2023 میں ایردوان نہیں تو کون؟

June 16, 2021

ترکی میں اپوزیشن جماعتوں نے ابھی سے قبل از وقت انتخابات کا واویلا شروع کردیا ہے جبکہ ملک میں صدارتی انتخابات سن 2023میں ہوں گے تاہم یہ صدارتی اور پارلیمانی انتخابات ایک ساتھ ماہ نومبر 2022میں ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ترکی میں سیاسی جماعتیں اپنی پوزیشن کو جانچنے کے لئے مختلف کمپنیوں کی جانب سے کروائے جانے والے سرویز کو بڑی اہمیت دیتی ہیں اور ان سرویز ہی کے نتیجے میں اپنی پوزیشن بہتر بنانے کے لئے اقدامات اٹھاتی ہیں۔ حالیہ سرویز سے یہ معلوم ہوا ہے کہ صدر رجب طیب ایردوان کی جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی (آق پارٹی )حسبِ معمول پہلی پوزیشن حاصل کیے ہوئے ہے۔ مختلف سرویز فرموں کے مطابق جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی 36 فیصد سے 42 فیصد کے لگ بھگ ووٹ حاصل کیے ہوئے ہے جبکہ دوسرے نمبر پر ملک کی سب سے پرانی جماعت ری پبلکن پیپلز پارٹی ( CHP) 25 فیصد سے 29 فیصد تک ووٹ حاصل کیے ہوئے ہے۔ یہ دونوں ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعتیں ہیں اور ان دونوں سیاسی جماعتوں کے گرد دیگرسیاسی جماعتوں کا اتحاد گھومتا ہے۔ یعنی جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کا جمہوری اتحادجبکہ دوسرا ہے ری پبلکن کا ملت اتحاد۔

ملت اتحاد کو امید پیدا ہو گئی ہے کہ وہ آخر کار بیس سال کےطویل عرصے بعد صدر ایردوان کواقتدار سے ہٹانے میں کامیاب ہو جائے گا لیکن میری ذا تی رائے میںصدر ایردوان کو شکست سے دوچار کرنا اتنا آسان نہیں جتنا اپوزیشن والے سمجھ رہے ہیں ۔ یہ بات درست ہےکہ طویل اقتدار کی وجہ سے آق پارٹی کی مقبولیت میں کافی حد تک کمی آئی ہےلیکن صدر ایردوان اپنی جماعت کو فتح سے ہمکنار کروانے کے ماہر ہیں اور وہ آخری لمحے تک اپنی فتح کیلئے جنگ جاری رکھتے ہیں اور ان کا یہی عزم ان کو کئی بار شکست کے دہانے سے فتح تک پہنچانے میں کامیاب رہا ہے۔ اس اتحاد میں شامل تین جماعتوں کے ووٹوں کو اگر موجودہ حالات کے مطابق یکجا کیا جائے تو صورتِ حال کچھ یوں ابھر کر سامنے آتی ہے 50=0.5+8+42 یعنی صدر ایردوان کے اتحادکو بمشکل کامیابی حاصل ہوسکتی ہے۔ مختلف اداروں کی سروے رپورٹوں کو دیکھتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ان جماعتوں کو ملنے والے ووٹوں کی شرح میں تبدیلی آسکتی ہے اور صدر ایردوان لازمی طور پر انتخابات سے قبل اپنے ووٹوں میں اضافہ کیلئے تن من دھن کی بازی لگانے سے گریز نہیں کریں گے۔ اب دیکھتے ہیں صدر ایردوان کے مد مقابل’’ ملت اتحاد‘‘ میں ری پبلکن پیپلز پارٹی، گڈ پارٹی جسے 10 سے 14 فیصد تک ووٹ حاصل ہیں، پیپلز ڈیمو کریٹک پارٹی (HDP) جسے 9 فیصد سے 11 فیصد ووٹ حاصل ہونے کی توقع ہے جبکہ ڈیڑھ اور ایک فیصد کے لگ بھگ ووٹ حاصل کرنے والی سعادت پارٹی، دعا پارٹی اور مستقبل پارٹی شامل ہیں ۔

