وزیراعظم کا دورہ: ملتان کیلئے 30 ارب پیکج میں تعلیم اور صحت نظر انداز

April 29, 2021

برسوں کے انتظار کے بعد وزیراعظم عمران خان ملتان کے دورے پر آئے ، تو تحریک انصاف کے کارکنوںکے لیے پھر محرومیاں اور شکوے ،شکایات چھوڑ گئے، ایک زمانہ تھا کہ جب وزیراعظم عمران خان اپنی انتخابی مہم کے سلسلے میں ملتان آتے تھے، تو کارکنوں سے ملنا ،ان کے شیڈول میں اولین ترجیح رہتا تھا، تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے کارکنوں کو شاید وہی دن یاد آتے ہیں ،حالانکہ اب پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہے،اب وزیر اعظم پروٹوکول کے حصار میں ہوتے ہیں اور انتظامیہ جسے چاہےملنے دے اور جسے چاہے روک لے ،کی پالیسی پر گامزن ہوتی ہے۔

حالیہ دورہ میں بھی یہی ہوا ،کہنے کو 30 ارب روپے کے منصوبے ملتان کو دئیےگئے ،مگران میں سے بیشتر پر پہلے ہی کام جاری ہے، سب کچھ سرکٹ ہاؤس کے اندر رکھا گیا اور وہاں سے مخصوص ارکان اسمبلی ،پارٹی عہدیداروں اور دیگر شخصیات کو تقریب میں شامل ہونے کی اجازت دی گئی ،وزیراعظم کی آمد سے دو روز پہلے ہی تحریک انصاف کے مقامی عہدیداروں اور کارکنوں کی طرف سے یہ بیانات جاری کئےجا رہےتھے کہ اگر انہیں وزیراعظم سے نہ ملنے دیا گیا تو وہ احتجاج کریں گے، اس کی وجہ سے جہاں وزیراعظم کی معمول کی سیکیورٹی ہائی الرٹ رہی۔

وہاں ایسے ناراض کارکنوں کو روکنے کے لیے بھی پولیس کو ٹاسک دیا گیا،سرکٹ ہاؤس کو آنے والے تمام راستے بند کر دیئے گئے اور صرف انہیں لوگوں کو آنے دیا گیا ،جن کی فہرست انتظامیہ کے پاس موجود تھی، حسب روایت اس بار بھی اس دورے کوشاہ محمود قریشی گروپ نے ہائی جیک کئے رکھا ،حالت یہ تھی کہ پارٹی کے سینئر ترین اور بانی اراکین بھی دعوت ناموں کے لئے ایم این اے ملک عامر ڈوگر اور وفاقی پارلیمانی سیکرٹری زین قریشی کی منتیں کرتے رہے،جنہیں شاہ محمود قریشی نے اس دورے کے لئے کوآرڈینیٹر مقرر کیا تھا، ایسے واقعات بھی ہوئے کہ جن کارکنوں نے سوشل میڈیا پر احتجاج کی دھمکی دی انہیں بلا کر دعوت نامے تھما دئیےگئے ،جو مخلص کارکن تھے وہ ہمیشہ کی طرح منہ دیکھتے رہ گئے اور انہیں وزیر اعظم کی حیثیت سے عمران خان کو دیکھنے کا موقع تک نہیں دیا گیا۔

توقع تھی کہ ملتان کے اس اہم دور میں وزیر اعظم سے ملاقات کے لیے جنوبی پنجاب کے تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے تمام اراکین اسمبلی کو بھی بلایا جائےگا،، مگر صرف ان ارکان کو بلایا گیا جو شاہ محمود قریشی گروپ سے تعلق رکھتے تھے،جہانگیرترین کی حمایت کرنے والے اراکین کو مبینہ طور پر دعوت نامے نہیں بھیجے گئے،جبکہ ملتان سے تحریک انصاف کے معطل ایم پی اے سلمان نعیم جنہوں نے شاہ محمود قریشی کوصوبائی نشست پر شکست دی تھی، بھی وزیراعظم کی تقریب میں مدعو نہیں کیے گئے۔

اس کی دو وجوہات تھیں ،پہلی وجہ شاہ محمود قریشی کی ان کے ساتھ ذاتی مخاصمت اور دوسرا جہانگیر ترین کے ساتھ ان کی گہری وابستگی ،ان کا کہنا تھا کہ اگر انہیں بلایا بھی جاتا تو وہ اپنے گروپ سے مشورے کے بغیر تقریب میں نہ جاتے ،کیونکہ یہ طے ہو چکا ہے کہ جو ارکان اسمبلی جہانگیر ترین کے ساتھ ہیں، وہ جب بھی وزیر اعظم سے ملاقات کریں گے۔

