بجٹ 2021 ۔ 22: مشکل اہداف

June 19, 2021

محمد اکرم خان

ایڈیٹر، جنگ فورم، کراچی

زبیر طفیل
سابق صدر، فیڈریشن آف پاکستان
چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری

حکومت کی گندم کی قیمت خرید اٹھارہ سو روپے فی چالیس کلو گرام ہے، اس حساب سے حکومت کو پینتالیس سو روپے فی سو کلو گرام گندم پڑ رہی ہے، جو اضافی لاگت کے بعد ذیادہ سے زیادہ پچاس روپے میں فروخت ہونا چاہیے، گندم پر ٹرن اوور ٹیکس 0.25فیصد سے بڑھا کر 1.25فیصد اور چوکر پر سیلز ٹیکس 7فیصد سے بڑھا کر 17فیصد کر دیا گیا، جس کے سبب آٹا مزید مہنگا ہوگا ،حکومت کو ایسے اقدامات سے گریز کرنا چاہی جس سے اشیاء خوردونوش کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ ہو،حکومت کو چاہیے کہ اپنے وعدوں کے مطابق ایف بی آر کو درست کرے اور ٹیکس اصلاحات لائے، ٹیکس نیٹ میں اضافے کی پالیسی اپنائی جائے، ہول سیلرز، ریٹیلرز، پروفیشنلز، ایگریکلچر انکم کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے،ایف بی آر کو گرفتاری کا اختیار دیا گیا ہے جو مناسب نہیں اس کی بجائے جس سے شکایت ہو اس پر جرمانے کی سزا دی جائے،وفاقی حکومت بھی کم از کم تنخواہوں کو پچیس ہزار کرے اور اس کو برداشت کرنے کے لئے نجی شعبہ کے لئے بجلی، گیس کے نرخوں میں کمی کرے

زبیر طفیل

محسن شیخانی
سابق چیئرمین، ایسوسی ایشن
آف بلڈرز اینڈ ڈویلپرز (آباد)

لوکاسٹ ہائوسنگ کی کامیابی کے لیے ہماری تجاویز کو بھی بجٹ دستاویز میں شامل نہیں کیا گیا جس سے لوکاسٹ ہائوسنگ اسکیم کے ناکام ہونے کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے،سریا اور سیمنٹ کی قیمتوں میں مسلسل اضافے سے لو کاسٹ نیا پاکستان ہائوسنگ اسکیم کو شدید خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔کم آمدنی والے طبقے کو سستے گھروں کی فراہمی کا منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچنا مشکل ہوگیا ہے، تعمیراتی پیکج کے تحت صرف 25 فیصدکام ہوا ہے لہذا حکومت کو چاہیے کہ بقیہ 75 فیصد کام مکمل کرنے کے لیے اس پیکج کی مدت میں 2 سال کی توسیع کی جائے،تعمیرات کے حوالے سے تمام بائی لاز پورے ملک کے لیے یکساں کیے جائیں،آن لائن ون ونڈو آپریشن کا نظام نافذ کرکے 15 روز میں تعمیراتی منصوبے کے لیے این او سی جاری کی جانی چاہیے

محسن شیخانی

ایم اے جبار
سابق چیئرمین، سائٹ ایسوسی ایشن

ایس ایم ایز کی معیشت میں اہمیت کو محسوس کیا گیا ہے اور ان کے لئے ٹیکس کا متبادل نظام اعلان کیا گیا ہے، ٹیکس اصلاحات کی حد تک آڈٹ کی دشواریوں سے ٹیکس فائلرز کو آزاد کرنے کے حوالے سے کئے گیا اعلان کی بھی کا فی پذیرائی ہوئی ہے ، عملی طور پر اعلان شدہ خود ٹیکس تشخیصی نظام کو بھی قابل اجراء کرنے کی ضرورت ہے ، اصولی طور پر یہ اعلان قابل تعریف ہے جس کا اجراء 2000 ء میں پہلے جنرل پرویز مشرف کے دور میں کیا گیا تھا مگر اس کے خدوخال 20 سالوں میں اتنے خراب ہو چکے ہیں کہ نوٹسز کا بے تحاشا اجراء اور اوپر سے بدعنوانی کے حوالے سے ایف بی ار کی شہرت بہت حد تک داغ دار ہو چکی ہے

انجینئر ایم اے جبار

حکومت نے نئے مالی سال 2021-22 کا وفاقی بجٹ پیش کردیا ہے۔ ان دنوں قومی اسمبلی میں بحث جاری ہے۔ حکومتی اراکین بجٹ کو متوازن قرار دے رہے ہیں۔ ان کے خیال میں مشکل معاشی حالات میں یہ ایک بہترین بجٹ ہے جو پاکستان کی معاشی صورت حال کو بہتر بنانے میں معاون ثابت ہوگا۔ ملک میں کاروباری سرگرمیاں بڑھیں گی، روز گار کے نئے مواقعے پیدا ہوں گے، افراطِ زر میں کمی ہوگی، حکومتی وسائل میں اضافہ ہوسکے گا اور حکومت اپنے معاشی ترقی کے اہداف حاصل کرنے میں کام یاب ہوجائے گی۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ملک معاشی ترقی کی جانب گامزن ہوگیا ہے۔

