مطلوبہ سہولت میسر نہیں !

August 29, 2021

محمد اکرم خان

ایڈیٹر، جنگ فورم، کراچی

روایتی ذریعہ تعلیم سے پڑھے جانے والے کورسز سے آن لائن تعلیم پر آنے سے کورسز کی ضروریات میں تبدیلی سے آگاہی بھی ضروری ہے۔افراد کے درمیان روابط کو ویڈیو کانفرنسنگ، زوم اور اسکائپ کے ذریعے بہتر کیا جا سکتا ہے۔یاد رکھیں کہ آنے والا دور آن لائن ذریعہ تعلیم کاہی ہے اور اسے اپنانا ناگزیر ہے۔

ڈاکٹر ایس الطاف حسین

انٹرنیٹ منقطع اور رابطے کے مسائل ایک اہم مسئلہ ہے جس کا اکثریت کو سامنا ہے، یہ بھی دیکھا گیا کہ بہت سے اسکولوں اور کالجوں میں انٹرنیٹ کے ذریعے تدریسی عمل کو مکمل کرنے کے وافر ذرائع موجود نہیں تھے، کووڈ نے تعلیمی اداروں کو طلباء اور اساتذہ کو جوڑنے کے لیے لرننگ مینجمنٹ سسٹم بنانے اور نافذ کرنے پر مجبور کیا۔

طالب کریم

کورونا کی پہلی لہر میں آن لائن ذریعہ تعلیم کے لیے جامعات بالکل بھی تیار نہ تھیں، کیوں کہ طلبہ اور اساتذہ کی اکثریت آئی ٹی اور جدید ٹیکنالوجی سے بالکل ناواقف ہیں، آن لائن ذریعہ تعلیم کا پہلے سے نہ کوئی نظام موجود تھا اور نہ ہی کوئی تجربہ، حالاں کہ اس عمل کو سیکھنے کے لیے کورونا کے انتظار کی ضرورت نہ تھی۔

پروفیسر طاہر نعیم ملک

پاکستان میں ہر طالب علم کو انٹرنیٹ کی سہولت میسرنہیں ہے، چھوٹے شہروں، دور دراز کے پس ماندہ اور قبائلی علاقوں کے طلبا کے لئے یہ ایک دشوار صورت ہے کہ وہ باقاعدگی سے آن لائن کلاسز لیں،اس طرح ملک کے بہت سے علاقوں میں بجلی کی عدم دستیابی اور طویل لوڈشیڈنگ کی وجہ سے بھی طلبا کا آن لائن کلاسزلینا مشکل امر ہے۔

امان اللہ پنجوانی

ایلیٹ اسکول یا پوش ایریاز میں قائم اسکولوں کے پاس آن لائن کلاسز کے لئے پورا میکینزم موجود ہے، اس لئے یہ اسکولز اپنے طلبہ کو زوم اور گوگل کلاس روم کے ذریعے مکمل فزیکل کلاسز کا نعم البدل دے رہے ہیں لیکن طلبا و طالبات کی اکثریت وسائل کی کمی کے باعث یہ سہولیات حاصل کرنے کی طاقت نہیں رکھتی۔

رفیعہ جاوید

گوفلپڈ کلاس روم اور بلینڈڈ لرننگ،آن لائن طرز تعلیم کے دو کلیدی اجزاء ہیں، جنہیں بدلتے وقت اور حالات کے تناظرمیں سمجھنا،اپنانا اور لاگو کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے،تاہم یہ امر بھی مسلم ہے کہ تقریباً دو سال گزرنے کے باوجود ہمارے بیشتر طلباء، اساتذہ اور تعلیمی ادارے اس سے قطعی نابلد ہیں۔

ڈاکٹر ارم حفیظ

ڈاکٹر ارم حفیظ

ایسوسی ایٹ پروفیسر، ڈیپارٹمنٹ آف میڈیا اسٹڈیز، اقراء یونی ورسٹی، کراچی

اقوام متحدہ کی اگست 2020میں جاری کردہ رپورٹ “Education during Covid-19 and beyondکے مطابق "دنیا کے 190 ممالک میں تقریبا 1.6 ارب طلباء کا تعلیمی سلسلہ کورونا کے باعث بری طرح متاثر ہوا ہے۔ عالمی سطح پر تعلیمی اداروں کی بندش کی وجہ سے گزشتہ سال 94 فیصد طلباء کا تدریسی عمل تعطل کا شکار ہوا جن میں سے 99 فیصد کا تعلق پاکستان سمیت دیگر ترقی پذیر ممالک سے ہے"۔اس پس منظر آن لائن ایجوکیشن کو ہنگامی بنیادوں پر ملک میں متبادل طرز تعلیم کے طور پر متعارف کرایا گیا تاکہ تدریسی سلسلے کو کسی طور جاری رکھا جا سکے تاہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم بحیثیت قوم اس طرز تعلیم کے لئے تیار ہیں؟