ملت اتحاد کی صورتِ حال بڑی دلچسپ ہے۔اس کی سب سے بڑی پارٹی یعنی ریپبلکن کے چیئرمین کمال کلیچدار اولو اگر خود صدر ایردوان کے مد مقابل کھڑے ہوتے ہیں تو اس جماعت کے بائیں بازو سے تعلق رکھنے کی وجہ سے اگر بہت زیادہ ووٹ حاصل بھی کرلیں تو یہ 35 فیصد کے لگ بھگ ہوسکتے ہیں جو صدر ایردوان کی کامیابی کی راہ کو ہموار کردے گا، اس لئے یہ اتحاد کبھی اس قسم کا خطرہ مول لینے کی کوشش نہیں کرے گا۔ اگر اسی اتحاد میں دوسرے نمبر پر موجود گڈ پارٹی( ترک قومیت پسند پارٹی ) کی چیئر پرسن میرال آق شینر صدارتی امیدوار کے طور پر کھڑی ہوتی ہیں تو انہیں بائیں بازو کی ری پبلکن پیپلز پارٹی کے 25 فیصد، اپنی جماعت سے دس سے چودہ فیصد اوراس اتحاد میں شامل تمام چھوٹی پارٹیوں کے ووٹ حاصل ہوسکتے ہیں لیکن وہ اپنے ہی اس اتحاد میں شامل کردوں کی نمائندہ جماعت HDP کےووٹ حاصل کرنے سے قاصر رہیں گی ۔ علاوہ ازیں اسی اتحاد میں شامل دودیگر متبادل بھی موجود ہیں جن کے صدارتی امیدوار ہونے کی صورت میں ان کے اور صدر ایردوان کے درمیان سخت مقابلے کی توقع کی جاسکتی ہے۔ان دو امیدواروں میں ایک استنبول کے موجودہ مئیراکرم امام اولو نہیں جنہیںاس اتحاد میں شامل تمام جماعتوں کے ووٹ حاصل ہوسکتے ہیں اور یہ امیدوار صدر ایردوان کے لئے مشکلات کھڑی کرسکتے ہیں جبکہ دوسرے منصور یاواش ہیںجنہوں نے انقرہ میں ’’جمہور اتحاد‘‘ کے مئیر کے امیدوار کو شکست دے کر کامیابی حاصل کی تھی اور ترکی بھر میںبلدیاتی کارناموں کی بدولت جو شہرت حاصل کررکھی ہے، اس کے نتیجے میں انہیں بھی صدر ایردوان کے مقابلے میں ایک طاقتور امیدوار قرار دیا جا رہا ہےلیکن ان کی راہ میں اس وقت سب سے بڑی رکاوٹ ان کا ترک قوم پسند ہونا ہے اگرچہ منصور یاواش ترکی کی تمام سیاسی جماعتوں سے ووٹ حاصل کرسکتے ہیں بلکہ وہ آق پارٹی کے اندر سے بھی چند ایک ووٹ حاصل کرسکتے ہیں لیکن ان کو کردوں کی جماعت HDP سے ووٹ ملنا ممکن نہیں۔

اس لئے اگر’’ملت اتحاد‘‘ میں شامل تمام امیدواروں کا ایک ایک کرکے جائزہ لیا جائے تو ابھی تک صدر ایردوان کے پائے کا کوئی بھی امیدوار سامنے نہیں آیا۔اگر صدر ایردوان 2022 تک ملک کی اقتصادی صورتِ حال کو بہتر بنانے میں کامیاب ہوگئے تو پھر صدر ایردوان کاحریف اتحاد کامیابی حاصل نہیں کرپائے گا۔ جب تک حریف اتحاد صدر ایردوان کے مقابلے میں ان جیسا نڈر اور مقبول لیڈر سامنے نہیں لاتا ان کے لئے صدارتی انتخابات جیتنا ممکن نہیں ہے۔