اس کے برعکس اپوزیشن اراکین بجٹ کو مایوس کن قرار دیتے ہیں، ان کے خیال میں بجٹ اعداد و شمار کے گورکھ دھندے کے سوا کچھ نہیں۔ جعلی اعداد و شمار پر بجٹ پیش کیا گیا ہے جو عملاً ایک بڑی ناکامی سے دوچار ہوگا۔ ان کی رائے میں حکومت معاشی شرح نمو حاصل کرنے میں ناکام ہے اور اس کا اگلا ہدف بھی حاصل نہیں ہوسکے گا۔ رواں برس بھی معاشی شرح نمو کا غلط نمبر پیش کیا گیا ہے۔ ٹیکس کے اہداف تین برسوں بعد بھی حاصل نہیں ہوسکے۔ آئندہ مالی برس کا ٹیکس ہدف بھی حاصل نہیں ہوسکے گا جس کے سبب بجٹ خسارہ بڑھے گا اور حکومت قرضوں پر انحصار کرے گی۔

مہنگائی میں کمی کے لیے کوئی اقدام نہیں کیا گیا اور مہنگائی سے پسے عوام کو مزید مہنگائی کے حوالے کردیا گیا ہے۔ بجٹ نامکمل ہے، نیا منی بجٹ جلد پیش کیا جائے گا۔ پیٹرول اور بجلی کے نرخوں میں اضافے سے پیداواری لاگت میں اضافہ ہوگا جس کے سبب افراط زر کی شرح مزید اوپر جائے گی۔ نئے مالی سال کا بجٹ کیسا ہے، یہ جاننے کے لیے پوسٹ بجٹ فورم کا انعقاد کیا گیا جس میں فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سابق صدر زبیر طفیل، ایسوسی ایشن آف بلڈرز اینڈ ڈویلپرز کے سابق چیئرمین محسن شیخانی اور سائٹ ایسوسی ایشن کے سابق چیئرمین انجیئر ایم اے جبار نے اظہار خیال کیا۔ فورم کی رپورٹ پیش خدمت ہے۔

زبیر طفیل

سابق صدر، فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری

حکومت نے جس وقت نئے مالی برس کا وفاقی بجٹ پیش کیا ہے اس وقت عوام شدید مہنگائی سے دوچار ہیں، افراط زر کی شرح ڈبل فیگر میں ہے لیکن خوراک میں یہ شرح خطرناک حدوں کو چھو رہی ہے، اندازہ کے خوراک کی اشیاء میں مہنگائی کی شرح سترہ فیصد ہے، جو بہت ہی بلند ہے، روز مرہ کھانے کی اشیاء آٹا، چینی، چاول، چائے، دودھ، گھی ، کھانے کا تیل، غرض تمام کچن آئٹمز کی قیمتیں بہت بلندی پر ہیں اور مستقبل میں ان میں کمی کے آثار نظر نہیں آتے، آٹے اور چینی مہنگی کیوں فروخت ہو رہی یہ سمجھ سے باہر ہے، ایک طرف حکومت گندم اور گنے کی پیداوار میں خودکفیل بتاتی ہے اور دوسری طرف آٹے اور چینی کی قیمتوں میں کنٹرول نہیں کر پارہی، کسان سے گندم کی حکومت کی قیمت خرید اٹھارہ سو روپے فی چالیس کلو گرام ہے، اس حساب سے حکومت کو پینتالیس سو روپے فی سو کلو گرام گندم پڑ رہی ہے، جو اضافی لاگت کے بعد زیادہ سے زیادہ پچاس روپے میں فروخت ہونا چاہیے، کسان کو اسی تناسب سے ہی رقم اداکی جا رہی ہے، لیکن مارکیٹ میں صارفین کو یہ ہی آٹا پچھتر روپے فی کلوگرام دستیاب ہے، اب یہ کون بتائے گا کہ تیس روپے فی کلو کس کی جیب میں جا رہے ہیں، یہ کسان کو تو نہیں مل رہے، یقینی طور فلور ملز مالکان، اسٹاکسٹ، ہول سیلرز یہ رقم اپنی جیب میں رکھ رہے ہیں اور حکومت ان منافع خوروں کو لگام دینے میں ناکام ہے، یہ معاملہ چینی کا ہے چینی کی ایکس ملز پرائس تہتر روپ فی کلو گرام بتائی جاتی ہے لیکن مارکیٹ میں یہ ایک سو دس روپے تک میں فروخت کی جا رہی ہے، یہاں بھی کسان اور صارفین کے درمیان موجود مڈل مین فوائد اٹھا رہا ہے، یہ صریحاً حکومت کی ناکامی یا بدانتظامی ہے کہ وہ منافع خوروں کو لگام دینے میں ناکام ہے،جس کا خمیازہ عوام مہنگائی کی صورت میں برداشت کر رہے ہیں، تحریک انصاف کی حکومت عوام کو سہولیات فراہم کرنے ان کی زندگیوں کو آسان بنانے کے دعوے کے ساتھ برسرِ اقتدار آئی تھی لیکن کیا وجہ ہے کہ اس کے دور میں عوام کی زندگی اجیرن بن چکی ہے، موجودہ بجٹ میں ایک ظلم اور کیا گیا ہے کہ گندم پر ٹرن اوور ٹیکس 0.25فیصد سے بڑھا کر 1.25فیصد اور چوکر پر سیلز ٹیکس 7فیصد سے بڑھا کر 17فیصد کر دیا گیا، جسکے سبب آٹا مزید مہنگا ہو گا خدشہ ہے کہ آٹے کی قیمت میں پانچ روپے فی کلوگرام تک کا اضافہ ہو گا، اسی طرح چینی پر سیلز ٹیکس بارہ فیصد سے بڑھا کر سترہ فیصد کر دیا گیا ہے جس سے چینی مزید سات روپے فی کلوگرام مہنگی ہو گی،بجٹ میں دعوا ‏کیا جا رہا ہے کہ کوئی نیا ٹیکس عائد نہیں کیا گیا، یہ تقریباً ساڑھے چھ کھرب کی پیٹرولیم لیوی کیا ہے؟

پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے براہِ راست عوام پر مہنگائی کی صورت میں اثر پڑے گا۔ شوکت ترین بھی اعتراف کر رہے ہیں کہ چھ کھرب کی پیٹرولیم لیوی سے بیس سے پچیس روپے فی لیٹر اضافہ ہو گا، ڈیڑھ ماہ سے پیٹرول کی قیمتیں نہیں بڑھائیں اب بڑھانا ہوں گی، اس اقدام سے افراط زر کا اندازہ لگائیں کہاں جائے گا؟ حکومت کو سوچنا چاہیے،حکومت نے ٹیکس فری بجٹ کا دعوا کیاہے لیکن ‏ڈیری مصنوعات پر جی ایس ٹی 10فیصد سے بڑھا کر 17فیصد کر دیا ہے، جس سے ملک پیک، کریم، ڈیری ملک پاؤڈر، پیکٹ میں بند دہی، فلیورڈ ملک اور ٹی وائٹنر کی قیمتیں بڑھ جائیں گی، حکومت کو ایسے اقدامات سے گریز کرنا چاہیے جس سے اشیاء خوردونوش کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ ہو۔

حکومت کو چاہیے کی بجٹ میں ایسے تمام اقدامات کو واپس لے جس سے مہنگائی میں مزید اضافہ کا خدشہ ہے،حکومت کی ایک بڑی مشکل ٹیکس آمدنی میں اضافہ بھی ہے ،تحریک انصاف دعوا کرتی تھی کہ ماضی کی کرپٹ حکومت ٹیکس چور ہے، میں آؤں گا تو ٹیکس وصولیاں 80کھرب کروں گا، پہلے مالی برس ٹیکس کا ہدف ہی پچپن کھرب پچپن ارب روپے رکھا لیکن اسے حاصل کرنے میں ناکام رہے اور ن لیگ حکومت کی آخری وصولیوں اڑتیس کھرب چوالیس ارب سے بھی پندرہ ارب کم ٹیکس جمع کر سکے، جو پاکستان کی تاریخ کا ریکارڈ ہے کہ کسی مالی برس میں گزشتہ مالی برس سے کم ٹیکس وصولیاں ہوئی ہوں، ٹیکس امور کے ماہرین کہتے ہیں کہ حکومت اگر کوئی نیا ٹیکس نہ بھی لگائے تب بھی افراط زر سے ہی ٹیکس کلیکشن میں دس فیصد اضافہ ہو جاتا ہے، اب سوچیں حکومت کی کتنی بڑی ناکامی ہے کہ بلند افراط زر کے باوجود بھی ٹیکس گزشتہ مالی برس سے کم وصول ہوا، دو سو ماہرین کی ٹیم اور شیڈو کابینہ کے ساتھ مکمل ہوم ورک کا دعوا کرنے والے عمران خان اپنے دوسرے مالی برس میں بھی ٹیکس وصولیوں میں اضافہ کرنے میں مکمل ناکام رہے، افراط زر کا اثر بھی نہیں دکھائی دیا، ٹیکس وصولیوں کے لئے اگر کچھ بھی نہ کیا جاتا تب بھی افراط زر کے حساب سے ٹیکس وصولیوں کو پچاس کھرب سے اوپر جانا تھا جو حکومت کا ہدف بھی تھا لیکن یہ چالیس کھرب سے کم ہی رہیں، حکومت اپنے تیسرے مالی برس یعنی رواں برس میں بھی ٹیکس ہدف حاصل کرنے میں ناکام دکھائی دے رہی ہے، نظر ثانی شدہ ہدف انچاس کھرب کے مقابلے میں ٹیکس وصولیاں چھیالیس کھرب رہنے کا اندازہ ہے، عمران خان کا دعوا پہلے برس ہی ٹیکس کو سینتالیس کھرب کے اضافے سے اسی کھرب تک پہنچانا تھا اور تین برسوں میں وہ آج بھی چھیالیس کھرب پر کھڑے ہیں جب کہ اگلے برس کا ہدف اٹھاون کھرب روپے رکھا گیا ہے، جس کی وصولیوں پر شک کا اظہار ابھی سے کیا جا رہا ہے، شاید پچاس کھرب سے زائد وصول نہ ہو سکے، حکومت کو چاہیے کہ اپنے وعدوں کے مطابق ایف بی آر کو درست کرے اور ٹیکس اصلاحات لائے، ٹیکس نیٹ میں اضافے کی پالیسی اپنائی جائے، ہول سیلرز، ریٹیلرز، پروفیشنلز، ایگریکلچر انکم کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے تو حکومت اپنے اہداف سے زیادہ وصول کر سکتی ہے، ٹیکس دہندگان کو ہی مزید مارنا درست پالیسی نہیں، حکومت ٹیکس وصول کرنے کے نظام کو آسان بنائے، نئے بجٹ میں ایف بی آر کو گرفتاری کا اختیار دیا گیا ہے جو مناسب نہیں اس کی بجائے جس سے شکایت ہو اس پر جرمانے کی سزا دی جائے، ساتھ ساتھ ہی حکومت زیادہ ٹیکس گزاروں کو عزت و وقار سے نوازے، انہیں کاروبار اور سفر میں مراعات اور سہولیات فراہم کرے، ٹاپ ٹیکس دہندگان کے لئے کوئی گولڈن کارڈ بھی جاری ہو سکتا ہے جس سے انہیں زندگی میں اضافے مرعات اور سہولیات میسر ہوں۔