کیا ہمارے پاس ایسے تربیت یافتہ اساتذہ ہیں جو اس جدید طرز تعلیم کے تقاضوں کو سمجھتے ہوں اور اپنے مضمون اور موضوع سے انصاف کرتے ہوئے اسے آن لائن مواد کے قالب میں ڈھال سکیں۔ نیز ہوا کے دوش پر اسے جدید ذرائع ابلاغ کے ذریعے اپنے طلباء تک پہنچانے کا ہنر بھی جانتے ہوں۔اگر نہیں تو کیا ہمارے اسکول، کالج اور جامعات اس مواد کی تیاری اور اساتذہ کی تربیت میں خاطر خواہ دلچسپی رکھتی ہیں اور اپنے وسائل اور وقت کو اس عمل میں خوش دلی سے لگانے کے لئیے تیار ہیں؟کیا ہمارے پاس وہ طلباء ہیں جواس طرز تعلیم کے لئیے آمادہ اور تیار ہوں اور آن لائن کلاسوں کی آزادانہ و چیلنجنگ فضاء میں بھرپور طریقے سے اپنے تعلیمی سلسلے کو جاری رکھنے کا ہنر جانتے ہوں۔ اورسب سے بڑھ کریہ کہ کیا ہمارے پاس بلا تعطل وتفریق ملک کے طول وعرض میں بجلی، انٹرنیٹ اور ذرائع ابلاغ (بشمول کمپیوٹر اور موبائل کی دستیابی) کا وہ موثر نظام موجود ہے جواس آن لائن تعلیم کی اولین شرط ہے۔

سچ تو یہ ہے کہ ان میں سے بیشترسوالات کا جواب نفی میں ہے۔ فی الوقت نہ تو ہمارا انتظامی، تیکنیکی اورابلاغی ڈھانچہ اس جدید طرز تعلیم کا بوجھ اٹھانے کے قابل نظرآتا ہے، نہ بیشترتعلیمی ادارے اس ضمن میں اپنے اساتذہ اور طلباء کو سنجیدگی اور یکسوئی کے ساتھ تیار کرنے کے لئے کوشاں ہیں۔نتیجہ یہ ہے کہ کورونا کے باعث ہنگامی بنیادوں پر مسلط کردہ آن لائن طریقہ تعلیم روایتی نظام کا چربہ نظر آتی ہیں۔ گھسے پٹے لیکچر، کچھ پرانی، کچھ نئی سلائیڈز، بوسیدہ کتابوں اور فرسودہ نوٹس کی آڑی ترچھی تصاویراور آف لائن کلاسوں کے انداز میں سطر بہ سطر دہرائی اور طویل لیکچر۔ طلباء کو آن لائن کلاسوں سے بد دل کرنے کے لئے کافی ہیں خصوصا اس ماحول میں جب اساتذہ اور طلباء ایک دوسرے کے روبرو بھی نہیں ہوتے ور اطراف میں دل کو لبھانے اور رجھانے کے ان گنت سامان موجود ہیں۔

آن لائن ایجوکیشن Blended learning and Flipped Classrooms کے بغیر ممکن نہیں ہے ۔ اس طرز تعلیم میں متعلقہ کورس متع تمام تر مواد بشمول آڈیو، وڈیو لیکچرز، سلائیڈز اور کتابیں طلبا کو ان کی کلاسوں سے پہلے آن لائن فراہم کر دیا جاتا ہے۔ تاکہ ہر طالب علم اپنی سہولت، رفتاراورصلاحیت کے مطابق مختلف موضوعات پڑھ، سمجھ اور برت سکے۔ جبکہ کلاسوں میں وہ ہوم ورک اور پراجیکٹ کرائے جاتے ہیں جوعموما گھرمیں کرنےکے لیے دیے جاتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں فلپڈ کلاس روم کہا جاتا ہے۔

