اسلام میں والدین کا مقام و مرتبہ

June 11, 2021

پروفیسر خالد اقبال جیلانی

گزشتہ دنوں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صدر جناب ڈاکٹر عارف علوی نے اولاد پر والدین کو گھر سے نکالنے کی پابندی کا آرڈیننس جاری کر کے اس قبیح فعل کو قابلِ سزا جرم قراد دیا۔یہ آرڈیننس اگر مغربی یورپی یا کسی غیر اسلامی ملک میں جاری کیا جاتا توکوئی انہونی یا حیرانی کی بات نہیںتھی، کیونکہ یورپی ممالک اور مغربی معاشروں میں تو بوڑھے والدین کو (اسکریپ) سے زیادہ اہمیت دی ہی نہیں جاتی اور وہاں اولادیں بوڑھے ماں باپ کو ’’اولڈہاؤسز‘‘ میں جمع کراتے ہیں، لیکن پاکستان جیسے اسلامی ملک میں جس کی وجہِ بِنا ہی اسلام اور اسلامی تصور حیات ہے جس میں عقائد و عبادات کے ساتھ معاملات اور معاشرتی زندگی کے مفصل اور جامع احکام کے ساتھ معاشرے کی اہم ترین اکائی’’خاندان ‘‘ یا خاندانی نظام کے بارے میں بے مثل و بے نظیر تعلیمات باتمام و کمال موجود ہیں۔

ایک ایسی اسلامی ریاست و مملکت میں ایک ایسا آرڈیننس کا نافذ ہونا کیااس بات کا ریاستی اقرار نہیں ہے کہ ہم بحیثیت قوم 74سال کے طویل عرصے میں بھی پاکستان میں نظریۂ پاکستان کے زیرِ اثر وہ نظام اور اسلامی فلاحی معاشرہ قائم کرنے میں ناکام رہے جس کے نفاذ کے لئے یہ ملک حاصل کیا گیاتھا۔ اس اسلامی نظام حیات کے تحت وہ نسل پروان نہیں چڑھا سکے جو والدین کو گھروں سے نکالنے کے بجائے انہیں اپنے دلوں میں بسائیں ، ہم معاشرے کو وہ افراد نہیں دے سکے جو ماں باپ پر تشدد کرنے ، انہیں مارپیٹ کرنے جیسے قبیح عمل کے بجائے انہیں اپنے بازوؤں میں تھام لیں۔

اسلام اپنے معاشرتی نظام میں خاندان کو بڑی اہمیت دیتا ہے اور خاندان کو معاشرے کی بنیادی اکائی قرار دیتا ہے تو دوسری طرف والدین کو خاندان کی بنیادی اکائی، اس بنیادی اکائی یعنی والدین کے بغیر انسانی معاشرے کی تاسیس و تشکیل اور تعمیر ممکن ہی نہیں انسانی رشتوں کی بنیاد ماں باپ ہی ہیں ، ماں باپ کی بقاء پر معاشرے کی بقا کا انحصار ہے۔

مردو عورت کا سب سے اچھا اور اعلیٰ ترین روپ ماں باپ کا ہے۔ یہ روپ زمین پر اللہ کی رحمت کا عکس اور اس کے نظام ربوبیت کا مظہر ہے۔ معاشرتی زندگی میں اولین چیز ایثار ہے اور کوئی انسانی معاشرہ ایثار کے بغیراپنے کمال کو پہنچ ہی نہیں سکتا۔ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہیں ہو گا کہ افراد کی معاشرتی تربیت کے لئے ایثار ضروری ہے اور والدین اس ایثار کا کامل نمونہ ہیں۔ ایثار اور قربانی کے لئے والدین کا وجود ایک ایسی حقیقت ہے جس کا انکار ممکن ہی نہیں۔