پورے گروپ کی شکل میں کریں گے۔وزیراعظم عمران خان نے اپنے اس دورے میں بیشتر ایسے منصوبوں کا افتتاح کیا ہے جو پہلے سے ہی جاری ہیں اور ان کا بڑی حد تک کام بھی ہو چکا ہے ،کہنے کو یہ تیس ارب روپے کا پیکج ہے لیکن اس میں ملتان کے دو بڑے اہم مسائل کو نظرانداز کیا گیا ہے، سیوریج کا نظام بالکل ناکارہ ہو چکا ہے اور آئے روز سڑکوں پر بڑے بڑے شگاف پڑ جاتے ہیں جبکہ زیر زمین لائنیں بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں اور پینے کے پانی کی لائنوں کے ساتھ ساتھ گڈمڈ ہو چکی ہیں، دوسرا مسئلہ پینے کے صاف پانی کا ہے اس وقت آلودہ پانی کے حوالے سے ملتان چند خراب ترین شہروں میں شامل ہے۔

آرسینیک کی شرح خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے لیکن ان منصوبوں کے لیے ترقیاتی پیکج میں کوئی جگہ نہیں رکھی گئی،سڑکیں بنانے کے منصوبے اس پیکیج میں شامل ہیں، لیکن وزیر اعظم جو دعوی کیا کرتے تھے کہ انسانی صحت اور تعلیم کے لیے سب سے زیادہ توجہ دینی چاہیے وہ اس پیکج میں کچھ زیادہ نظر نہیں آئے، ملتان میں سو سالہ پرانے ایمرسن کالج کو یونیورسٹی کا درجہ دے دیا گیا لیکن اس کے لیے ایک پیسہ کی گرانٹ منظور نہیں کی گئی دوسری طرف تونسہ، راجن پور اور اپر پنجاب میں یونیورسٹیاں قائم کرنے کے لئے اربوں روپے مختص کیے گئے ہیں ،جس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ملتان کو کس طرح نظر انداز کیا جارہا ہے، وزیر اعظم نے اگرچہ اپنے خطاب میں اس بات پر زور دیا کہ ملک میں جب تک یکساں ترقی نہیں ہوگی۔

اس وقت تک ملک اوپر نہیں اٹھے گا لیکن دیکھنا یہ ہے کہ جنوبی پنجاب کے سب سے بڑے شہر کے لئےتیس ارب روپے کیا اونٹ کے منہ میں زیرہ کے برابر نہیں ہیں، پچھلے تقریبا تین برسوں میں تحریک انصاف کی حکومت نے ملتان کو ایک بھی نیاترقیاتی منصوبہ نہیں دیا جبکہ یہی وہ ملتان ہے کہ جسے شہباز شریف نے اپنے دور میں میٹرو بس کا منصوبہ دیا اور اس سے پہلے وزیر اعظم کی حیثیت سے یوسف رضا گیلانی نے فلائی اورز اور سڑکوں کا جال بچھایا۔

تحریک انصاف کو 2018 ءکے انتخابات میں ملتان کے عوام نے کلین سویپ فتح دلائی تھی اس لیے چاہیے تو یہ تھا کہ ملتان کے لئے تحریک انصاف ترقیاتی منصوبوں کا ایک جال بچھا دیتی، مگر اب جب کہ حکومت کے تقریبا دو سال باقی رہ گئے ہیں ان منصوبوں کا افتتاح، یوں لگتا ہے کہ کاغذوں تک ہی محدود رہ جائے گا۔ وزیراعظم کی اس دور ے میں جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کا افتتاح بھی کیا گیا، یہ وہ منصوبہ ہے کہ جسے یہاں عوامی سطح پر زیادہ پذیرائی نہیں مل سکی ،خاص طور پر سرائیکی قوم پرست جماعتوں نے وزیر اعظم کے ہاتھوں جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کے افتتاح کو یکسر مسترد کر دیا ہے۔

ان کا یہ کہنا ہے کہ جب تک علیحدہ صوبہ نہیں بنتا، اس قسم کے حربوں سے جنوبی پنجاب کے کروڑوں عوام کو بہلایا نہیں جا سکتا ،جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ ابھی تک بنیادی حقائق کے حوالے سے ہوا میں معلق نظر آتا ہے ،اس دوران اچانک تقریبا ایک ماہ پہلے اس نوٹیفیکیشن کو ہی واپس لے لیا گیا جس کے ذریعے جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ قائم کیا گیا تھا،جب شور مچا، تو اچانک پنجاب حکومت خواب غفلت سے جاگی اور اس نے وہ نوٹیفکیشن واپس لے لیا، اب وزیراعظم اس جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کا افتتاح کر گئے ہیں، تو کیا یہ واقعتاً ایک مؤثر، عملی اور عوام کے مسائل کا حل پیش کرنے والا ادارہ بن سکے گا۔