کلاس میں اساتذہ اور ہم جماعتوں کی موجودگی میں ورکنگ اسائنمنٹ کرنا ایک کارآمد طرز تعلیم ہے۔ اس سے جہاں طلباء کو پہلے سے پڑھے گئے مواد کو زیادہ فعال طریقے سے بروئے کار لانے میں آسانی ہوتی ہے، وہاں مقررہ وقت میں محدود وسائل کے ساتھ کتابی اصولوں اورعلم کو عمل میں ڈھالنے کی تربیت بھی ہوتی ہے جو پیشہ ورانہ زندگی کے بنیا دی جزو ہیں۔گوفلپڈ کلاس روم اور بلینڈڈ لرننگ آن لائن طرز تعلیم کے دو کلیدی اجزاء ہیں جنہیں بدلتے وقت اور حالات کے تناظرمیں سمجھنا، اپنانا اور لاگو کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے تاہم یہ امر بھی مسلم ہے کہ قریبا دو سال گزرنے کے باوجود ہمارے بیشتر طلباء، اساتذہ اور تعلیمی ادارے اس سے قطعی نابلد ہیں۔

پروفیسر طاہر نعیم ملک

ماہر تعلیم ، استاد، نمل یونیورسٹی ،اسلام آباد

کورونا کی پہلی لہر میں آن لائن ذریعہ تعلیم کے لیے جامعات بالکل بھی تیار نہ تھیں کیونکہ طلبہ اور اساتذہ کی اکثریت آئی ٹی اور جدید ٹیکنالوجی سے بالکل ناواقف تھے، لہذا آن لائن ذریعہ تعلیم کا پہلے سے نہ کوئی نظام موجود تھا اور نہ ہی کوئی تجربہ حالانکہ اس عمل کو سیکھنے کے لیے کورونا کے انتظار کی ضرورت نہ تھی۔ اسی طرح ہمارے ہاں ای لائبریری کا تصور بھی ناپید ہے حالانکہ دیگر ترقی یافتہ ممالک میں طلبہ و طالبات گھر بھیٹے ای لائبریری سے مستفید ہوتے ہیں اور انہیں ہفتہ اتوار سمیت کسی بھی چھٹی کے روز ای لائیبریری کی سہولت دستیاب ہوتی ہے۔

موجودہ ترقی یافتہ دور میں جامعات میں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز اور اسٹوڈیوز پہلے ہی متعارف ہوجانے چاہیے تھے، اور اگر ایسا ہوتا تو کسی بھی طور پر ہمیں اس پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا، خیر اگر پہلے ہمیں اس بات کا خیال نہیں آیا تو اب اس معاملے میں ہمیں سوچ لینا چاہیے اور درسگاہوں کو ان سہولیات سے آراستہ کرنا چاہئے جنکی ضرورت ہے۔ دوسری طرف ماضی قریب میں ہائیر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) کا کردار بھی مایوس کن ہی رہا ہے، مثلاً جب طلبہ احتجاج کر رہے تھے تب ایچ ای سی انتظامیہ نے نہ اس ضمن میں ان سے مذاکرات کیے، نہ مؤقف جانا اور نہ ہی اساتذہ سے یہ مسائل جاننے کی کوشش کی جو انتہائی افسوسناک رویہ تھا۔

کورونا کی پہلی لہر میں یہ بتایا گیا تھا کہ بچوں کو پروموٹ کردیں گے اور اسکول، کالجوں میں ایسا ہوا بھی لیکن جامعات کے لیے ہائیر ایجوکیشن کمیشن کوئی واضح پالیسی نہیں بنا سکا جو نااہلی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ ‏دیگر ملکوں کے مقابلے میں ہم طلبہ کو مہنگا ترین انٹرنیٹ فراہم کررہے ہیں اگر شوگر، پٹرولیم انرجی اور ہاوسنگ سکیڑ کو حکومت سبسڈی فراہم کرسکتی ہے تو پھر تعلیم اور اس سے وابستہ شعبہ کو کیوں نہیں؟

