پنجاب اسپورٹس پالیسی، بیورو کریسی کا کردار

August 02, 2021

جاپان کےشہر ٹوکیو میں جاری اولمپکس گیمز میں جہاں پاکستان اولمپک ایوسی ایشن کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے گیمز میں شریک پاکستانی کھلاڑی دلبرداشتہ اور مایوس ہو کر اچھا پرفارم نہ کرسکے وہاں کچھ احسن اور حوصلہ افزا چیزیں بھی سامنے آئیں۔ اکثر عوام بیورو کریسی کے رویے اور انداز پرتنقید تو کرتے ہیں لیکن ملکی وصوبائی سطح پر کئی ایسی عوام دوست پالیسیاں بنائی جاتی ہیں جن کے پیچھے بہرحال افسر شاہی کا اہم کردار ہوتا ہے۔ پنجاب کے اندر حال ہی میںکھیلوں کےفروغ کے لئے کچھ ایسے انقلابی اقدامات کئے گئے ہیں جن کی ستائش ہر سطح پر ضروری ہے۔ ڈائریکٹر جنرل اسپورٹس پنجاب عدنان ارشد اولکھ کا تعلق پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس کے 31ویں کامن سے ہے۔ ڈی ایم جی افسران اکثر ڈی جی اسپورٹس تعیناتی کو کھڈے لائن لگائے جانا ہی سمجھتے ہیں لیکن کچھ لوگ جہاںبھی ہوں، بہتری کے لئے اپنا بھرپورکردار ادا کرتے رہتے ہیں۔ پنجاب کی تاریخ میں پہلی مرتبہ اسپورٹس پالیسی بنائی گئی ہے جس کی صوبائی کابینہ نے منظوری دے دی ہے۔ اس پالیسی کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ پہلی مرتبہ کھلاڑیوں کے لئے انڈوومنٹ فنڈ قائم کیا گیا ہے جس سے نہ صرف کھلاڑیوں کووظائف دیئے جائیں گے بلکہ کھیلوں کے کلچر کو فرغ دینے کے لئےا سپورٹس انفراسٹرکچر کو وسیع کیا جائے گا۔ جن قوموں کے کھیلوں کے میدان آباد ہوتےہیں ان کے اسپتال ویران ہوتے ہیں، ایسی باتیں تو ہم سنتے آئے ہیں لیکن ان پر عملدرآمد کے لئے پنجاب میں کچھ اقدامات اب دیکھنے میں آئے ہیں۔ ایک وقت تھا کہ پاکستان اسکوائش کی دنیا کابے تاج بادشاہ تھا۔ آج سے 28 سال قبل صوبائی دارالحکومت لاہور میں ایک عالمی معیار کےاسکوائش کمپلیکس کا سنگ بنیاد رکھا گیا لیکن تقریباً 3 دہائیاں گزر جانے کے باوجود یہ کمپلیکس تعمیر نہ ہوسکا۔ اسکوائش کے عالمی چیمپئنز جہانگیر خان اور جان شیر خان نے کئی مرتبہ پنجاب حکومت کو اس کمپلیکس کی تعمیراور عالمی سطح کے پلیئرز پیدا کرنے کے لئے کوچنگ کے حوالے سے اپنی خدمات پیش کرنے کی بات بھی کی لیکن کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ پنجاب کی افسر شاہی جس پر اکثر لوگ تنقید کرتے ہیں، نے اس کمپلیکس کی تعمیر کا بیڑا اٹھایا اور وزیر اعلیٰ پنجاب کو تجویز بھجوائی ۔ بقول ایک سینئر افسر کے وزیر اعلیٰ عثمان بزدارکسی بھی اچھی تجویز کی منظوری میں ایک منٹ بھی نہیںلگاتے۔ اچھی بات اور خبر یہ ہے کہ 28سال قبل شروع کئے گئے اسکواش کمپلیکس پر تعمیر کا آغاز ہوگیا ہے جس پر 48 کروڑ روپے لاگت آئے گی اور یہ 2023ء میں مکمل ہوگا۔ لاہور کے نشتر پارک اسپورٹس کمپلیکس میں عالمی معیار کااسٹیٹ آف دی آرٹ ٹینس کورٹ موجود ہے لیکن یہاں عالمی سطح کاٹورنامنٹ صرف اس وجہ سے منعقد نہیں ہو سکا کہ اس کے لئے ایک کورٹ کافی نہیں ہوتا کیونکہ ایک ہی وقت میں متعدد میچز کھیلے جا رہے ہوتے ہیں۔ اس لئے پنجاب حکومت نے وہاں عالمی معیار کے 5 مزید پریکٹس کورٹس بنانے کی منظوری دے دی ہے۔ قیام پاکستان سے اب تک وطنِ عزیز میں بجلی کا بحران کبھی ختم نہیں ہوا جس کابراہ راست اثر صرف ملکی معیشت ہی نہیں بلکہ کھیلوں پر بھی پڑا ہے۔ پنجاب میںکھیلوں کے میدانوں کوبجلی بحران کےباوجود آباد رکھنے کےلئے تمام بڑے اسپورٹس کمپلیکس سولر انرجی پر منتقل کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے جس کے لئے سب سے پہلے 15 کروڑ روپے کی لاگت سے نشتر پارک اسپورٹس کمپلیکس میں تمام اسپورٹس سہولیات کو سولر انرجی پر منتقل کرنے کا کام شروع کیا جارہا ہے۔ اس سے نہ صرف بجلی کے بلوں کی مد میں کروڑوں روپے کی رقم بچائی جائے گی بلکہ اس بچائی گئی رقم کو کھیلوں کے فروغ اور ترقی کے لئے استعمال میں لایا جائےگا اور سولرانرجی سے بجلی کی مسلسل فراہمی یقینی ہوگی۔ اس میں سیکرٹری انرجی عامر جان جو کہ پہلے ڈی جی اسپورٹس رہے ہیں، نےبھی اہم کردار ادا کیا ہے۔

