈر شپ عوام سے بہت دور ہو چکی ہے، آپ کی لیڈر شپ کو تو اتنا بھی پتا نہیں کہ بیساکھی پنجابیوں کا تہوار ہے، سکھوں کا نہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ سکھ پنجابی ہیں مگر بیساکھی صرف سکھوں کا تہوار نہیں، آپ کے وزیراعظم اور وزیر خارجہ نے پنجابیوں کے حسین تہوار کو صرف سکھوں کا تہوار بنا دیا ہے۔ وہ جو ہمارے بابے دادے (وساکھی) بیساکھی مناتے تھے، ہم اس کا کیا کریں؟ آکسفورڈ والوں کو تو تہواروں کا بھی نہیں پتا، انہی لوگوں نے تو ہمارا تہبند کرتا چھینا، انہی کی وجہ سے پگڑی چھن گئی، عزت رُل گئی۔ یاد رکھنا، انقلاب پاکستان کے دروازے پر ہے، سیاسی رہنما ناکام ہو چکے ہیں، مذہبی انقلاب یہاں نہیں آئے گا، معاشی انقلاب دستک دے رہا ہے، اس کی بڑی وجہ دولت کی غیرمنصفانہ تقسیم ہے، دولت ہی نے طبقات میں فاصلے بڑھائے ہیں۔ بقول سرور ارمانؔ ؎

زندگی خشک ہے ویران ہے افسردہ ہے

ایک مزدور کے بکھرے ہوئے بالوں کی طرح

زخم پہنے ہوئے معصوم بھکاری بچے

صفحۂ دہر پہ بکھرے ہیں سوالوں کی طرح