کیا طلبہ کو تعلیمی ضرورت کے لیے انٹرنیٹ پر ٹیکس معاف نہیں کیا جاسکتا؟ کیا حکومت طلبہ کے لیے لیپ ٹاپ اور اسمارٹ فون پر بھی عائد ٹیکس معاف نہیں کرسکتی۔ اور کیا حکومت کو نہیں چاہئے کہ وہ غریب طلبہ کو مفت لیپ ٹاپ فراہم کرے تاہم وہ اپنی تعلیم آسانی سے جاری رکھ سکیں۔ اگر حکومت ایسا اقدام کردے تو یہ ایک بہترین کام ہوگا اور اس سے طلبہ کے کافی مسائل حل ہوجائیں گے۔

اس کے علاوہ دور افتادہ ایریا جیسے فاٹا، بلوچستان، گلگت بلتستان اور کشمیر کے پسماندہ علاقوں سے تعلق رکھنے والے طلبہ ہیں ان کے لئے انٹرنیٹ کی سہولت دستیاب ہی نہیں اور یہ ان علاقوں کے طلبہ کے ڈیجیٹل حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ کیونکہ ریاست کا کام اپنے شہریوں کو بلا تعصب و امتیاز سہولیات کی فراہمی ہے لہذا آخر میں میرا ارباب اختیار سے سوال ہے کہ جن علاقوں میں انٹرنیٹ کی سہولیات ہی میسر نہیں یا تعطل کا شکار ہیں تو وہاں حکومت شہریوں کو صحت اور تعلیم کی آن لائن سہولیات کیسے فراہم کرسکتی ہے؟

ڈاکٹر ایس الطاف حسین

ریکٹر، دادابھائی انسٹی ٹیوٹ آف ہائر ایجوکیشن، کراچی

دنیا کو اس وقت جس عفریت کا سامنا ہے، کچھ کہا نہیں جاسکتا کہ یہ کب تک اپنے پر پھیلاے رکھے گا۔جب کہ حقیقت یہ ہے کہ قریبا 186 ممالک کے 1.2 ارب سے زائد اسکول اور کالج جانے والے بچوں کی تعلیم بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ان حالات کے پیش نظر پچھلے دو سال کے اندر روایتی ذریعہ تعلیم میں بڑی تبدیلی دیکھنے میں آئی ہے۔ وہ یہ کہ حصول تعلیم کے لئے طلباء کا کسی کلاس روم میں ہونا ضروری نہیں، انٹرنیٹ اور ٹیکنالوجی کے عروج کے اس دور میں آپ جب اور جہاں چاہیں آن لائن ایجوکیشن سے مستفید ہو سکتے ہیں بس ایک کمپیوٹر تک آپ کی رسائی ضروری ہے ۔

اگرچہ اب بھی بعض حلقوں میں یہ باور کرنا مشکل ہے کہ آن لائن ایجوکیشن روایتی ذریعہ تعلیم کی جگہ لے لے گی لیکن وہ انٹرنیٹ کی لا محدود وسعتوں سے نا آشنا ہیں۔پاکستان یا دنیا میں کہیں بھی آن لائن ایجوکیشن کے حصول میں مشکلات پیش آ سکتی ہیں جن میں سر فہرست ٹیکنیکل معاملات ہیں جیسے نیٹ کا خراب ہونا، رابطہ منقطع ہو جانا یا کمپیوٹر کا یکایک بند ہو جانا۔ یہ تمام مشکلات ناگزیر ہیں اور اس کا بہترین حل یہ ہے کہ اساتذہ بیک اپ ریکارڈنگ رکھیں۔طلباء کا ایک دیئے گئے وقت تک توجہ کو مرکوز نہ رکھ پانا بھی ایک مشکل ہے۔ اس سلسلے میں طلباء اساتذہ کی مدد سے ایسے اوقات کا انتخاب کریں جس میں ان کی توجہ زیادہ سے زیادہ مرکوز رہے۔

آن لائن ایجوکیشن میں اپنے حوصلے اور مورال کو بلند رکھنا بھی ازحد ضروری ہے۔طالب علم اگر اپنے اہداف کا واضح تعین کرے تو یہ چنداں مشکل نہیں۔روایتی ذریعہ تعلیم سے پڑھے جانے والے کورسز سے آن لائن تعلیم پر آنے سے کورسز کی ضروریات میں تبدیلی سے آگاہی بھی ضروری ہے۔افراد کے درمیان روابط کو ویڈیو کانفرنسنگ، زوم اور اسکائپ کے ذریعے بہتر کیا جا سکتا ہے۔یاد رکھیں کہ آنے والا دور آن لائن ذریعہ تعلیم کا دور ہے اور اس اپنانا ناگزیر ہے ۔باب سن ریسرچ گروپ کے تازہ ترین تجزیے کے مطابق امریکا میں 30 فیصد سے زائد طلباء فاصلاتی نظام تعلیم کے تحت پڑھاے جانے والے ہائ ایجوکیشن کورسز سے مستفید ہو رہے ہیں۔

