نیتن یاہو کا جانا ٹھہر گیا ہے ؟

June 09, 2021

اسرائیل میں 2019ء میں تین بار عام انتخابات کا انعقاد ہوا تھا پھر چوتھی بار بمشکل وزیراعظم نیتن یاہو کی لیکڈپارٹی سادہ اکثریت حاصل کر پائی اور وہ وزیراعظم منتخب ہوئے ۔ سال 2021ء میں ایک بار پھر حزب اختلاف کا نیا بڑا اتحاد وزیراعظم نیتن یاہو کے لئے خطرہ بن کر اُبھرا ہے۔ اسرائیل یوں تو یہودیوں کا وطن ہے اور اس نام پر اس ریاست کا قیام عمل میں آیا مگر آئینی طور پر اسرائیل لبرل پارلیمانی ڈیموکریٹک، سیکولر ریاست ہے۔ آئین کے مطابق حکومت کی تشکیل اور وزیراعظم کا انتخاب عام انتخابات کی صورت میں ہوتا ہے۔

اب یہی ہو رہا ہے وزیراعظم نیتن یاہو کا منصب خطرہ میں پڑ چکا ہے اور حزب اختلاف کا نیا اتحاد اپنا اُمیدوار نامزد کر چکا ہے اور نیتن یاہو کو پارلیمان سے اعتماد کا ووٹ لینے کا مسئلہ ان کے گلے میں اَٹک گیا ہے۔ نئی بات یہ ہوئی ہے کہ اسرائیل میں آباد عربوں اور غیر یہودی باشندوں کی جماعت یونائیٹڈ عرب نے اسرائیل کی عملی سیاست میں شرکت کرنے اور مشترکہ اتحاد کی حمایت میں آگے آنے کا اعلان کر دیا ہے۔

یونائیٹڈ عرب کو ملک کی تقریباً 21 فیصد عوام کی حمایت حاصل ہے۔ پارٹی کے صدر منصور عباس نے میڈیا کو بتایا کہ یہ فیصلہ بہت غور و خوض کے بعد کیا ہے تا کہ ہم سب مل کر ریاست میں امن مشن اور مشترکہ مفادات کے ایجنڈا کو کامیاب کریں۔ منصور عباس کے اس اعلان پر بعض حلقوں کو بڑی حیرت ہے مگر اکثریت یونائیٹڈ عرب پارٹی کے اس فیصلے کو خوش آئند تصور کرتی ہے۔

وزیراعظم نیتن یاہو گزشتہ پچیس برسوں سے زائد عرصے سے عملی سیاست سے وابستہ ہیں۔ چار بار وزیراعظم رہ چکے ہیں اس کے علاوہ وہ دیگر اہم عہدوں پر بھی کام کر چکے ہیں ان کی لیکڈ پارٹی ملک کی مستحکم بڑی سیاسی جماعت ہے، مگر اس کے باوجود ان پر بدعنوانی، اقرباپروری، اختیارات کے ناجائز استعمال اور من مانی کرنے کے الزامات لگتے ہیںلیکن نیتن یاہو اپنی سیاسی چالوں اور تجربے سے حزب اختلاف کو ناکام بناتے آئے ہیں۔ اس بار ذرائع کا دعویٰ ہے کہ نیتن یاہو کا جانا ٹھہر چکا ہے اور وہ کسی بھی لمحہ اپنی کرسی سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔

اسرائیل میں ایک درجن کے قریب سیاسی جماعتیں رجسٹرڈ ہیں۔ ان میں لیکڈ پارٹی، بلیو اینڈ وائٹ پارٹی، اسرائیلی لیبر پارٹی اور شاز پارٹی نمایاں ہیں۔ اسرائیل میں سیاسی دھڑوں کو چار حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ مثلاً لبرل ڈیمو کریٹک یہودی، صیہونی رُجعت پرست، سوشل ڈیمو کریٹس اور عرب قوم پرست۔ فی الفور مشترکہ اتحاد نے نیتن یاہو کے مقابلے میں جس سیاستداں کو آگے بڑھایا ہے، وہ 49 سالہ نیفتالی بینٹ ہیں جو سابق فوجی افسر اور سیاست سے گہرا لگائو رکھتے ہیں ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ نیتن یاہو سے کہیں زیادہ رُجعت پسند یہودی ہیں اور کھلم کھلا مسلمانوں کے خلاف بیانات دیتےہیں۔

