گلوبل کارپوریٹ لیڈرز کیسے پیدا کیے جائیں؟

July 05, 2021

چوتھے صنعتی انقلاب نے دنیا کو بدل کر رکھ دیا ہے جب کہ کورونا وبائی مرض اس تبدیلی کے عمل کو تیز تر کرنے کا باعث بنا ہے۔ دورِ جدید اختراع (اِنوویشن)کی دُنیا ہے، اس دور میں وہی کمپنیاں کامیاب ہوسکتی ہیں، جن کی ٹاپ لیڈرشپ اختراع پر یقین رکھتی ہیں۔ یہ جیمز ڈائسن کی اختراعی سوچ ہی تھی کہ وہ تھیلے یا پٹارے کے بغیر ویکیوم کلینر(Bagless Vacuum Cleaner) بنانے کی 5,126 بار کی کوششوں کے بعد بھی نہیںتھکا اور بالآخر 5,127ویں کوشش میں وہ جدید ویکیوم کلینر بنانے میں کامیاب ہوا۔ اس کے علاوہ ایڈیسن نے 1,000ویں کوشش میں بلب ایجاد کرنے میںکامیابی حاصل کی۔

کمپنیاں اپنی مصنوعات اور خدمات میں اس وقت ہی اختراع لاسکتی ہیں، جب انھیں لیڈرشپ میسر ہو، اور ٹیکنالوجی کے اس دور میں جب پوری دنیا سُکڑ کر آپ کے موبائل فون میں آچکی ہے، کارپوریٹ ورلڈکو ’گلوبل لیڈرز‘ کی ضرورت ہے، جو کمپنیوں کو تیزی سے عالمی سطح پر متعارف کرانے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔

کمپنیاں کئی طریقوں سے عالمگیریت کو اپنا سکتی ہیں۔ میک کنزی کی ریسرچ رپورٹ کے مطابق، اگر دو ممالک کے درمیان کوئی مشترک زبان نہ ہو تو صرف اس بات سے ہی کاروبار کا حجم 30فیصد کم ہوجاتا ہے۔ اسی طرح ایک اور رپورٹ میں کہا گیا کہ امریکا کے جنوب میں واقع ملک چلی اگر کینیڈا کی طرح امریکا کے قریب ہوتا تو چلی اور امریکا کے درمیان دوطرفہ تجارت موجودہ حجم سے6گنا زیادہ ہوسکتی تھی۔ جاپانی ملٹی نیشنل کمپنیوںکی اپنی ثقافتی، سیاسی اور معاشی پیچیدگیاں ہیں، جن کے باعث انھیں بیرونی منڈیوں تک پھیلنے میں مسائل درپیش آتے ہیں۔

اسی طرح اُبھرتی ہوئی ایشیائی منڈیاں یورپ اور شمالی امریکا سے دور ہونے کے علاوہ مختلف نوعیت اور حالات کی حامل ہیں۔ ان سب پیچیدگیوں کے باوجود، ایک بات انتہائی وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ اُبھرتی ہوئی منڈیوںمیں تیز تر ترقی اور ترقی یافتہ منڈیوں میں طویل عرصے تک معاشی نمو کی رفتار سُست رہنے کی پیش گوئیوں نے کمپنیوں کو تیز ترقی کے لیے عالمگیریت اختیار کرنے پر مجبور کیا ہے۔

ایسے میںضرورت اس بات کی ہے کہ کارپوریٹ ورلڈ ایسے ’گلوبل لیڈرز‘ پیدا کرے، جو کہ ان کمپنیوں کو ایک شہر اور ملک سے اُٹھاکر، سرحدیں پھلانگ کر خطے اور عالمی سطح پر متعارف کرانے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ اس میں یقیناً تعلیمی اداروں کوبھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا کہ وہ جاب مارکیٹ کی نئی حقیقتوں کے مطابق، گریجویٹس تیار کریں۔ اس سلسلے میں مندرجہ ذیل پہلوؤں کو مدِ نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔

تحقیقکے مطابق، ملٹی بلین کمپنیاں اکثر ایک غلط فہمی کا شکار رہتی ہیں کہ کیا ہوا اگر عالمی تجارت مشکل دور سے گزر رہی ہے اور عالمی معیشت کی شرحِ نمو سست ہے، کم از کم وہ تو عالمی کمپنی (Global Company)ہیں۔ حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ فارچون کی گلوبل 500 فہرست میں شامل 2فیصد سے بھی کم کمپنیاں اپنی 20فیصد سے زائد آمدنی بیرونیخطے سے حاصل کرپاتی ہیں۔ فہرست میں شامل اکثریتی کمپنیاں، مقامی طور پر ہی کام کرتی ہیں، جیسے بی ایم ڈبلیو اپنی 64فیصد پیداوار اور 73فیصد ورک فورس جرمنی سے ہی حاصل کرتی ہے۔

رپورٹمیں اس سلسلے میں ’’روٹیڈ کاسموپولیٹنزم‘‘ کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے، جس سے مراد یہ ہے کہ کمپنیوں کو اپنی مقامی اقدار کے ساتھ جڑے رہتے ہوئے بیرونِملک منڈیاں تلاش اور پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ لیڈرشپ اور ملازمین کے لیے بھی یہی اصول اختیار کرنا چاہیےکہ سمندر پار کام کرنے والے پروفیشنلز، اس وقت ہی کامیاب ہوسکتے ہیں، جب وہ اپنے آبائی ملک اور اختیار کیے گئے ملک کی ثقافتوں کو ساتھ لے کر چلتے ہیں۔ جو شخص اپنی آبائی ثقافت کو بھول جاتا ہے، اسے آگے چل کر معاشرے سے بیزاری کا احساس ہوتا ہے اور نتیجتاً وہ اختیار کی گئی ثقافت کے ساتھ بھی تعلق نہیں جوڑ پاتا۔

عالمی سوچ کے لیے صرف تجربہ کافی نہیں ہوسکتا۔ گلوبل لیڈرز کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ان کے کاروبار کو کس طرح کے عالمی تعلقات اور باہمی ڈائیلاگ کی ضرورت ہے۔ ہر ملک دوسرے سے مختلف ہوتا ہے، انھیں انڈسٹری میں تجربے سے زیادہ ان تضادات کو پڑھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے، جسے’’کانسیپچوئل لرننگ‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ایگزیکٹوز کو اپنے ذاتی تجربات کو عالمی منظرنامے کے پس منظر میں، سائنسی اعدادوشمار کی روشنی میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ یہ بات محدود طور پر باہر گزارے گئے وقت سے کبھی بھی نہیں سیکھی جاسکتی۔

لیڈرشپ کے لیے پہلے سے متعین کردہ معیارات کی فہرست نصابی کتب میں جس قدر مؤثر معلوم ہوتی ہے، عملی زندگی میں قدم رکھنے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ یہ توبس ابتدا ہے۔ ہر انڈسٹری کی اپنی ضروریات ہوتی ہیں اور ہر انڈسٹری کوایک الگ نظریہ درکار ہوتا ہے۔گلوبل لیڈرشپ کے لیے’’وَن سائز فِٹس آل‘‘ کا نظریہ کارگر ثابت نہیںہوسکتا۔

1990ء کے عشرے میں ’ٹیلنٹ کی جنگ‘ کی ایک اصطلاح متعارف کرائی گئی تھی اور آج تین دہائیوں کے بعد، کارپوریٹ سیکٹر میں یہ جنگ ہر طرف دیکھی جاسکتی ہے۔ کمپنیوں کو باصلاحیت پروفیشنلز اور نوجوانوں کی تلاش ہے۔ باصلاحیت سے مراد، کمپنیوں کو کسی ایک پوزیشن کے لیے کسی ایسے شخص کی تلاش ہے، جو مطلوبہ مجموعہ صلاحیتوں کا حامل ہو، جو اسے اس کی ذمہ داریاں بخوبی ادا کرنے کے لیے درکار ہوتی ہیں۔ ہمارا نظامِ تعلیم مطلوبہ تعداد میںاعلیٰ پایہ کے باصلاحیت پروفیشنلزپیدا کرنے کی سکت نہیں رکھتا اور نہ ہی ادارے انھیں نوکری دینے کے بعد مطلوبہ تربیت فراہم کرنے پر توجہ دیتے ہیں، جن پر کام کرنے کی اشد ضرورت ہے۔