امان اللہ پنجوانی

بانی چیئرمین، پنجوانی انسٹی ٹیوٹ آف بزنس اسٹڈیز اینڈ ٹیکنالوجی، کراچی

عالمی وباء کورونا وائرس سے پیدا ہونے والی صورت حال نے دیگر شعبوں کے ساتھ تعلیم کے شعبے کو بھی متاثر کیا اس وبا سے بچاؤ کے لیے کئے جانے والے اقدامات میں تمام تعلیمی ادارے بند کردئیے گئے تھے بعد ازاں پاکستان میں اعلی تعلیم کے معاملات دیکھنے والے ادارے ہائر ایجوکیشن کمیشن نے تمام نجی و سرکاری اداروں سے کہا کہ وہ متبادل طریقہ تعلیم پر کام کریں طلبہ کو تعلیم کے حرج سے بچانے کے لئے آن لائن کلاسز کا آغاز کیا گیا۔

ویسے تو آن لائن تعلیم کوئی نئی بات نہیں اس طرح کے طریقہ تعلیم کے ذریعے دنیا بھر میں بہت سی جامعات پڑھا رہی ہیں لیکن پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں جہاں پہلے ہی تعلیم کے شعبے میں وسائل اور سہولتوں کا فقدان ہے روایتی تعلیم سے آن لائن طریقہ تعلیم کی طرف اس ڈیجیٹل ہجرت نے سب کو مشکلات سے دوچار کیا ۔کیوں کہ پاکستان میں ہر طالب علم کو انٹرنیٹ کی سہولت میسر نہ تھی چھوٹے شہروں دور دراز کے پسماندہ اور قبائلی علاقوں کے طلبہ کے لئے یہ ایک دشوار صورت ہے کہ وہ باقاعدگی سے آن لائن کلاس لیں۔

اس طرح ملک کے بہت سے علاقوں میں بجلی کی عدم دستیابی اور طویل لوڈشیڈنگ کی وجہ سے طلبہ کا ان لائن کلاسز مشکل ہے بہت سے طلبہ ایسے بھی ہیں جو اسمارٹ فون لیپ ٹاپ کمپیوٹر تک کی رسائی نہیں رکھتے۔اس طریقہ تعلیم کی وجہ سے والدین بھی مشکلات کا شکار ہیں کیونکہ آن لائن تعلیم کے لوازمات کو پورا کرنا مشکل ہوتا ہے ہر بچے کے لیے لیپ ٹاپ یا کمپیوٹر لینا ۔ والدین کو شکایت ہے کہ بچوں کو آن لائن کلاس کیلئے اپنے موبائل دیں تو بچے ویڈیو گیم کھیلنا شروع کردیتے ہیں اور پڑھائی میں دلچسپی نہیں لیتے ہیں۔

آن لائن کلاس میں بچے بولنے سے باز نہیں آتے اس لئے استاد کو سب بچوں کے مائیک بند کرنے پڑتے ہیں جس سے مزید مسائل سامنے آتے ہیں۔ ٹیچر کون سا صفحہ پڑھ رہا ہے اور بچے کو کون سا صفحہ کھول کر بیٹھے ہیں پتہ ہی نہیں چلتا۔بچوں کی نفسیاتی علاج کی ماہر ایسوسی ایٹ پروفیسر عاصمہ یوسف کے مطابق آن لائن کلاس سے چھوٹے بچوں کی چیزوں کو سیکھنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے بچہ حقیقی کلاس میں زیادہ سیکھتا ہے اور ائن لائن کلاس کی حقیقی نتائج نہیں دے سکتی کیونکہ اس بچے نے موبائل کی اسکرین کو تفریح کے طور پر دیکھا ہوتا ہے اب اس سے اپنے استاد کو دیکھنا اور کلاس لینا بچے کے لئے غیر متوقع ہوتا ہے۔