پاکستان کورونا وبا سے دوچار ہے حکومت کی کوشش ہے کہ پاکستان میں ویکسینیشن کا عمل تیز ہو اس کے لئے فنڈز مہیا کیے جارہے ہیں، اسی طرح احساس پروگرام کے لئے بھی فنڈز میں کافی اضافہ کیاگیا ہے جو ٹارگٹڈ غریب افراد کے سہارے کاسبب بنے گا۔تحریک انصاف کی حکومت میں گزشتہ برس سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ نہیں کیا گیا تھا جس کے سبب مہنگائی کی وجہ سے عوام کی حقیقی آمدنیوں میں کافی کمی واقع ہوئی تھی، اس بجٹ میں دس فیصد تنخواہوں میں اضافہ کیاگیا ہے جو اچھا فیصلہ ہے گو کہ سندھ حکومت نے بیس فیصد تنخواہوں میں اضافہ کیا ہے، جسکی تحسین کرنی چاہیے، حکومت نے بجٹ میں کم از کم تنخواہ میں بھی ڈھائی ہزار روپے کا اضافی کیا ہے اور اس کو ساڑھے سترہ ہزار سے بڑھا کر بیس ہزار کی ہے مہنگائی کی صورت حال میں یہ ایک اچھا قدم ہے لیکن یہ یہ ناکافی معلوم ہوتا ہے کم از کم تنخواہوں کو پچیس ہزار روپے کرنا چاہئے، سندھ حکومت نے یہ برتری لی ہے اور مہنگائی میں پسے عوام کی اشک شوئی کی کوشش کی ہے، وفاقی حکومت بھی کم از کم تنخواہوں کو پچیس ہزار کرے اور اس کو برداشت کرنے کے لئے نجی شعبہ کے لئے بجلی، گیس کے نرخوں میں کمی کرے اور ٹیکس میں چھوٹ فراہم کرے، یہ بھی ضروری ہے کہ تمام صوبوں میں تنخواہوں کا سلیب ایک ہی ہو۔

محسن شیخانی

سابق چیئرمین، آباد

موجودہ معاشی صورتحال میں تحریک انصاف حکومت کا بجٹ2021-22 ایک متوازن بجٹ ہے جس میں کاروباری طبقے،کسانوں سمیت عام شہریوں کے مفاد کا ترجیح دی گئی ہے جبکہ ٹیکس کے حوالے سے بجٹ 2021-22 پاکستان کی تاریخ کا بہترین بجٹ ہے۔ ایف پی سی سی آئی،کسانوں کی تنظیموں اور پاکستان کے تمام چیمبرز نے وفاقی بجٹ 2021-22 کو سراہا ہے۔

بجٹ میں مین فوکس زراعت اور ٹیکسٹائل شعبے پر مرکوز رکھی گئی جبکہ تعمیراتی شعبے کے لیے کوئی ریلیف پیکج نہیں دیا گیا۔بجٹ سے قبل آباد نے حکومت کو ایمنسٹی اسکیم اور فکس ٹیکس ریجیم کے حوالے سے تجاویز پیش کی تھیں لیکن افسوس ہماری تجاویز بجٹ دستاویز میں شامل نہیں کی گئیں۔ لوکاسٹ ہائوسنگ کی کامیابی کے لیے ہماری تجاویز کو بھی بجٹ دستاویز میں شامل نہیں کیا گیا جس سے لوکاسٹ ہائوسنگ اسکیم کے ناکام ہونے کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے جس سے تحریک انصاف کو آئندہ انتخابات میں بڑے سیاسی نقصان کا سامنا کرنے پڑے گا۔