کم ہی لوگوںکو پتہ ہو گاکہ پنجاب کے 21 اضلاع میں جو ای لائبریریاں، انٹرنیٹ اور جدید سہولیات کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کی اہم کتب آن لائن ہیں، یہ بھی محکمہ اسپورٹس پنجاب نے ہی قائم کی ہیں۔ عام طور پر لائبریریوں کا قیام لوکل گورنمنٹ، محکمہ آرکائیوز اور تعلیم ہی عمل میں لاتے ہیں۔ پنجاب حکومت کی جانب سے کھیلوں کا بجٹ مالی سال 2021-22میں دو سو فیصد بڑھا دیا گیا ہے۔کھیلوں کے لئے مختص 3 ارب 64 کروڑ کے اس بجٹ سے کئی نئے ادھورے منصوبے مکمل کئے جائیں گے۔ پنجاب کی مختلف 16 تحصیلوں میں 62 کروڑ 80 لاکھ روپے سے زائد رقم خرچ کرکے تحصیل اسپورٹس کمپلیکس مکمل کرلئے گئے ہیں جبکہ صوبے میں فلڈ لائٹ کی سہولتوں سے آراستہ 19 کرکٹ گرائونڈز تعمیر کیے گئے ہیں۔ ان منصوبوں کیلئے حکومت نے1 ارب 33 کروڑ روپے سے زائد کے فنڈز جاری کئے تھے۔ اسی طرح پنجاب میں 1 ارب 64 کروڑ روپے سے زائد کی لاگت سے 8 ہاکی اسٹیڈیم مع آسٹروٹرف اور 21 کروڑ کی لاگت سے 3 فٹ بال گرائونڈ مکمل کرلئے گئے ہیں۔کھیلوں کے حوالے سے کئے گئے ان انقلابی اقدامات پر پنجاب حکومت اور چیف سیکرٹری کی سربراہی میں کام کرنے والی بیوروکریٹس کی ٹیم لائق تحسین ہے۔ چیئرمین پی اینڈ ڈی اسکیموں کو فنڈز جاری نہ کرتے، سیکرٹری انرجی سولر سسٹم نہ لگاتے، ڈی جی اسپورٹس سفارشات نہ بھجواتے تو یہ کام لٹکے ہی رہتے۔ جس طرح دیگر ترقیاتی کاموں میں کارکردگی دکھانے والوں کو شاباش ملتی ہے اس طرح کھیلوں کے فروغ کے لئے کام کرنے والوں کی پذیرائی بھی کی جانی چاہئے۔