اس لیے دماغ میں کنفیوژن زیادہ رہتی ہے جس سے سیکھنے کا عمل متاثر ہوتا ہے۔بہت سے اساتذہ کو بھی آن لائن طریقہ تعلیم میں مشکلات کا سامنا ہے اساتذہ شکایت کرتے ہیں کہ طلبہ بظاہر آن لائن ہوتے ہیں لیکن درحقیقت وہ کلاس میں نہیں ہوتے بلکہ دوسرے مشاغل میں مصروف ہو جاتے ہیں۔آن لائن کلاس میں نظم و ضبط قائم رکھنےاور طلبہ کو متوجہ رکھنے میں استاد کو مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ یہ ایک دوسرے کے سامنے موجود نہیں ہوتے کبھی انٹرنیٹ میں بار بار تعطل پیدا ہوتا ہے۔

آن لائن کلاسز میں بعض طلبہ کا رویہ غیر سنجیدہ اور غیر ذمہ دارانہ ہوتا ہے کیونکہ آن لائن کلاس میں طلباء مکمل طور پر استاد کی نظروں میں نہیں ہوتے لہٰذا بعض اوقات وہ خود توجہ سے نہیں پڑھتے اور گاہے دیگر طلباء کے لیے بھی مشکلات کا باعث بنتے ہیں اور ساتھ کلاس کا ماحول بھی خراب کرتے ہیں۔انٹرنیٹ کی ناقص رفتار کی وجہ سے آن لائن لیکچرز کے دوران آواز صحیح سے نہیں آنے کی شکایت عام ہے استاد کو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ ان کے طلبہ صحیح سے سن بھی رہے ہیں یا نہیں۔

ان تیکنیکی خرابیوں کی وجہ سے لیکچر سمجھ نہیں آتے سوال و جواب میں بھی اسی طرح کے مسائل آتے ہیں۔ اس طرح کلاس کا ماحول نہیں بن پاتا جو حقیقی کلاس کا ماحول ہوتا ہے طلباء اس طریقہ تعلیم سے ناخوش نظر آتے ہیں کہ یہ ہماری تعلیمی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے ناکافی ہے۔ہمارے ادارےپنجوانی انسٹیٹیوٹ آف بزنس اسٹڈیز اینڈ ٹیکنالوجی نے اس مسئلہ کا حل یہ نکالا ہے کہ ایل ایم ایس سافٹ ویئر کے ذریعے اپنے ریکارڈ شدہ لیکچرز طلبہ سے شیئر کریں کیونکہ آن لائن کلاس کا وقت فکس ہوتا ہے۔

اس میں بعض اوقات طالب علم اگر کسی وجہ سے موجود نہ ہو تو وہ یہ ریکارڈڈ لیکچرز کسی وقت بھی سن لیتے ہیں اور اس طرح ہمارا ادارہ اپنے طلبہ کو سہولت دیتا ہے اس کی بنیاد پر سیکھنے کا عمل کسی حد تک پورا ہو جاتا ہے لیکن مکمل طور پر سیکھنے کا عمل روایتی کلاس میں ہی انجام پاتا ہے۔ آن لائن کلاس میں کسی موضوع سے متعلق کچھ معلومات شئیر کی جا سکتی ہیں مگر مکمل تربیتی کورس کی تعلیم و سیکھنے کا عمل روایتی کلاس روم میں ہی مکمل ہوسکتے ہیں کیونکہ کلاس میں مختلف طبقہ فکر کے طلبہ ہوتے ہیں جب سوال و جواب کے سیشن ہوتا ہے تو اس میں بھی طلبا کو سیکھنے کا بڑا اچھا موقع ملتا ہے۔جو آن لائن کلاسز میں ممکن ہی نہیں۔

لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہمارا روایتی طریقہ تعلیم کا نظام زیادہ موثر جو کبھی بھی ختم نہیں ہو سکتا۔

رفیعہ جاوید

رجسٹرار، پرائیویٹ اسکولز، حکومت سندھ

میں سمجھتی ہوں کہ کرونا وائرس کی وبا میں جب تعلیمی ادارے بند کئے گئے تو تعلیمی نقصانات کو کم سے کم کرنے کے لئے دنیا بھر میںآن لائن تعلیم کا آغاز کیا گیا ۔ ترقی یافتہ ممالک میں تو یہ نظام کامیابی کے ساتھ جاری رہا ہے، لیکن پاکستان اور اس جیسے ترقی پذیر ممالک میں آن لائن تعلیم کی فراہمی میں مختلف چیلنجز کا سامنا رہا ہے ۔