وزیراعظم عمران خان کو ویژن ہے کہ کم آمدنی والے طبقے کو سستے گھروں کی سہولت فراہم کی جائے،وزیراعظم کے اس خواب کو حقیقت بنانے کے لیے طویل المدتی حکمت عملی بنانی ہوگی۔انہوں نے کہا کہ سریا اور سیمنٹ تعمیراتی شعبے کے اہم اجزا ہیں ، حالیہ دنوں میں سریا ایک لاکھ 20 ہزار فی ٹن سے ایک لاکھ 46 ہزار 5 سو روپے فی ٹن کیا گیا اسی طرح سیمنٹ کی قیمتوں میں بھی بے تحاشہ اضافہ کیا گیا ہے۔ سریا اور سیمنٹ کی قیمتوں میں مسلسل اضافے سے لو کاسٹ نیا پاکستان ہائوسنگ اسکیم کو شدید خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔کم آمدنی والے طبقے کو سستے گھروں کی فراہمی کا منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچنا مشکل ہوگیا ہے۔

ہم نے بجٹ سے قبل حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ سیمنٹ اور سریا مینوفیکچررز کارٹیل کو قانون کے دائرے میں لائیں بصورت دیگر سیمنٹ اور سریا کی درآمد پر ریگولر ڈیوٹی اور ایڈیشنل ریگولر ڈیوٹی کا خاتمہ کیا جائے تاکہ سریا اور سیمنٹ کی قیمتوں میں استحکام آسکے لیکن اس کے برعکس حکومت نے بجٹ میں اس حوالے سے ہماری تجویز کو شامل نہیں کیا۔محسن شیخانی نے کہا کہ ہم نے حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ کم آمدنی والے طبقے کو سستے گھروں کی فراہمی کے لیے سیمنٹ،سریا،ٹائلز اور دیگر تعمیراتی مٹیریل کی قیمتوں کو کم از کم 3 سال کے لیے فکس کیا جائے تاکہ تعمیراتی منصوبوں کی تعمیر کے دوران مذکورہ مٹیریل کی قیمتوں میں اضافے سے ان منصوبوں کو نقصان سے بچایا جاسکے دوسری صورت میں بجٹ 2021-22 میں سیمنٹ ،سریا،ٹائلز اور دیگر تعمیراتی مٹیریل پر 3 سال کے لیے مقامی ٹیکسوں سمیت تمام ٹیکسز ختم کیے جائیںلو کاسٹ نیا پاکستان ہائوسنگ اسکیم کے لیے سیمنٹ کی قیمتوں کو سیمنٹ کی برآمد ی قیمتوں کے مساوی کیا جائے لیکن بجٹ دستاویز میں ہماری تجاویز کو شامل ہی نہیں کیا گیا،ہمارا مطالبہ ہے کہ بجٹ میںہماری تجاویز کو شامل کیا جائے۔اگر ایسا نہیں کیا گیا تو وزیراعظم کا کم آمدنی والے طبقے کو سستے گھروں کی فراہمی کا منصوبہ کبھی بھی پورا نہیں ہوسکے گا اور نہ کم آمندنی والے طبقے کا اپنا گھر کا خواب شرمندہ تعبیر ہوسکے گا۔ پاکستان تحریک انصاف کے منشور میں سب سے بڑا وعدہ کم لاگت گھروں کی فراہمی کا ہے،اس کے لیے عملی اقدامات نہ کیے گئے تو تحریک انصاف کو سیاسی طور پر آئندہ انتخابات میں بڑے سیاسی نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا۔

بجٹ 2021-22 میں دیے گئے اہداف اس وقت تک حاصل نہیں ہوسکتے جب تک سرکاری محکموں کو ڈیجیٹلائز نہیں کیا جاتا۔ آباد نے بجٹ سے قبل حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ لینڈ ریکارڈا ور ایف بی آر سمیت تمام اداروں کو ڈیجیٹلائز کیا جائے۔ حکومت تمام محکموں کو ڈیجیٹلائز کرکے آن لائن ون ونڈو آپریش کا نظام نافذ کرے جس سے کاروباری سرگرمیوں میں تیزی آئے گی اور ریونیو میں بھی اضافہ ہوگا۔

پاکستان کی معیشت میں زراعت کے بعد روزگار فراہم کرنے والا دوسرابڑا شعبہ تعمیراتی صنعت ہے جو مجموعی طور پر 35 فیصد روزگار کے مواقع فراہم کرتا ہے۔ اس طرح تعمیراتی صنعت روزگار کی فراہمی اور معیشت کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ وزیراعظم عمران خان یہ راز جانتے ہوئے کہ معیشت کی ترقی تعمیراتی صنعت میں مضمر ہے تو انہوں نے پاکستان کی معیشت کو تعمیراتی صنعت کے ذریعے ترقی دینے کے لیے ریلیف پیکج ( ایمنسٹی اسکیم)کا اعلان کیا جس کے تحت تعمیرات اور رئیل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری کرنے والوں کو ذرائع آمدن ظاہر نہ کرنے کی 30 جون2021 تک چھوٹ جبکہ 31 دسمبر 2021 تک فکس ٹیکس ریجیم کی سہولت دی گئی ہے۔

