افغان فوجی پاکستان کی پناہ میں!

July 28, 2021

افغانستان سے امریکہ کے فوجی انخلا کے بعد شرکت اقتدار پر اتفاق رائے نہ ہونے کے باعث طالبان نے اپنی حکومت بحال کرنے کیلئے جو مسلح کارروائیاں شروع کر رکھی ہیں ان کے نتیجے میں کابل حکومت اور افغان فوج میں سراسیمگی اور شکست کے آثار واضح ہونے لگے ہیں۔ طالبان کا یہ دعویٰ کہ انہوں نے ملک کے بڑے حصے پر قبضہ کر لیاہے محل نظر ہو سکتا ہے مگر اس حقیقت کو کوئی کیسے جھٹلا سکتا ہے کہ کئی مقامات پر سرکاری فوجیوں نے رضاکارانہ طور پر خود ہتھیار ڈال دئیے اور طالبان کی صفوں میں شامل ہو گئے۔ اس سے ملتا جلتا ایک واقعہ 25جولائی کو چترال میں پاک افغان سرحد پر پیش آیا جب طالبان کی پیش قدمی کا سامنا کرنے والے افغان فوج کے 5افسروں سمیت 46جوان جن میں کچھ پولیس اہلکاربھی شامل تھے سرحد کی دوسری جانب اپنی چیک پوسٹ کا کنٹرول برقرار نہ رکھ سکے اور پاک فوج سے پناہ اور محفوظ راستہ مانگنے پر مجبور ہو گئے۔ پاک فوج نے افغان نیشنل آرمی کے مقامی کمانڈر کی درخواست پر فوجی طریق کار کے مطابق ضروری کارروائی کرتے ہوئے انہیں پناہ دے دی اور بعد میں محفوظ راستہ دیتے ہوئے انہیں افغان حکام کے حوالے کر دیا۔ پاک فوج کے شعبہ پبلک ریلیشنز کے اعلامیہ کے مطابق افغان اہلکار افغانستان میں سکیورٹی کی بدلتی ہوئی صورتحال کی وجہ سے پاک افغان بین الاقوامی سرحد پر اپنی فوجی پوسٹوں کو چھوڑنے اور پاکستان آنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ یکم جولائی کو بھی 35افغان فوجی بھاگ کر پاکستان آئے تھے جنہیں مناسب طریق کار کے تحت افغان حکومت کے حوالے کر دیا گیا۔ آئی ایس پی آر نے 25جولائی کے واقعے کے بارے میں جو تفصیلات جاری کی ہیں ان کے مطابق ارندو سیکٹر پہنچنے والے افغان فوجی اہلکاروں کے بارے میں پاک فوج کی طرف سے معلومات اور دیگر ضروری اقدامات کے بعد افغان حکام سے رابطہ کیا گیا۔ افغان فوجیوں اور افسروں کو طے شدہ فوجی اصولوں کے مطابق کھانا، رہائش اور ضروری طبی امداد فراہم کی گئی اور پیر اور منگل کی درمیانی رات 12بج کر 35منٹ پر نواپاس باجوڑ کے مقام پر انہیں افغان حکام کے حوالے کر دیا گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ افغان وزارت دفاع کے ترجمان نے سرے سے واقعے کی تردید کر دی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہمارے فوجی جوانوں نےکسی دوسرے ملک میں پناہ نہیں لی اور وہ بھی پاکستان میں۔ افغان اور بالخصوص افغان فوج میں پاکستان کے خلاف جتنی حساسیت ہے اس کا سب کو پتہ ہے۔ کابل حکومت اس طرح کے جھوٹے دعوے کرنے کی عادی ہے۔ پاکستان پر وہ بار بار جھوٹے الزامات لگا چکی ہے۔ طالبان کی شکستوں کے بڑھ چڑھ کر دعوے کئے جاتے ہیں۔ افغانستان کی صورتحال کے بارے میں پوری دنیا متفکر ہے کیونکہ طالبان قیادت اور کابل حکومت میں شراکت اقتدار کا کوئی سمجھوتہ نہ ہو سکا تو ملک میں بدترین خانہ جنگی ہو سکتی ہے جس کے اثرات خطے کے ممالک خصوصاً پاکستان تک پہنچیں گے۔ پاکستان نے افغان امن کیلئے جو بھرپور کوششیں کی ہیں وہ طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کی صورت میں سب کے سامنے ہیں۔ مگر اشرف غنی حکومت اقتدار میں طالبان کو برابر کا حصہ دار بنانے کی بجائے چاہتی ہے کہ وہ موجودہ حکومت کی شرائط پر ہتھیار ڈال دیں۔ اس کی اس ہٹ دھرمی کی وجہ سے طالبان نے جنگ کا راستہ اختیار کر رکھا ہے۔ جس میں انہیں پے درپے کامیابیاں مل رہی ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ اشرف غنی کا سرپرست امریکہ اور دوسری طاقتیں افغانستان میں مزید خونریزی روکنے کیلئے فریقین میں صلح صفائی کرائیں اور امن کی راہ ہموار کریں۔