پاکستان میں وہ طلبہ و طالبات جو اپر کلاس یا اپر مڈل کلاس گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں ان کے پاس یہ وسائل موجود ہیں کہ آن لائن کلاسز کے لئے درکار تمام لوازمات تک رسائی حاصل کرسکیں اور اس سے مستفید ہو سکیں لہذا ایلیٹ اسکول یا پوش ایریاز میں قائم اسکولوں کے پاس کیونکہ آن لائن کلاسز کے لئے پورا میکینزم موجود ہے اس لئے یہ اسکولز اپنے طلبہ کو زوم اور گوگل کلاس روم کے ذریعے مکمل فزیکل کلاسز کا نعم البدل دے رہے ہیں۔ لیکن لوئر مڈل کلاس، لوئر کلاس یا غریب گھرانوں سے تلعق رکھنے والے یا گاوں دیہاتوں اور بڑے شہروں کے مضافاتی علاقوں میں رہنے والے طلبہ و طالبات کو انٹرنیٹ کی غیر موجودگی ، کمپیوٹر کی عدم دستیابی، لوڈ شیڈنگ ، آن لائن کلاسز کو آسانی سے چلانے کے لیے تکنیکی تربیت یافتہ اساتذہ کی کمی جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، کیونکہ یہ طلبہ و طالبات وسائل کی کمی کے باعث یہ سہولیات حاصل کرنے کی طاقت نہیں رکھتے اور لوڈشیڈنگ کے دوران جنریٹر یا سولر سسٹم کا حصول اور استعمال ان کی پہنچ سے باہر ہے ناہی ان علاقوں میں قائم اسکولوں کے پاس آن لائن کلاسز کا میکینزم موجود ہے جس کے باعث تعلیمی اداروں کی بندش کے دوران آن لائن کلاسز یا تعلیم کے فوائد سے یہ طلبہ و طالبات کافی حد تک نحروم رہے ہیں۔

اسکول کی بندش کے دوران طلبہ کا جو تعلیمی نقصان ہوا ہے اسے پورا کرنے کی ضرورت ہے ، جس کے لئے تعلیمی اوقات کو بڑھایا جانا چاہئے اس کے ساتھ ساتھ ہفتہ میں تعلیمی اداروں میں صرف ایک تعطیل کی جائے اور چھ دن پڑھائی کی جائے۔

طالب کریم

صدر انسٹی ٹیوٹ آف بزنس مینجمنٹ، کراچی

کوووڈ کے نتیجے میں لگاے گئے لاک ڈاؤن نے پاکستان کے تعلیمی اداروں کو مجبور کیا کہ وہ اپنی تدریسی سرگرمیاں آن لائن مکمّل کریں.۔ تعلیمی اداروں بلخصوص جامعات نے اپنے ڈیجیٹل انفراسٹرکچر کو مضبوط بنانے کا ارادہ کیا۔ سینئر اساتذہ جو ڈیجیٹل میڈیا سے زیادہ واقف نہیں تھے اور انٹرنیٹ کے استعمال کے بارے میں بصیرت نہیں رکھتے تھے انہیں ریفریشر کورس کرنے کی ضرورت پیش آئی۔ ایک بڑا چیلنج یہ تھا کہ فزیکل کلاسز کے شیڈول کو آن لائن سیشن میں تبدیل کیا جائے جو کہ بغیر کسی رکاوٹ کے اس وقت موجود تمام طالب علموں تک سٹریم ہو سکے۔ کچھ اساتذہ نے یوٹیوب اور واٹس ایپ کا استعمال کیا۔

انہوں نے لیکچر ریکارڈ کرکے اپنے یوٹیوب چینلز پر شیئرکرے یا اپنے طالب علموں کو واٹس ایپ گروپس کے ذریعے لنکس بھیجے تاکہ تدریسی عمل میں کوئی رکاوٹ پیش نہ ہو- ایک اور مسئلہ اساتذہ کا ہر طالب علم پر توجہ دینا تھا۔آ ن کیمپس کلاسوں کے دوران، اساتذہ تمام طلباء کے ساتھ بات چیت کر سکتے ہیں۔ تاہم آن لائن ماحول میں اساتذہ کے ساتھ طالب علم کی بات چیت کا دورانیہ نہ صرف محدود ہوتا ہے بلکہ استاد ہر طالب علم پر اتنی توجّہ نہیں دے سکتے جو وہ آ ن کیمپس کلاسوں میں دیتے ہیں -آن لائن تعلیم کو شروع میں اپنانا مشکل تھا۔ طلباء اور اساتذہ کو ایک نے مشن کیساتھ سیکھنے اور پڑھانے کے اس نئے طریقے کو اپنانا پڑا۔