معاشرے میں انسان کو جن ہستیوں سے سب سے زیادہ مدد ملتی ہے، وہ والدین ہی کی ہستی ہے جو صرف اولاد کو وجود میں لانے کا سبب ہی نہیں، بلکہ اس کی پرورش کا بھی ذریعہ ہیں۔ والدین اپنی راحت اولاد کی راحت پر، اپنی خواہش اولاد کی خواہش پر اور اپنی خوشی اولاد کی خوشی پر نثار کر دیتے ہیں اور والدین کا یہ ایثار اور قربانی بلا غرض اور بے لوث ہوتا ہے۔

دنیا کے تمام ہی معاشروں میں والدین کی شخصیت بڑی اہمیت کی حامل رہی ہے۔ یہاں تک کہ بعض معاشروں میں تو آباء و اجداد کی پرستش تک کی جاتی رہی ہے ۔ آفاقی اور زمینی حقیقت یہی ہے کہ اللہ کے بعد اس دنیا میں سب سے بلند مقام والدین ہی کو حاصل ہے ۔قدیم آسمانی صحائف اورکتب میں بھی والدین کا مقام و مرتبہ اللہ کے بعد سب سے اعلیٰ قرار دیا گیا تھا۔

قرآن و حدیث کے احکام میں بھی اللہ تعالیٰ کی وحدانیت و عبادت کے بعد سب سے زیادہ اہمیت و فضلیت کا حقدار و الدین ہی کو قرار دیا گیا ہے قرآن کریم کا انداز بیان یہ ہے کہ وہ پہلے حقوق کی ترتیب کو طے کرتا ہے ،اس کے بعد تفصیلات کو ، اس ترتیب میں والدین سرِ فہرست ہیں۔

والدین کا ادب و احترام اور ان کے ساتھ حسنِ سلوک کا ہر عقلِ سلیم رکھنے والاہر شخص قائل ہے چاہے اس کا تعلق کسی بھی مذہب و ملت سے ہو۔ قرآن وحدیث میں متعدد مقامات پر والدین سے حُسن سلوک کا حکم دیا گیا ہے ان تعلیمات کا خلاصہ کچھ یوں ہے۔ترجمہ: ہم نے بنی اسرائیل سے عہدلیا کہ سوائے اللہ کے کسی کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرنا۔ ‘‘ (سورۃالبقرہ ۸۳)

’’جو کچھ تم مال خرچ کرو تو اس میں ماں باپ کا حق ہے۔‘‘ (سورۃ البقرہ ۲۱۵)’’اور تم اللہ ہی کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک مت کرو اور والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کا مظاہرہ کرو۔ (سورۃانساء ۳۶)آپ ﷺ فرمادیجئے کہ آؤ میں تمہیں وہ چیزیں پڑھ کر سناؤں ،جنہیں تمہارے رب نے تم پر حرام فرمایا ہے، وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی چیز کو شریک مت ٹہراؤ اور ماں باپ کے ساتھ احسان کیا کرو۔ (سورۂ انعام ۱۵)اور سورۂ بنی اسرائیل میں تو والدین کے ساتھ حسنِ سلوک، ان کے ادب و احترام اور خدمت کے بارے میں بے مثل وبے نظیر آفاقی احکام عطافرمائے ہیں ، ارشاد ہوا۔’’اور تیرے رب نے حکم دیا ہے کہ بجزو اس کے کسی کی عبادت مت کرو اور (تم ) اپنے والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کیا کرو ، ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں کبھی (ہاں سے )ہوںتک مت کہناا ور نا ہی انہیں جھڑکنااور ان سے خوب ادب سے بات کرنا اورا ن کے سامنے عاجزی سے جھکے رہنا (انہیں اپنے بازوں میں حمائل کئے رہنا) اور یوں دعا کرتے رہنا کہ اے میرے پروردگار، ان دونوں(ماں باپ ) پر رحم فرما، جیسا کہ انہوں نے بچپن میں مجھ پر رحم کیا تھا’’(سورۂبنی اسرائیل۲۳--۲۴)

