صاف توانائی کے ذریعے ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹا جاسکتا ہے

June 21, 2021

بڑھتے عالمی درجہ حرارت کے باعث، دنیا کو ماحول دوست توانائی (کِلین اِنرجی) پر منتقل کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں، تاہم ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ ایسا کرنے کے عمل میں اگر مساوات کا خیال نہ رکھا گیا تو اس کے خطرناک نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ اعدادوشمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے مابین ماحول دوست توانائی کی پیداوار میں سرمایہ کاری کیے جانے میں واضح فرق پایا جاتا ہے۔ ایسے میں اگر ترقی پذیر ملکوں میں ماحول دوست توانائی کے حصول میں سات گنا اضافہ نہ کیا گیا تو پیرس معاہدے کے اہداف کا حصول مشکل ہوگا۔

ان حقائق کی روشنی میں ایک بات یقینی طور پر کہی جاسکتی ہے: دنیا بھر کے ممالک کو ماحول دوست توانائی کے حصول پر برق رفتاری سے کام کرنے کی اشد ضرورت ہے، تاکہ ماحولیاتی تبدیلی کے انتہائی خطرناک اثرات سے دنیا کو محفوظ رکھا جاسکے اور روئے زمین پر رہنے والے انسانوں کے لیے ایک زیادہ صحت مند اور زیادہ خوشحال مستقبل تعمیر کیا جاسکے، جہاں ہر شخص کو پائیدار اور سستی توانائی دستیاب ہو۔

دنیا میں جس طرح توانائی کے مؤثر استعمال کو یقینی بنانے کے لیے شمسی توانائی، پون توانائی اور بجلی پر چلنے والی گاڑیوں کے استعمال میں اضافہ کیا جارہا ہے، اُس سے مستقبل کی عالمی معیشت پروان چڑھے گی۔ ہمیں ایسے راستے کو اپنانا ہے کہ جس سے ناصرف ان کروڑوں افراد کو بجلی تک رسائی حاصل ہوجائے، جو اس وقت اس بنیادی ضرورت سے محروم ہیں بلکہ ماحول دوست توانائی استعمال کرنے کے لیے ان خاندانوں کی بھی حوصلہ افزائی کی جائے جو روزمرہ امور میں کھانا پکانے کے لیے ماحول کو آلودہ کرنے والا ایندھن استعمال کرتے ہیں، کیونکہ یہ خود ان خاندانوںکی زندگیوں کے لیے بھی ایک بڑا خطرہ ہے۔

اس کے دیگر بھی کئی بڑے فوائد ہیں جیسے کہ وِنڈ ٹربائن اور سولر پینل کی تنصیب ، الیکٹریکل گِرڈ کی اَپ گریڈیشن اور نئی ٹیکنالوجی کو فروغ دینے پر جو سرمایہ کاری کی جائے گی، اس کے نتیجے میں روزگار کے ہزاروں نئے مواقع پیدا ہوں گے۔

بظاہر، ماحول دوست توانائی کی پیداوار میں سرمایہ کاری کرنے سے بڑے پیمانے پر فوائد حاصل ہونے کی توقع ہے، تاہم اس عمل میں اس بات کو یقینی بنانا ضروری ہوگا کہ یہ فوائد عالمی سطح پر ہر ممکن حد تک سب تک پہنچنے چاہئیں۔ دنیا پہلے ہی کئی تفرقات کا شکار ہے ۔ امیر اور غریب کے درمیان فرق اور جن کو جدید ٹیکنالوجی تک رسائی حاصل ہے اور وہ جو اس سے محروم ہیں، کے درمیان فرق۔ دنیا کو اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ ماحول دوست توانائی کے حصول کی دوڑ میں ہم نئے تفرقے نہ پیدا کردیں، جو موجودہ فرق کو بھی مزید گہرا کر سکتے ہیں۔

اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ آنے والے عشروں میں سب سے زیادہ زہریلی گیسوں کا اخراج اُبھرتی ہوئی اور ترقی پذیر معیشتوں سے ہوگا کیوں کہ معاشی نمو، صنعت کاری اور شہر کاری سب سے زیادہ وہاں ہی وقوع پذیر ہوگی۔ دنیا کے لیے اجتماعی چیلنج یہ ہے کہ وہ ان ملکوں کو ترقی کے لیے انتہائی کاربن اخراج والا راستہ اپنانے سے روکے جو ماضی میںآج کی ترقی یافتہ معیشتیں اختیار کرچکی ہیں۔

ایک مسئلہ یہ ہے کہ کووِڈ-19عالمی وَبائی مرض نے ترقی پذیر ممالک میں غیرملکی سرمایہ کاری کو مزید مشکل بنادیا ہے۔ افریقا اور جنوب مشرقی ایشیا میںماحول دوست توانائی میں سرمایہ کاری لانا انتہائی مشکل طلب کام ہے، جب کہ یورپ اور شمالی امریکا کی ترقی یافتہ معیشتوں میں یہ سرمایہ کاری لانا نسبتاً آسان کام ہے، جہاں ناصرف سرمایہ کی لاگت کم ہوتی ہے بلکہ نجی سرمایہ کار بھی وہاں سرمایہ کاری کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔

قابلِ تجدید توانائی کے وسائل طویل مدت میں سستے ضرور ہوتے ہیں لیکن ان میں ابتدائی مرحلے میں بڑی سرمایہ کاری کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے باعث عالمی سرمایہ کار، ترقی پذیر ممالک میں جب اپنی سرمایہ کاری پر درپیش خطرات اور اس کے ممکنہ فوائد کے درمیان موازنہ کرتے ہیں تو ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرتے نظر آتے ہیں۔

عالمی توانائی ادارہ اور عالمی بینک کے اشتراک میںماحول دوست توانائی پر تیار ہونے والی رپورٹمیں کہا گیا ہے کہ گزشتہ سال ماحول دوست توانائی میں 150ارب ڈالر سے کم سرمایہ کاری کی گئی، جب کہ 2050ء تک زہریلی گیسوں کے اخراج کو صفر کی شرح پر لانے کے لیے 2030ء تک اس سرمایہ کاری میں سالانہ 7گنا اضافہ کرنا ہوگا۔ اس سلسلے میں ضروری ہے کہ ترقی پذیر معیشتوں کو ماحول دوست توانائی پیدا کرنے کے لیے جتنا سرمایہ درکار ہے، اس تک انھیں آسان رسائی فراہم کی جائے، اس میں عالمی مالیاتی ادارے، ڈونرز، کثیرالجہتی ترقیاتی بینک اور دیگر شراکت دار شامل ہیں۔

کئی ادارے پہلے ہی اپنے کردار سے بڑھ کر کام کرنے کے لیے تیار نظر آتے ہیں، تاہم ماحول دوست توانائی میں عالمی سطح پر ہونے والی موجودہ سرمایہ کاری کا حجم اب بھی انتہائی کم ہے، جس میں اضافے کے لیے عالمی پر سطح سنجیدہ کوششیں درکار ہیں۔

اس سلسلے میں عالمی توانائی ادارہ کی جانب سے سب سے اہم تجویز یہ پیش کی گئی ہے کہ ترقی پذیر دنیا کی حکومتیں اپنے ملکوں میں ماحول دوست توانائی کو اپنانے کے لیے پبلک فائنانس کے بین الاقوامی اداروں کو مضبوط کردار تفویض کریں۔ ہم سب کے مستقبل کا دارومدار اس بات پر ہے کہ ہم اس چیلنج سے کس حد تک بہتر طور پر نمٹ سکتے ہیں۔