عرب تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ اگر نیفتالی وزیراعظم بن گئے جس کے آثار قوی ہیں تو شاید سیاست کا نقشہ بدل جائے اور حماس کو اپنی کارروائیاں کرنے کا مزید موقع مل جائے۔ نیتن یاہو بھی ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھے ہیں اور اپنی کوششوں میں مصروف ہیں کہ وہ اپنے منصب پر فائز رہ سکیں۔

ملکی غیرملکی ذرائع ابلاغ میں آئے دن یہ خبریں شائع ہوتی رہتی ہی کہ اسرائیل معاشی مسائل میں گھرا ہوا ہے۔ مسائل بڑھتے جا رہے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ دراصل یہ خبریں اسرائیل کی طرف سے پھیلائی جاتی ہیںتاکہ اسی طرح امریکی حکومتوں کو بھی اسرائیل کی سالانہ تین ارب ڈالر کی اقتصادی امداد جاری کرنے کا جواز فراہم ہو سکے۔

درحقیقت اسرائیل اپنے خطّے اور اطراف میں سب سے زیادہ ترقّی یافتہ ملک ہے۔ اسرائیل کا زرعی شعبہ، جدید صنعتی شعبہ، تجارتی سیاحت، تعلیمی تحقیقی اور صحت عامہ کا شعبہ بیش تر یورپی ممالک سے زیادہ ترقّی یافتہ اور جدید ہیں۔ اسرائیل واحد ملک ہے جو رات کو آسمان سے ٹکپنے والی شبنم کو بھی زراعت میں استعمال کرتا ہے۔ سچ یہ ہے کہ اسرائیل کا تعلیمی شعبہ بہت ترقّی یافتہ ہے، خاص کر تحقیق پر زیادہ زور دیا جاتا ہے۔

اس شعبہ کو کلیدی حیثیت حاصل ہے ، اس کے بعد ڈیفنس، صحت عامہ و دیگر شعبہ جات ہیں، یہی وجہ ہے کہ مشرق وسطیٰ اور خلیجی ریاستوں کے رہنما یکے بعد دیگر اسرائیل سے تعلقات استوار کرنے اور سفارتی تعلقات قائم کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ عرب رہنمائوں کا استدلال یہ ہے کہ ہم اسرائیل کی جدید ٹیکنالوجی سے فائدہ اُٹھانا چاہتے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ یہ رہنما فی الحال اسرائیل سے سراغ رسانی کرنے عوام الناس کے ہجوم پر نظر رکھے گا۔ مشتبہ افراد کی مؤثر نگرانی کرنے کے آلات خرید چکے ہیں۔ عرب ریاستیں اس جدید ٹیکنالوجی سے مستفید ہو رہی ہیں۔

درحقیقت گزشتہ چالیس برس سے زائد عرصے سے مشرق وسطیٰ میں دو ریاستیں ایک دوسرے کی شدت سے مخالف ہیں۔ ایران اور اسرائیل انقلاب ایران کے رہبر اور امام خمینی نے مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کے وجود کو ماننے سے انکار کر دیا تھا اور اس کو مسلمانوں کا دُشمن اوّل قرار دیا تھا، تب سے ایران خطّے میں اسرائیل کا سب سے بڑا مخالف اوّل ہے۔ ایران نے ہمیشہ فلسطینیوں کی مدد کی ہے۔ چونکہ ایران ایک مستحکم قومی مملکت اور عسکری طور پر مضبوط ملک ہے اس لئے اسرائیل کو اس سے ہمیشہ خطرہ لاحق رہا۔ اس کے علاوہ خطّے میں حزب اللہ اور شیعہ ملیشیا کی سطح پر کارروائیاں بھی اسرائیل کے لئے پریشانی کا باعث ہیں۔

