آزاد کشمیر الیکشن۔ ہار، جیت اور وجوہات

July 27, 2021

آزاد جموں و کشمیر میں الیکشن ہو گئے اور پاکستان تحریک انصاف کو کامیابی ملی۔ پاکستان پیپلز پارٹی نہ صرف دوسری بڑی جماعت کے طور پر سامنے آئی بلکہ پہلے سے بہتر پوزیشن بھی حاصل کرلی۔ الیکشن تک برسر اقتدار رہنے والی جماعت مسلم لیگ(ن) کو بدترین ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ بالکل ویسی ہی ناکامی جس کا سامنا گلگت بلتستان میں کیا تھا۔ مسلم لیگ (ن) نے اس ناکامی کو بھی حسبِ روایت دھاندلی کا نتیجہ قرار دیا ہے لیکن یہاں پہلے دو اہم نکات پر بات کرنی ضروری ہے۔ پہلا یہ کہ اسی دن جب الیکشن نتائج پر کوئی جشن منا رہا تھا اور کوئی دکھ کا اظہار کر رہا تھا، کوئیک رسپانس کے طور پر مامور پاک فوج کی ایک گاڑی کو حادثہ پیش آیا۔ اس افسوسناک حادثے میں پاک فوج کے 4جوان شہید اور 3زخمی ہوئے جبکہ ایک سویلین ڈرائیور بھی زخمی ہوا۔ اس المناک حادثے پر جتنا بھی افسوس کیا جائے کم ہے لیکن افسوسناک پہلو یہ بھی ہے کہ جیتنے اور ہارنے والی جماعتوں نے اس حادثے میں شہید اور زخمی ہونیوالے جوانوں کے لئے افسوس کا اس طرح اظہار نہیں کیا جس طرح کرنا چاہئے تھا اور جس طرح ان کا حق تھا۔ جیتنے والے اپنی جیت اور ہارنے والے اپنی ہار پر اظہارِ خیال کرتے رہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ سیاست، الیکشن اور ہار جیت اپنی جگہ لیکن پاک فوج کے جوان اور افسر جواس ملک کے محافظ اور اصل سرمایہ ہیں، ان کے جانی نقصان پر پوری قوم سوگوار اور افسردہ ہو جاتی ہے کیونکہ یہ پورے ملک کا نقصان ہوتا ہے پھر جیت کے نشے میں سرشار اور ہار کے دکھ کو سینے سے لگانے والے کیا اس ملک و قوم کا حصہ نہیں ہیں؟ دوسرا نکتہ یہ ہے کہ یہ بات خوش آئند ہے کہ اب کوئی بھی فوج پر سیاست اور الیکشن میں مداخلت کا بےبنیاد الزام نہیں لگا سکتا۔ پاکستان میں ضمنی انتخابات ہوں یا آزاد کشمیر کے حالیہ انتخابات، یہ ثابت ہو گیا کہ پاک فوج کا سیاست سے نہ کوئی تعلق ہے نہ ہی مداخلت رہی ہے۔آزاد کشمیر کے الیکشن میں دھاندلی کا شور مچانے کا کوئی جواز نظر نہیں آتا کیونکہ جب سے آزاد کشمیر میں پاکستان کی سیاسی جماعتوں کا ظہور ہوا ہے وہاں سے ریاستی جماعتوں کا خاتمہ کر دیا گیا ہے اور مختلف طریقوں سے آزاد کشمیر کی سیاست کو پراگندہ کیا گیا۔ ریاستی جماعتوں کے ارکان کوتوڑ کر پاکستانی سیاسی جماعتوں میں شامل کیا گیا اور یوں آزاد کشمیر میں سیاست کے پاک ماحول کو خراب کیا گیا۔ اسی وجہ سے یہ روایت بن گئی ہے کہ جیتنے کے اہل اور برادریوں والے امید وار وقت کے ساتھ ساتھ اپنی وفاداریاں تبدیل کرتے رہتے ہیں اور پاکستان کی طرح وہاں بھی اس عمل پر کوئی شرمسار نہیں ہوتا لیکن اس کا ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ آزاد کشمیر میں امید وار کی سوچ یہ بن گئی ہے جو کسی حد تک صحیح بھی ہے کہ وہ مرکزی حکومت کی جماعت میں شامل ہوکر اسی جماعت کے ٹکٹ پرالیکشن لڑے تاکہ کامیابی کے بعد وہ اپنے کام کروا سکے اسی وجہ سے جس جماعت کی اسلام آباد میں حکومت ہوتی ہے وہی جماعت آزاد کشمیر میں بھی حکومت بنانے میں کامیاب ہوتی ہے یہ وہ بنیادی نکات ہیں جن کی وجہ سے اکثر لوگ جماعتی وفاداری تبدیل کرنےمیں دیر نہیں لگاتے اور یوں اگر دیکھا جائے تو آزاد کشمیر میں ہر الیکشن کے موقع پر سیاست کا قتل ہوتا ہے۔ باالفاظ دیگر وہاں سیاست نہیں بلکہ مفادات کے سودے ہوتے ہیں۔ اس لئے عوامی مسائل جوںکے توں بھی نہیں رہتے بلکہ بڑھتے ہی رہتے ہیں۔ میرپور اور مظفر آباد کو چھوڑ کر اکثر علاقوں میں صحت، تعلیم اور سڑکوں کا براحال ہے۔ پیپلز پارٹی نے اپنے دور حکومت میں کوئی قابلِ ذکر کام نہیں کیا۔ پتہ نہیں وہاں کے فنڈز کون اور کہاں لے گئے۔ البتہ(ن) لیگ کے راجہ فاروق حیدر نے کم از کم اہم شاہراہوں پر خاص توجہ دی اور بہترین سڑکیں بنائیں، کچھ بہتری تعلیم اور صحت کے شعبوں میں بھی لے آئےلیکن پاکستان کی طرح آزاد کشمیر میں بھی کام کو نہیں دیکھا جاتا۔پاکستان ہو، ریاست آزاد کشمیر ہو یا گلگت بلتستان ہو۔ سیاست یاتو ختم ہوگئی ہے یا اس کے معنی تبدیل ہوگئے ہیں کیونکہ جب پارٹی رہنما اور امیدوار اپنے مفادات کو ترجیح دیں تو عام ووٹر پھر بیٹے کو نوکری دلانے کے وعدے پر اور بعض بریانی کی پلیٹ اور 5سو روپے پرہی ووٹ نہیں دیں گے تو کیا کریں گے کہ بھاگتے چور کی لنگوٹی ہی سہی۔ اگر ملک وقوم کی ترقی مقصود ہے تو جس نہج پرہمارا سیاسی نظام، سیاسی ماحول اور اخلاقیات پہنچ چکے ہیں اس سے نجات حاصل کرنا ضروری ہے۔ ورنہ آنیوالا وقت شرافت کی سیاست کانہیں رہے گا۔ خالص صدارتی نظام ہی واحد حل ہےاور ملکی ترقی کیلئے اس میں نگرانی کرنے والوں کا حصہ یا عمل دخل بھی ضروری ہے۔