آباد نے بجٹ سے قبل حکومت کو تجویز دی تھی کہ تعمیراتی شعبے اور رئیل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری کرنے والوں کو ذرائع آمدن ظاہر نہ کرنے کی چھوٹ میں مزید 2 سال کی توسیع دی جائے جبکہ بجٹ 2021-22 میں تعمیراتی شعبے کے لیے فکس ٹیکس ریجیم کا نظام مستقل بنیاد پر نافذ کیا جائے لیکن اس حوالے سے حکومت نے تعمیراتی شعبے کو کوئی ریلیف نہیں دیا۔ ہم نے حکومت کو متعدد بار آگاہ کیا تھا کہ کورونا اور لاک ڈائون کے باعث تعمیراتی شعبہ ایمنسٹی اسکیم سے بھرپور فائدہ حاصل نہیں کرسکا۔مسلسل لاک ڈائون سے جہا ں عام زندگی منجمد تھی وہیں تعمیراتی شعبہ بھی بند تھا ۔محسن شیخانی نے کہا کہ بلڈرز اور ڈیولپرز حکومت کی اس اسکیم سے فائدہ اٹھانے چاہتے ہیں لیکن انھیں اس کا موقع نہیں مل سکا اور اب اسکیم اس سال ختم ہونے جارہی ہے تو خدشہ ہے کہ بلڈرز کی ایک بڑی تعداد جو اس اسکیم سے فائدہ اٹھانا چاہتی تھی محروم رہ جائے گی۔ تعمیر اتی پیکج کے تحت صرف 25 فیصدکام ہوا ہے لہذا حکومت کو چاہیے کہ بقیہ 75 فیصد کام مکمل کرنے کے لیے اس پیکج کی مدت میں 2 سال کی توسیع کی جائے۔

بجٹ سے قبل بھی ہمارا حکومت سے مطالبہ تھا اور اب بھی ہے کہ تعمیراتی منصوبوں کے لیے این او سی کی منظوری کے لیے آن لائن ون ونڈو آپریشن کا نظام پورے پاکستان میں نافذ کیا جائے اور تعمیرات کے حوالے سے تمام بائی لاز پورے ملک کے لیے یکساں کیے جائیں۔ تعمیراتی منصوبے کے لیے بلڈرز کو درجنوں متعلقہ سرکاری محکموں میں دھکے کھانے پڑتے ہیں اور این او سی کے لیے بھی سال سے زیادہ عرصہ لگ جاتا ہے ۔ آن لائن ون ونڈو آپریشن کا نظام نافذ کرکے 15 روز میں تعمیراتی منصوبے کے لیے این او سی جاری کی جانی چاہیے۔

قانونی طور پر رہائشی منصوبوں کو منظوری میں بڑے پیمانے پر رکائوٹو ں کا سامنا ہے جس کی وجہ سے غیر قانونی تعمیرات کا اضافہ ہورہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ کراچی کے 54 فیصد رہائشی کچی آبادیوں میں رہائش پزیر ہیں۔حکومت کو چاہیے کہ قانونی تعمیرات میں ہونے والی رکائوٹوں کو ختم کیا جائے تاکہ شہریوں کو معیاری رہائشی سہولت میسراور کچی آبادیوں میں کمی آسکے۔

انجینئر ایم اے جبار

سابق چیئرمین، سائٹ ایسوسی ایشن

بجٹ 2021-22 انتہائی مئوثر انداز میں موجودہ وزیر خزانہ نے پیش کیا ، جس کو ہم ایک رواجی طور پر اب تک پیش کیے جانے والے بجٹ کے تسلسل کا اجراء کہہ سکتے ہیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ ٹیکس قوانین اور ٹیکس مشینری کے اصلاحات کے بارے میں کی گئی باتیں اس امید کے اوپر مبنی ہے کہ بجٹ پیش کرنے والے وزیر خزانہ ایک درمیانی مدت کو پورا کرتے ہوئے اصلاحات کے عمل کے ذریعے بنیادی تبدیلیاں کرکے ٹیکس مشینری کو ٹیکس پالیسی سے الگ کرنے میں شاید کامیاب بھی ہو جائیں گے ؟

اس کامیابی کی ابتداء ایک دوررس نتائج کی حامل ہوگی، جس سے نافقط ٹیکس کی کشادگی ہوگی بلکہ ٹیکس فائلز کی تعداد میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہونے کی امید کی جا سکتی ہے۔ بطور کل 13.5 فیصد کے اضافے کے ساتھ محصولات نے 4000 ارب روپے کی حد کو عبور کیا ہے اور 4700 ارب روپے کے ٹارکٹ کے اہداف کے نزدیک رہنے کی ایک تسلی بخش صورتحال نظر آتی ہے ۔

2021-22 ء کے پیش کیے گئے بجٹ میں 24 فیصد کے اضافے کے ساتھ محصولات کی وصولیابی کا تخمینہ رکھا گیا ہے ۔ 13.5 فیصد کے اضافے کے حوالے سے اس تخمینے کی حد 5300 ارب روپے بنتی ہے ۔ مگر اس میں مزید اضافے کی ضرورت کے سلسلے میں ٹیکس کے کشادہ کرنے کے سلسلے میں بھی اقدامات کی نشاندہی کی گئی ہے جس کی وجہ سے 500 ارب روپے مزید ٹیکسوں کی وصولیابی کرنی ہوگی ، جو ممکن ہو سکے گی اگر ٹیکس کشادگی کے حوالے سے ایف بی آر کی کارکردگی اس کو کامیاب بنانے میں اپنی 2500 لوگوں پر مشتمل افراد کی کاوشیں کو شامل کرے گی۔

