کاروباری فیصلے کس طرح لیے جائیں؟

May 24, 2021

کسی کمپنی کے چیف ایگزیکٹو آفیسر ہیں یا کوئی اُبھرتے ہوئے انٹرپرینیور، اگر آپ سے پوچھا جائے کہ آپ کاروباری فیصلہ لینے سے پہلے کن عوامل پر غور کرتے ہیں اور کس قدر ضروری معلومات حاصل کرنے کے بعد فیصلہ لیتے ہیں تو آپ کا جواب کیا ہوگا؟ یقیناً، آپ کا جواب ہمیں معلوم نہیں لیکن ایک بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ کاروباری فیصلے لینا ایک پُرخطر عمل ہے کیونکہ ایک غلط فیصلہ آپ کی برسوں کی محنت، ساکھ اور نیک نامی پر پانی پھیر سکتا ہے۔

ایمازون کے معرض وجود میں آنے کے پانچ سال بعد 1999 میں اس کمپنی کے بانی جیف بیزوس نے کہا تھا کہ ’اس بات کی ضمانت نہیں ہے کہ ایمازون ڈاٹ کام ایک کامیاب کمپنی ہو سکتی ہے۔ ہم جو کرنا چاہتے ہیں اس میں بہت پیچیدگی ہے۔‘

یہ بہت حیران کن بات ہے کہ کمپنی کے بانی اس کی کامیابی کے حوالے سے اتنی بے یقینی کا شکار تھے۔

آج 25 سال بعد ایمازون دنیا کی سب سے زیادہ قابلِ قدر کمپنیوں میں سے ایک ہے جبکہ اس کے بانی بیزوس دنیا کے امیر ترین آدمی بن چکے ہیں۔

ایمازون کے معرض وجود میں آنے کے پانچ سال بعد 1999 میں اس کمپنی کے بانی جیف بیزوس نے کہا تھا کہ ’اس بات کی ضمانت نہیں ہے کہ ایمازون ڈاٹ کام ایک کامیاب کمپنی ہو سکتی ہے۔ ہم جو کرنا چاہتے ہیں اس میں بہت پیچیدگی ہے۔‘

یہ بہت حیران کن بات ہے کہ کمپنی کے بانی اس کی کامیابی کے حوالے سے اتنی بے یقینی کا شکار تھے۔

آج 25 سال بعد ایمازون دنیا کی سب سے زیادہ قابلِ قدر کمپنیوں میں سے ایک ہے جبکہ اس کے بانی بیزوس دنیا کے امیر ترین آدمی بن چکے ہیں۔

جس کمپنی نے آن لائن کتابیں فروخت کرنے کے کام سے آغاز کیا تھا، اب وہ ایک بڑا نام بن چکی ہے۔

جیف بیزوز نے 1999 میں کہا تھا کہ ’جب ہم نے چار سال قبل کتابیں فروخت کرنا شروع کی تھیں تو ہمیں کہا گیا کہ دیکھیں آپ صرف کمپیوٹر کا کاروبار جانتے ہیں اور کتابوں کے کاروبار سے متعلق آپ کو کچھ پتا نہیں ہے اور یہ سچ تھا۔‘

لیکن ہوا یہ کہ ایمازون کے پاس امریکا میں ایسا بڑا سٹور موجود تھا کہ جس سے کمپنی کو آگے بڑھنے میں بہت مدد ملی اور ایمازون کو اس قابل بنایا کہ وہ اپنی روایتی مدمقابل کمپنیوں سے بہتر کتابوں کا انتخاب کرسکے۔

جب ای بکس کا دور آیا تو ایمازون نے کمال مہارت سے اس شعبے میں بھی اپنے قدم جما لیے۔

ایمازون کے سفر کی کہانی کو مختصر کرتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس کی کامیابی کے درپردہ اس کے سربراہ جیف بیزوز کی قائدانہ صلاحیتیں تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ دنیا بھر کے کئی کاروباری سربراہان اور انٹرپرینیورز کے لیے قابلِ تقلید ہیں، ایسے میں اگر آپ کو یہ بتایا جائے کہ جیف بیزوز کاروباری فیصلے کس طرح لیتے ہیں تو یقیناً آپ کے لیے یہ ایک اچھی خبر ہوگی، کیونکہ جیف بیزوز کے فیصلہ سازی کے عمل سے آپ کچھ نہ کچھ ضرور سیکھ سکتے ہیں۔

’جس وقت آپ کو کسی بھی صورتِ حال سے متعلق 70فی صد کے لگ بھگ مطلوبہ معلومات موصول ہوجائیں تو اس وقت آپ کو اکثر کاروباری فیصلے لے لینے چاہئیں‘، جیف بیزوز کہتے ہیں، ’اگر آپ 90فی صد معلومات حاصل ہونے کا انتظار کرتے ہیں تو میں سمجھتا ہوں کہ زیادہ تر کیسز میں آپ فیصلہ سازی میں سست روی اور تاخیر کا شکار ہورہے ہیں‘۔

ایمازون دنیا کی سب سے بڑی ای کامرس کمپنی ہے۔ اس کے ملازمین کی تعداد پانچ لاکھ سے زائد ہے، اس طرح یہ وال مارٹ کے بعدامریکا میں سب سے زیادہ نوکریاں فراہم کرنے والی کمپنی بھی ہے۔

