میرا پاکستان …

May 06, 2021

حرف و حکایت … ظفرتنویر
ظاہر ہے میں خود تو وہاں موجود نہیں تھا لیکن بعض دوستوں کے ذریعہ یہ جان کر بے انتہا مسرت ہوئی کہ ہمارے سپہ سالار بھی عام پاکستانیوں کی طرح اپنے ملک کو ایک عام نارمل سے ملک کی صورت میں دیکھنا چاہتے ہیں، ملک کے نامور صحافیوں اور اینکر کے ساتھ ہونے والی اس نشست میں ہمارے آرمی چیف قمر جاوید باجوہ نے جہاں ملک اور اس کی سیاسی صورتحال کے بارے میں بہت سے سوالات کا جواب دیا وہیں اپنی سب سے بڑی خواہش اور تمنا بھی صحافیوں کے سامنے رکھ دی وہ کہہ رہے تھے کہ ریٹائرمنٹ کے بعد اپنے نواسے، نواسیوں اور پوتے، پوتیوں کے ساتھ فرصت کے لمحات گزارنے کے ساتھ ساتھ میری زندگی کی سب سے بڑی خواہش یہ ہے کہ میں اپنے ملک اپنے وطن کو دنیا کے دوسرے ملکوں کی طرح ایک نارمل ملک کی حیثیت سے دیکھ سکوں، آرمی چیف کی یہ خواہش صرف ان کی ہی نہیں بلکہ ہمارا پورا وطن اور اس کے باسی بھی یہی خواب دیکھتے ہیں کہ وہ بھی اپنے ملک کو عام ملکوں کی طرح پھلتے پھولتے اور ترقی کرتا دیکھیں عام ملک ہوتا کیسا ہے اور نارمل ملک کسے کہتے ہیں اکثر لوگ نارمل ملک کی بات کرتے ہوئے پاکستان کے مختلف ادوار کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں ایک جنرل ضیاء الحق سے پہلے کا پاکستان اور دوسرا جنرل ضیاء کے دور سے جنم لینے والا پاکستان میری عمر کے جن لوگوں نے 1977ء سے پہلے کا پاکستان دیکھ رکھا ہے ان کے نزدیک وہ پہلے والا پاکستان نارمل ملک تھا جہاں لوگ ایک دوسرے سے اس کا مذہب یا مسلک جانے بغیر پیار کرتے تھے، ایک محلے دار کو پورے محلے کے لوگوں سے واسطہ ہوتا تھا تعلق ہوتا تھا، کونڈوں کی نیاز سے میلاد کی دیگوں تک اور حسینی سبیل سے لے کر ختم اور فاتحہ کی کھیر تک، سب پر سب کا حق ہوتا تھا اور سبھی ایک دوسرے کے احترام میں ایک دوسرے کی طرف سے ڈھکے ہوئے برتنوں میں بھیجے گئے تبرکات کو احترام سے قبولتے بھی اور آگے بھی بڑھاتے، بعض لوگوں کا تو یہ بھی خیال ہے کہ مذہبی تنگ نظری اور ایک دوسرے پر انگلیاں اٹھانے کا کام تو چیئرمین بھٹو کے دور میں ہی شروع ہوگیا تھا جب 1974ء میں پہلی مرتبہ ملک کے سب سے بڑے پارلیمانی ادارہ میں سیاسیات پر بحث کرتے کرتے لوگوں کے اعتقادات پر وار کئے جانے لگے،پاکستان میں ان لوگوں کو شہ ملی جنہوں نے بعد میں شیعہ سنی کے نام پر لنڈی کوتل سے کراچی تک ہزاروں بے گناہوں کے خون سے ہاتھ رنگے ان لوگوں کے نزدیک 1974ء سے پہلے کا پاکستان ایک نارمل ملک تھا، جب پاکستان وجود میں آیا تو اس کا تعارف ایک فلاحی ریاست کے طور پر کروایا گیا تھا، ہندوستان میں بسنے والی بہت سی اقلیتوں نے اقلیتوں کے حقوق کے نام پر پاکستان کو ہی اپنا وطن بنا لیا تھا ان اقلیتوں میں ہندو بھی تھے سکھ بھی مسیحی بھی اور یہودی بھی پاکستان کی پہلی کابینہ دیکھیں تو قائداعظم نے اپنے ملک کے آئین اور قانون کی نگرانی کیلئے جس کا انتخاب کیا وہ ایک ہندو تھا، وہ پاکستان یقیناً ایک نارمل پاکستان تھا جس کو چلانے کیلئے قائد نے ایک واضح راستہ چن رکھا تھا لیکن نارمل سے ابنارمل ہونے کا یہ سفر اسی روز شروع ہوگیا تھا جب مارچ 1949ء میں قرارداد مقاصد میں غیر مسلم اراکین پارلیمنٹ کی طرف سے پیش کی گئی دس کی دس ترمیم مسترد کردی گئیں اور ملک میں بسنے والی اقلیتوں کو یہ باور کروادیا گیا کہ ملک میں وہی سب کچھ ہوگا جو اکثریتی مذہب طے کرے گا یہی وہ دن تھے جب اقلیتوں کو بھی شاہد پہلی بار یہ احساس ہوا تھا کہ مسلمانوں کا ساتھ دے کر شاید ہم نے غلطی کی ہے، جب جوگندر ناتھ منڈل نے اس وقت کے وزیراعظم کیخلاف بولنا شروع کیا تو اس پر مقدمات بنا دیئے گئے اور اس سے پہلے کہ وہ حکومت کے ہاتھ آتے وہ واپس ہندوستان چلے گئے اور وہیں چل بسے، جوگندر ناتھ منڈل وہ واحد پاکستانی نہیں تھے جنہیں بھارت جانے پر مجبور کیا گیا بلکہ مذہبی تنگ نظری کے باعث پاکستان سے بھارت جانے والوں کی تعداد سیکڑوں میں نہیں ہزاروں میں ہے 1947ء میں پاکستان کی آبادی میں اقلیتوں کا حصہ اور 2021ء میں پاکستان میں اقلیتوں کی تعداد دیکھیں تو تمام صورتحال کھل کر آپ کے سامنے آجاتی ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کی اکثریتی آبادی مسلمانوں کی ہے لیکن پاکستان کی اقلیتوں کو بھی پاکستان میں رہنے کا اتنا ہی حق ہے جتنا خود مسلمانوں کو حاصل ہے یہ میں نہیں کہہ رہا یہ ارشادات اس شخص کے ہیں جس نے اس ملک کو بنایا تھا ، نارمل پاکستان تو پھر وہی ہوگا جس کی جھلک قائد کی پہلی کابینہ میں دیکھی جاسکتی ہے، ایک عام پاکستان جس کے تمام باسی اس کے مالک ہوں۔