تاہم جاری حالات میں اسرائیل میں غیریقینی سیاسی صورت حال ہے۔ خاص طور پر حالیہ اسرائیل اور حماس کے ٹکرائو نے یہودی آبادی کو خاصا بے چین کر دیا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ حماس نے غیرمتوقع طور پر اسرائیل کے شہروں پر میزائلوں کی بارش کر دی اس سے قبل اتنی بڑی تعداد میں جدید میزائل نہیں داغےگئے تھے، یہاں تک کہ اسرائیل کا اینٹی میزائل سسٹم تقریباً ناکام ہوگیا اور اس سے بچ نکلنے والے میزائلوں نے تل ابیب اور بیت المقدس کی نئی یہودی آبادیوں کے ہوش اُڑا دیئے اور کئی عمارتیں زمیں بوس ہوگئیں۔ ہرچند کہ اسرائیل نے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی اور نہتے فلسطینیوں کو بھاری جانی اور مالی نقصانات پہنچائے۔

یہاں اہم سوال یہ ہے کہ دو اہم ممالک کی آپس کی جنگ فلسطینیوں کے کندھوں پر پراکسی وار کیوں؟ ظاہر ہے اس میں نہتے فلسطینیوں کا سراسر نقصان ہے۔ اس مسئلے پر خطّے کے ممالک اور مسلم ممالک کو ضرور غور کرنا چاہئے۔ اس طرح کی حکمت عملی میں اسرائیل کا فائدہ ہے، کیونکہ وہ براہ راست فلسطینیوں کو نشانہ بنا سکتا ہے اور وہ ستم جو برسوں سے جاری ہے کہ تصادم کے بہانے فلسطینیوں کے گھروں پر قبضہ کرو اور یہودی بستیوں کی توسیع کرو اس عمل میں تیزی آ جاتی ہے۔ امریکہ کو دوسری عالمی جنگ کے بعد مشرق وسطیٰ میں دریافت ہونے والے تیل کے ذخائر کو اپنی گرفت میں رکھنے کے لئے برطانیہ اسرائیل کی شکل میں ایک مضبوط چوکی فراہم کر دی اس طرح برطانیہ اور امریکہ دہائیوں سے مشرق وسطیٰ کے تیل کا بے دھڑک استعمال کرتے بلکہ اس کا استحصال کرتے رہے۔

سابق امریکی صدر اوباما کے دور میں امریکی پالیسی میں قدرے تبدیلی آئی اور امریکہ نے اب اپنے تیل کے وسیع ذخائر کو استعمال کرنے کی پالیسی اپنائی تو امریکہ کے لئے مشرق وسطیٰ ثانوی حیثیت اختیار کر گیا ہے، خاص طور پر چین کے عالمی منظر پر اُبھرنے کی وجہ سے گلوبل سیاست میں تبدیلیاں نمایاں ہونے لگیں اور مزید واضح تبدیلیاں سامنے آئیں گی۔ امریکہ کا ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ نیویارک میں وال اسٹریٹ حصص مارکیٹ جہاں روزانہ اربوں ڈالر کے سودے طے پاتے ہیں اس سمیت بڑے بینکوں، تجارتی کارپوریشنز کے سربراہوں کی بڑی تعداد یہودی ہے،جو اسرائیل کی حامی اور طرف دار ہے اور یہ لابی ہر صدارتی الیکشن کے موقع پر اہم ترین کردار ادا کرتی ہے۔ سابق صدر باراک اوباما کے دور میں ایران امریکہ جوہری معاہدہ کا سلسلہ عروج پر تھا اور اسرائیل کے وزیراعظم مسلسل امن معاہدہ کے حوالے سے روزانہ مخالف بیانات جاری کر رہے تھے۔