ایف بی آر کے ساتھ منسلک نظام کے تحت موجودہ تھوک فروش اور پرچون فروش کی ایک جامع فروخت کے حوالے سے بڑ ی بڑی دکانیں اور بڑے بڑے شاپنگ مال میں قائم شدہ خردہ فروش اور تھوک فروشی کے ذرائع سے اس کو اس وقت کے 10000 سے بڑھا کر 500000 کرنے کی ضرورت کے اوپر اصرار کیا گیا ہے ۔ نیز سیلز ٹیکس کے نظام میں اضافی ٹیکس کے ذریعے ٹیکس فائلرز کی تعداد کو بڑھانے کی بھی ضرورت کو یقینی بنانے کی کاوشیں شامل ہوں گی۔ ایس ایم ایز کی معیشت میں اہمیت کو بھی محسوس کیا گیا ہے اور ان کے لئے ٹیکس کے متبادل نظام اعلان کیے گئے ہیں ۔ ٹیکس اصلاحات کی حد تک آڈٹ کی دشواریوں سے ٹیکس فائلرز کو آزاد کرنے کے حوالے سے کیے گیا اعلان کی بھی کا فی پذیرائی ہوئی ہے ۔

عملی طور پر اعلان شدہ خود ٹیکس تشخیصی نظام کو بھی قابل اجراء کرنے کی ضرورت ہے ۔ اصولی طور پر یہ اعلان قابل تعریف ہے جس کا اجراء 2000 ء میں پہلے جنرل پرویز مشرف کے دور میں کیا گیا تھا مگر اس کے خدوخال 20 سالوں میں اتنے خراب ہو چکے ہیں کہ نوٹسز کا بے تحاشا اجراء اور اس کے اوپر بدعنوانی کے حوالے سے ایف بی ار کی شہرت بہت حد تک داغ دار ہو چکی ہے۔

ایف پی سی سی آئی نے پیش کردہ روایتی بجٹ کو اپنی کی گئی سفارشات کی کچھ انعکاسی کرتے ہوئے دیکھا ہے ۔ کئی جامع سفارشات دی گئی تھیں جن کے چند چیدہ چیدہ نکات پیش کیے جا رہے ہیں ۔ مینوفیکچرنگ شعبے کے اوپر اس وقت اس کے قومی مجموعی پیداوار کے حصے سے زیادہ ٹیکس وصول کیا جارہا ہے جس سلسلے میں نہ صرف ان کے اوپر ٹیکس کا بوجھ کم کرنے کی ضرورت پر اصرار کیا گیا بلکہ ان کو مالیاتی اور معاشی بنیادی ڈھانچوں کو مضبوط کرکے ان کی مسابقاتی صحت کو بہتر بنانے کی سفارش بھی کی گئی۔

جس کی وجہ سے ملکی صنعت نہ صرف بیرونی ممالک میں مسابقاتی صحت کے تحت نافقط برآمدات بڑھا سکیں گی بلکہ درآمدات کا بھی مقابلہ کریں گی۔ نیز اس وجہ سے کثیر الجہتی مقاصد حاصل ہو سکتے ہیں جن میں بیروزگاری کی کمی اور ٹیکسوں اور صنعتوں کا پھیلائو اور بتدریج خودانحصاری کی طرف گامزن ہونا ہے ۔ اس کے علاوہ ٹیکس کی کشادگی کے لئے یہ بھی سفارشات دی گئیں کہ تمام صنعتی اور تجارتی بجلی کے صارفین کو بھی ٹیکس نظام میں لانے کی ترغیب دی جائے جن کی تعداد نیپرا کی رپورٹ کے مطابق 3.6 ملین ہے اور ایف بی آر کے اپنے ذرائع کے مطابق ان ایس ایم ایز جن کا ٹرن اوور 800 ملین تک ہے اس کی بھی ایک بہت بڑی تعداد ٹیکس نظام پر موجود ہے جن کو بھی کارپوریٹ کلچر میں لانے کی ضرورت ہے جس کیلئے ٹیکس کے نظام میں تبدیلیوں کی وجہ سے اس رووش کو ممکن بنایا جا سکے گا۔

ایف پی سی سی آئی نے یہ بھی سفارشات کی تھیں کہ ایس ایم ایز جو کہ انفرادی طور پر کام کرتی ہیں ان کی بزنس آمدنی کے اوپر 10 فیصد ٹیکس عائد کیا جائے ۔ کارپوریٹ ایس ایمز کے لئے 15 فیصد کی سفارش کی گئی ۔ نیز بڑی کمپنیوں کے لئے 20 فیصد ٹیکس کی سفارش بھی کی گئی ۔ اس کے ساتھ جنرل سیلز ٹیکس 5 فیصد کو کاروبار کے تمام طبقات پر یک مرحلہ عائد کرنے کی بھی شفارش کی گئی ۔ اسی طرح 5 فیصد کسٹم ڈیوٹی کو بھی تمام درآمدات کے اوپر عائد کرنے کی سفارش کے ساتھ صنعتی تحفظ کو 20 فیصد کرنے کی بھی سفارش کی گئی ۔

فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کو کو صرف چند سیکٹرز تک محدود رکھنے کی سفارش کی گئی ۔ ود ہولڈنگ ٹیکس کا خاتمہ اور انکم ٹیکس صرف آمدنی کے اوپر لگانے کی سفارش کی گئی تھی ۔ اس کے علاوہ ٹیکس کے کم شر ح کو معاشی فروغ اور ریونیو کی افزائش کے بنیادی ستون کے طور پر شناخت کرنے کی سفارش کی گئی۔

ہم نے ٹیکس اصلاحات کے حوالے سے ایک جامع سفارشات کیں تھیں جس میں ٹیکس کے نظام عدل کو موجودہ ٹیکس کلیکشن مشینری سے علیحدہ کرنا بھی شامل ہے ۔ ان تمام سفارشات کو ہم نے جامع بنانے کے لئے ماہرین سے بھی مشاورت کی اور اس کو ہم نے سہل و سادہ بناتے ہوئے وہی اعداد وشمار دیئے جو کہ آج پیش کیے گئے ہیں۔

ہمارے کچھ پر اصرار سفارشات میں شناختی کارڈ کی شراط کو سیلز کی شرائط سے نکالنے کے لئے کہا گیا کیونکہ اس سے بہت ساری برائیاں جنم لے رہی ہیں جو نافقط شناختی کارڈ کا غلط استعمال تک محدود ہوں گی بلکہ غلط سیلز ٹیکس انوائسز کا اجراء بھی اس میں شامل ہے۔ہم نے ٹیکس افسران کے صوابیدی اختیارات اور بے جا اختیارات کے استعمال کے اوپر ایک احتساب کرنے کی بھی ضرورت کو ٹیکس قوانین میں شامل کرنے کے لئے سفارشات کی تھیں ۔

اس کے علاہ اے ڈی آر سی کو فعال بنانے کے لئے بھی سفارش کی گئی اور ٹیکس پالیسی یونٹ کو ایف بی آر سے الگ کرکے تمام سیکٹرز کی استعداد اور فیوچر کے اوپر مشتمل ٹیکس پالیسی کو ٹیکس کلیکشن کے حوالے سے بھی بنانے کی ضرورت کو شفارش کی۔ نیز اس ملک میں 10 کروڑ سے زیادہ افراد تھری جی اور فور جی موبائل فون کا استعمال کرتے ہیں جس میں سے ایک خاطر خواہ تعداد کو بھی قابل ٹیکس ادائیگی اشخاص کے حوالے سے نشاندہی کرنے کی بھی شفارش بھی کی تھی۔

خام مال کے درآمدات کے اوپر کم سے کم ٹیکس کا اختتام اور ودہولڈنگ ٹیکس کا خاتمہ بھی سفارشات کا ایک حصہ تھا ۔ نیز تمام خام مال جو کہ منیوفیکچرنگ میں استعمال ہوتے ہیں ان کو انکم ٹیکس کی شک 48 کے پارٹ ٹو کے بارہویں شیڈول میں ڈالنے کی ضرورت پر بھی اصرا ر کیا گیا تھا۔ آئی ٹی کے لئے بھی مراعات کا مطالبہ کیا گیا جس کے ذریعے آئی ٹی سروسز کی برآمدات کو بھی بڑھایا جا سکتا ہے ۔ مہنگائی کو کم کرنے کیلئے تمام کھانے پینی کی اشیاء کے اوپر سیلز ٹیکس کو کم کرنے اور اس کے اوپر وزن کی مطابقت ٹیکس ڈالنے کی ضرورت کے اوپر سفارشات کی گئیں کہ روپے اور ڈالر کی تبدیلی کی وجہ سے ان اشیاء کی قیمتیں نہ بڑھ پائیں۔

نیز کسٹمز اور سیلز ٹیکس کے پانچویں اور چھٹے شیڈول میں جامع تبدیلیاں کرنے کی ضرورت کے اوپر بھی سفارشات کی گئیں۔ ریسٹورانٹ کاروبار جو کہ کووڈ 19 میں شدید متاثر ہوا ہے اس کو 5 فیصد سروس ٹیکس اور سہل اور سادہ نظام کے تحت کہنے کی ضرورت پر بھی اصرار کیا گیا۔ نیز صوبوں کے درمیان سروس ٹیکس کو ہم آہنگ کرنے کی ضرورت پر بھی سفارش کی گی ۔ آڈٹ کو آڈٹ پیرامیٹر کے متعین کرنے کے بعد کرنے کی ضرورت کی سفارش کی گئی۔ اس کے علاوہ نیز سیکشن آٹھ بی کے بارے میں بھی سفارش کی گئی کہ دس فیصد کی ایڈجسمنٹ کو بھی ختم کیا جائے ۔ہماری کی گئی سفارشات کے کچھ بنیادی خدوخال اعلان شدہ بجٹ میں نظر آتے ہیں۔