والدین اگر مشرک ہوں توبھی اللہ نے ان کی اطاعت کو اپنی وحدانیت پر ایمان اور شرک سے اجتناب کے ساتھ مشروط کیا۔ فرمایاگیا:ہم نے انسان کو والدین کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کا حکم دیا ہے۔ اور اگر وہ دونوں تجھ پر اس بات کا زور ڈالیں کہ ایسی چیز کو میراشریک ٹھہراکہ جس کی کوئی دلیل تیرے پاس نہیں تو ان کا کہنا نا ماننا۔ (سورۃ العنکوب ۸)

ماں باپ دونوں میں سے اولادکی پیدائش پرورش و نگہداشت میں ماں کی محنت و مشقت اور تکالیف کا خصوصی ذکر کرتے ہوئے ماں کو باپ پر ایک درجہ فوقیت دیتے ہوئے فرمایا کہ ’’ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے حوالے سے تاکید کی ہے’’ اس کی ماں نے ضعف پر ضعف (مشقت پر مشقت ) اٹھااٹھا کر اسے پیٹ میں رکھا اور دوبرس میں اس کا دودھ چھوٹتا ہے تو میری اور اپنے ماں باپ کی شکر گزاری کیا کر‘‘۔ (سورۂ لقمان ۱۴)والدین سے حسنِ سلوک کی یہ تعلیمات صرف امتِ مسلمہ ہی کو نہیں دی گئیں ،بلکہ ہر نبی کی امت کو والدین سے حسنِ سلوک، اُن کے ادب احترام اور ادائیگی حقوق کی تلقین کی گئی ۔

قرآن کریم کے بعد احادیث اور سنتِ نبوی ﷺ میں بھی ہمیں بڑی شدت کے ساتھ والدین کے ساتھ حسنِ سلوک ، ان کے ادب و احترام اور حقوق کی ادائیگی کے حوالے سے تاکید ملتی ہے، ان احکامات ِ نبوی ﷺکا خلاصہ یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ـ:’’اس کی ناک خاک میں مل گئی،’’اس کی ناک خاک میں مل گئی، ’’اس کی ناک خاک میں مل گئی،(یہ ایک عربی محاوہ ہے جس مطلب ہے کہ وہ تباہ و برباد ہو گیا) صحابہؓ نے عرض کیاکہ یا رسول اللہ ﷺ کس کی ناک خاک میں مل گئی، یعنی کون تباہ و برباد ہو گیا؟ آپ ﷺ نے فرمایا : جس نے اپنے ماں باپ میں سے دونوں یا کسی ایک کو بڑھاپے کی حالت میں پایا(اور پھر اُن کی خدمت کرکے) جنت میں داخل نہیں ہوا، (گویا ایسا شخص دنیا و آخرت میں تباہ و برباد ہو گیا۔‘‘)(صحیح مسلم)

آپ ﷺ نے فرمایا:’’کبیرہ گناہوں میں سب سے بڑا گناہ یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے ماں باپ پر لعنت بھیجے ، فرمایا کہ کوئی کسی کے والد کو گالی دیتا ہے تو گویا وہ اپنے باپ کو گالی دیتا ہے ، کسی کی ماں کی گالی دیتا ہے تو گویا وہ اپنی ماں کو گالی دیتا ہے‘‘۔(صحیح بخاری)آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’ والدین سے قطع تعلق کرنے انہیں گھر سے نکالنے والی اولاد جنت میں داخل ہی نہیں ہو سکتی‘‘(صحیح مسلم)

جہاں اولاد کے لئے جنت کو ماں کے قدموں تلے ڈال دیا گیا، وہاں باپ کی خوشنودی کو اللہ کی خوشنودی اور باپ کی ناراضی کو اللہ کی ناراضی قرار دیا،‘‘(سنن ترمذی) فرمایاگیا : اللہ انسان کے سارے گناہ بخش سکتا ہے، مگر والدین کے نا فرمان کو معاف نہیں کرتا۔(صحیح مسلم) مزید فرمایاگیا کہ ماں اور باپ انسان کی جنت اور جہنم ہیں۔ (…جاری ہے…)