ایک ملاقات میں صدر اوباما اور وزیراعظم نیتن یاہو کے مابین مذاکرات میں کشیدگی دَر آئی، مگر صدر اوباما نے معاہدے طے کر لیے۔ بعدازاں سابق صدر ٹرمپ نے اسرائیلی وزیراعظم کی یک طرفہ حمایت میں ایران امریکی جوہری معاہدہ منسوخ کر دیا تھا، مگر اب صدر جوبائیڈن نے اپنا منصب سنبھالتے ہی ایران امریکی معاہدہ کی دوبارہ تجدید کے لئے سنجیدہ مذاکرات شروع کر دیئے اس پر پھر اسرائیلی وزیراعظم نے واویلا مچانا شروع کر دیا۔ نیتن یاہو کا مؤقف یہ ہے کہ امریکہ اور ایران جتنے معاہدے کر لیں ایران ضرور جوہری ہتھیار بنائے گا۔ اس کے باوجود ایران امریکہ کے مابین معاہدہ پر بات چیت کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ کہا جاتا ہے اس بیک ڈور ڈپلومیسی میں جان کیری اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔

یوں بھی صدر بائیڈن کی انتظامیہ میں زیادہ تر ماہرین وزراء صدر اوباما کی انتظامیہ کے تجربہ کار شخصیات ہیں اور پالیسی بھی لگ بھگ وہی ہے۔ البتہ اس مرتبہ ایران نے اپنی طرف سے کچھ نئی شرائط رکھیں اس میں ایران کا استدلال ہے کہ معاہدہ پر حتمی بات چیت سے قبل ایران پر عائد شدہ اقتصادی پابندیاں ختم کرے اور ایجنڈے میں کوئی نئی شق شامل نہ کرے۔ تاہم سلسلہ جاری ہے دوسری طرف خود اسرائیل میں ایک بڑا سیاسی طبقہ وزیراعظم نتین یاہو کی تبدیلی چاہتا ہے۔ لگتا ہے کہ وہی لابی پھر نیتن یاہو کو ان کے منصب سے ہٹانا چاہ رہی ہے جس کی وجہ سے اسرائیل میں سیاسی بے چینی اور اَتھل پتھل جاری ہے۔ البتہ نتیجہ سامنے آیا چاہتا ہے۔ ہر دو جانب سے رَسّہ کشی زوروں پر ہے۔

واضح رہے کہ جب ایران امریکی معاہدہ طے پا گیا تھا اور امریکہ نے ایران پر سے جزوی طور پر اقتصادی پابندیاں نرم کر دی تھیں تو ایسے میں ایرانی صدر نے یورپی ممالک کے دورے کئے اور بڑے بڑے سودے طے کئے تھے جس کی وجہ سے ایران اور یورپی ممالک کے تعلقات پھر سے استوار ہونے لگے تھے۔ اسرائیلی وزیراعظم کو یہی خدشہ ہے کہ ایران پر سے پابندیاں ہٹا لی گئیں تو پھر یورپی ممالک کا جھکائو ایران کی طرف بڑھ جائے گا اس طرح خطّے میں اسرائیل اکیلا رہ جائے گا، مگر اسرائیل میں ایسی لابیاں بھی ہیں جو ایران امریکہ جوہری معاہدہ سے ہٹ کر سوچتی ہیں کیونکہ انہیں علم ہے کہ اسرائیل غیراعلانیہ طور پر جوہری صلاحیت رکھتا ہے اس لئے ایران کے جوہری معاہدہ کو ہوّا نہ بنایا جائے بلکہ امریکہ سے مزید سودے بازی کی بات اور سال 2015ء میں جس طرح اسرائیل نے امریکہ سے جدید ہتھیاروں کے سودے طے کئے تھے اب پھر ایسا پیکیج طلب کیا جائے اس میں اسرائیل کا زیادہ فائدہ ہے۔ اس نقطہ نظر کے افراد نیتن یاہو کو ان کے منصب سے ہٹانے پر مُصر ہیں۔