افغانستان: جامع جنگ بندی ناگزیر

July 26, 2021

امریکی افواج کے انخلا سے پہلے کسی متفقہ سیاسی بندوبست کا اہتمام نہ کیے جانے کی وجہ سے افغانستان میں خانہ جنگی کی شدت مسلسل بڑھ رہی ہے جبکہ یہ کیفیت پورے خطے کے امن کے لئے سنگین خطرہ ہے۔ افغانستان میں پائیدار امن کے لئے اہم کردار ادا کرنے والے ممالک پاکستان اور چین حالات کو بہتر بنانے کی خاطر بہرحال ہر ممکن کوشش کررہے ہیں۔ دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ کی ہفتے کو ہونے والی ملاقات اِن کوششوں کی ایک اہم کڑی ہے جس میں پاکستان اور چین نے تمام افغان شراکت داروں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ایک جامع جنگ بندی پر اتفاق کریں اور مذاکرات سے طے شدہ سیاسی تصفیے کے حصول کے لئے مل کر کام کریں۔ چین کے صوبے سچوان کے دارالحکومت چینگڈو میں وزرائے خارجہ کے تزویری مکالمے کے تیسرے اجلاس کے بعد جاری کیے گئے مشترکہ اعلامیے میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور ان کے چینی ہم منصب وانگ یی نے افغان امن عمل کی حمایت اور اس میں بھرپور تعاون کی یقینی دہانی کراتے ہوئے کہا ہے کہ پُرامن، مستحکم، متحد اور خوشحال افغانستان کے لئے افغانستان کے زیر قیادت اور افغان ملکیت پر مبنی عمل کی حمایت کرتے رہیں گے۔ فی الحقیقت متحارب افغان گروپوں کے لئے اس امر کا جلد از جلد ادراک اُن کی قومی بقا و سلامتی کے لئے ناگزیر ہے کہ افغانوں کا کسی نئی جنگ میں الجھنا ان کی سرزمین کو ایک بار پھر مختلف عالمی طاقتوں کی حمایت یافتہ تنظیموں کی باہمی خوں ریزی کی شکل میں بین الاقوامی مفادات کی کشمکش کا اکھاڑہ بنا سکتا ہے۔ قندھار میں طالبان کے ٹھکانوں پر حالیہ امریکی فضائی حملوں سے اس خدشے کے حقیقت بن جانے کا واضح امکان ابھرا ہے۔ عین ممکن ہے کہ یہ کشمکش چالیس برسوں سے جنگ کے شعلوں میں جھلستے افغان عوام کو مزید کئی عشروں تک اسی تباہ کن کیفیت میں مبتلا رکھنے کا سبب بن جائے۔ اس بنا پر انہیں پاکستان اور چین جیسے مخلص دوستوں کی جانب سے پائیدار امن کی خاطر تعاون کی پیش کش کا خیر مقدم کرتے ہوئے مزید کسی لیت و لعل کے بغیر امن کی سمت میں مؤثر پیش رفت کرنی چاہئے۔ اس کا واحد طریقہ پاک چین وزرائے خارجہ مشترکہ اعلامیے میں تجویز کردہ جامع جنگ بندی کے بعد اختلافات کا مذاکرات کی میز پر طے جانا ہے۔ پُرامن، مستحکم، متحد اور خوش حال افغانستان کا قیام اس کے سوا کسی اور طریقے سے ممکن نہیں۔ خطے میں امن و استحکام اور خوشحالی کو اپنے مفادات کے منافی سمجھنے والی طاقتیں بہرحال پوری طرح سرگرم ہیں جس کا ایک مظاہرہ پچھلے دنوں داسو ہائیڈرو پاور منصوبے کو دہشت گردی کا نشانہ بنانے کی شکل میں ہوا ہے۔ ان طاقتوں کے عزائم سے ہوشیار رہنا اور ان کے دام تزویر میں پھنسنے سے خود کو محفوظ رکھنا تمام افغان گروپوں کے مفاد کا تقاضا بھی ہے۔ مشترکہ اعلامیے میں پاکستان اور چین نے داسو ہائیڈرو پاور منصوبے میں کام کرنے والے چینی اور پاکستانی کارکنوں کی حوصلہ شکنی کی خاطر کیے گئے دہشت گرد حملے کی بجا طور پر مذمت کی ہے جس کے نتیجے میں متعدد قیمتی جانوں کا ناقابلِ تلافی نقصان ہوا۔ دونوں فریقوں نے جاری مشترکہ تفتیش کے ذریعے مجرموں اور ان کے قابلِ مذمت ارادوں کو بےنقاب کرنے، ذمہ داروں کو مثالی سزا دینے، چینی منصوبوں، شہریوں اور اداروں کی جامع حفاظت اور سلامتی کو یقینی بنانے اور اس طرح کے واقعات کو دوبارہ ہونے سے روکنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ امید ہے کہ یہ عزم بلاتاخیر عمل کے قالب میں ڈھلے گا، بزدل امن دشمنوں کے سازشی منصوبے آئندہ روبعمل آنے سے پہلے ہی ناکام بنائے جا سکیں گے نیز افغانستان میں پائیدار سیاسی تصفیے کی خاطر جاری پاک چین مشترکہ کوششیں رنگ لائیں گی اور پورا خطہ استحکام اور خوشحالی کے ثمرات سے فیض یاب ہوگا۔