سیاسی ڈائری، سیاست میں تشدد کا رجحان بھی پروان چڑھ رہا ہے

July 26, 2021

اسلام آباد (محمد صالح ظافر خصوصی تجزیہ نگار) آزاد کشمیر کے انتخابی نتائج سے علی الرغم یہ امر حد درجہ تشویش انگیز ہے کہ قومی سیاست میں بدزبانی اور بدتہذیبی ہی نہیں تشدد کا رجحان بھی پروان چڑھ ر ہا ہے‘ ان نئے لائق مذمت رجحانات کو متعارف کرانے والوں اور متاثرین میں ان کی مضرت رسانیوں کا احساس ہی نہیں جو دور رس اور جدسیاست کے لئے تباہ کن ہونگی شاید ایک فریق اسے اپنے لئے کامیابی کا زینہ تصور کرتا ہو جس کے ذریعے وہ اپنے حریف کو پامال کررہا ہو جبکہ دوسرا بے بسی کے سوا کچھ نہیں کرسکتا۔

آزاد کشمیر میں انتخابی مشق کو ہمیشہ پاکستان میں نمونے کا درجہ حاصل رہاہے جہاں شائستگی اور رواداری کو انتخابی مہم کا طرہ امتیاز قرار دیا جاتا رہا ہے چند ہفتوں کی انتخابی مہم میں روا رکھی گئی گالم گلوچ اور مار دھاڑ نے اس کلچر کو بھسم کرکے رکھ دیا ہے‘آزاد کشمیر کے اقتدار پر فائز کئے جانے والوں کو ایل او سی کی دوسری جانب مقبوضہ کشمیر کے اپنے ہم نژادوں کے لئے مثال بننا ہوتا ہے۔

جمہوری طرز حکومت میں غیر نمائندہ افراد کو جمہوری نمائندگی دلانا ملک و قوم کے لئے زوال اور ابتری کی راہ کھولتا ہے۔سیاسی نعرہ زنی بہت ہوچکی اور گالم گفتار کا انبار بہت لگایا جاچکا‘مصنوعی کامیابی سے حالات کے تیور کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔

آزاد کشمیر کے انتخابات کم وبیش گلگت بلتستان کی انتخابی مشق کا چربہ ثابت ہوئےہیں ۔ پاکستان کی سیاست میں حزب اختلاف کے منتشر شیرازے کو ان انتخابات نے ایک مرتبہ پھر یکجا ہونے کا سندیسہ دیدیا ہے‘ 25؍ جولائی 2018ء کے فوری بعد جس طور پر حزب اختلاف معرض وجود میں آئی تھی اور ’’متاثرین‘‘ یکلخت سرجوڑ کر بیٹھے تھے وہی مرحلہ دوبارہ درپیش ہے اب وہ یقیناًسوچیں گے کہ انہیں ایک ایک کرکے اور انتشار میں مبتلا کرکے دفن کرنے والوں کو کامیاب ہونے کا مزید موقع دینا ہےیا پھر جسد واحد بن کر براتی کی قوت کو زمین بوس کرنا ہے ۔ موجودہ ’’حکمران‘‘ اور ان کے حریف جس ندی کے دو کناروں پر کھڑے ہیں اس کا پاٹ مزید وسیع ہوگیا ہے۔