جیف بیزوز فیصلہ سازی کے اس عمل کو Day 1کا نام دیتے ہیں، دراصل وہ اسے ایک ’کانسیپٹ‘ اور ’منترا‘ کا نام دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ جس عمارت میں بھی اپنا دفتر بناتے ہیں، اس بلڈنگ کو Day 1کا نام دیتے ہیں۔ ’میں چاہے جتنی عمارتیںبدلوں، یہ نام میں اپنے ساتھ ہر جگہ لے کر جاتا ہوں‘۔ اسی طرح انھوں نے ’ڈے وَن اکیڈمیز فنڈ‘ بھی قائم کیا ہے، جو تعلیم کے شعبہ میں کام کرے گا۔

’ڈے وَن‘ ذہنیت کا ایک اصول ’تیز تر‘ فیصلے کرنا ہے۔ تاہم ’تیز تر فیصلے‘ لینا اس سوچ کا واحد مقصد نہیں ہے۔جیف بیزوز کہتے ہیں، ’آپ کو فیصلے لینے میں ’’اعلیٰ معیار‘‘ اور ’’بروقت‘‘ کو بہرحال برقرار رکھنا ہوتا ہے۔ یہ اسٹارٹ اَپس کے لیےآسان اور بڑے اداروں کے لیے نسبتاً مشکل ہوتا ہے‘۔

آپ اپنے فیصلوں میں ’اعلیٰ معیار‘ اور ’بروقت‘ کو کس طرح برقرار رکھ سکتے ہیں، جیف بیزوز کچھ راہنما اصول بیان کرتے ہیں۔

1- یقینی (90فی صد) معلومات حاصل ہونے کا انتظار کرنے کے بجائے، مناسب معلومات (70 فی صد) کے ساتھ کام کرنا سیکھیں۔

2-فیصلہ لینے کے بعد غیریقینی صورتِ حال میں خود کو ڈھالنے کے لیے اپنے اندر لچک پیدا کریں۔ ’کئی فیصلے قابلِ واپسی ہوتے ہیں، دو رویہ دروازوں کی طرح، جن سے گزر کر آپ واپس بھی آسکتے ہیں‘، جیف بیزوز کہتے ہیں۔ وہ فیصلے جن کو آسانی سے واپس لیا جاسکے، ان کے لیے لائٹ۔ویٹ پراسیس استعمال کریں۔ اس کے لیے آپ خود سے ایک سوال کریں: کیا ہوا اگر آپ نے ایک غلط فیصلہ لیا؟

3-کامل فیصلے لینے کے لیے غلطیوں سے اجتناب برتنے کے بجائے ’غلط فیصلوں کی فوری نشاندہی کرکے انھیں درست کرنے پر مہارت حاصل کریں۔ اگر آپ چیزوں کو تیزی سے درست کرنے میں اچھے ہیں تو آپ کا غلط ہونا اتنا زیادہ معنی نہیں رکھتا، بلکہ سست ہونا آپ کو مہنگا پڑسکتا ہے‘۔

4-وہ بڑے فیصلے، جنھیں واپس نہیں لیا جاسکتا یا جن کا صارفین، ملازمین یا آپ کے شراکت داروں پر بڑا اثر پڑسکتا ہے، ان پر عمل درآمد کریں، خود نقصان برداشت کریں اور آگے بڑھ جائیں۔ جیف بیزوز اسے Disagree and commitنظریہ کہتے ہیں۔

آپ کو ایک چیز پر یقین ہے اور آپ کو لگتا ہے کہ وہ آپ کے لیے اور کمپنی کے لیے مفید رہے گی، تو چاہے کمپنی میں اس پر عدم اتفاق موجود ہو، آپ کہہ سکتے ہیں کہ، ’دیکھیں، مجھے معلوم ہے کہ ہم میں سے ہر شخص اس بات پر اتفاق نہیں کرتا لیکن کیا آپ میرے ساتھ یہ پُرخطر کھیل کھیل سکتے ہیں؟ کیا اتفاق نہ کرنے کے باوجود آپ اس فیصلے میں میرا ساتھ دے سکتے ہیں، یعنی Disagree and commit۔

جیف بیزوز کہتے ہیں کہ وہ فیصلہ لینے میں معلومات(ڈیٹا)حاصل کرکے اس کا تجزیہ کرنے کے بجائے اپنے دل، وجدان، اور ہمت کا زیادہ استعمال کرتے ہیں۔ ’اگر آپ ایک فیصلہ تجزیے کی بنیاد پر لے سکتے ہیں تو آپ ایسا ضرور کریں۔ لیکن اکثر یہی ہوتا ہے کہ آپ اپنی زندگی کے سارے بڑے اور اہم فیصلے اپنے وجدان، مزاج اور دل سے کرتے ہیں۔

’ایمازون کی کامیابی کا راز یہ ہے کہ ہم نے اپنی ترجیحات میں حریف کے بجائے گاہک کو سرِفہرست رکھا ہوا ہے۔ ہمیں اپنے حریفوں پر نظر رکھنے کے بجائے ہر وقت یہ فکر رہتی ہے کہ ہم اپنے صارفین کو کس طرح خوش اور مطمئن رکھ سکتے ہیں۔

مجھے وہ دن یاد ہے، جب صارفین کے ڈیلیوری پیکٹ میں خود پوسٹ آفس لے کر جارہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ ہم فورک لفٹ کب خریدنے کے قابل ہوسکیں گے۔ آج ایمازون ایک بڑی کمپنی بن چکی ہے لیکن اس کے دل اور جذبے کو اسی طرح برقرار رکھنا چاہتا ہوں، جیسے ابھی ابھی شروع کیا ہو‘۔