طلباء کے لیے ایک چیلنج ان کی آن لائن کلاسز پر مرکوز رہنا تھا۔ بعض اوقات استاد اپنی ویڈیو بند کر دیتے اور طلباء کو استاد کی صرف آواز کا سہارا لینا پڑتا۔ انٹرنیٹ منقطع اور رابطے کے مسائل ایک اور مسئلہ تھا جس کا سب کو سامنا تھا۔ یہ بھی دیکھا گیا کہ بہت سے اسکولوں اور کالجوں میں انٹرنیٹ کے ذریعے تدریسی عمل کو مکمّل کرنے کے وافر ذرائع موجود نہیں تھے۔ کووڈ نے تعلیمی اداروں کو طلباء اور اساتذہ کو جوڑنے کے لیے لرننگ مینجمنٹ سسٹم بنانے اور نافذ کرنے پر مجبور کیا۔

امتحانات کے گریڈنگ سسٹم پر بھی نظر ثانی کی گئی۔ اساتذہ عام طور پر طلباء کو کلاس میں ان کی فعال شرکت کی بنیاد پر گریڈ دیتے ہیں۔ اس نظام کو تبدیل کر دیا گیا کیونکہ آن لائن کلاس لینے کے دوران تمام طلباء اسی جوش کے ساتھ حصہ لینے کے قابل نہیں تھے۔ امتحانات کے دوران، نقل روکنے کیلیے مزید تصوراتی سوالات اور کیس اسٹڈیز پر مبنی سوالات پوچھے گئے۔ اس سے طلباء کو اپنی تصوّراتی اور علمی مہارت کو استعمال کرنے کا موقع ملا. کووڈ کی وجہ سے جامعات،اسکول اور کالجوں کو ڈیجیٹل دنیا میں کام کرنے کا موقع ملا. ''ورک فرام ہوم'' کے اس نئے تصوّر نے ہماری روزمرہ کی زندگی کو مکمّل طور پر بدل کر رکھ دیا۔

جہاں آج کی نئی نسل کو انٹرنیٹ اور ڈیجیٹل میڈیا کے بارے میں تفصیلاً معلومات ہیں وہیں سینئر اساتذہ کو انٹرنیٹ اور اس سے منسلک ویڈیو سافٹ ویئر اور پروگرام سے روشناس ہونے میں وقت لگا. بعض گھرانوں میں مالی وسائل کی کمی کی وجہ سے لیپ ٹاپ یا انٹرنیٹ کنکشن نہ تھا جس کی وجہ سے طلبہ کو آن لائن کلاسز میں شرکت کرنے میں دشواری کا سامنا ہوا. یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ جو طلبہ مشترکہ خاندانی نظام میں رہ رہے تھے وہاں ایک وقت میں مختلف طلبہ کو لیپ ٹاپ، ڈیسک ٹاپ، موبائل فون اور انٹرنیٹ کنکشن کی ضرورت ہوتی تھی.

انجینئر راؤ جواد

آن لائن ایجوکیشن کی فراہمی میں سے سب سے بڑا مسئلہ انٹرنیٹ کی پبلک ایکسیس کا ہے۔ وولڈ بنک کے 2019 کے اعداد و شمار مطابق پاکستان کی آبادی کے صرف 17فیصد لوگوں تک انٹرنیٹ کی رسائی ہے۔آن لائن ٹیچنگ سیشنز کیلئے ہائی سپیڈ اور بلا تعطل انٹرنیٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر کہا جائے کہ دیہات کے طالب علم سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں تو غلط نہ ہوگا۔ کیوںکہ پاکستان کے زیادہ تر دیہاتوں میں نا تو موبائل کمپنیز کا ہائی سپیڈ تھری جی اور فور جی سروس میسر ہے اور نا ہی پی ٹی سی ایل انٹرنیٹ کی فراہمی ہے۔

زیادہ تر تعلیمی ادارے زوم اور دوسرے سافٹ وئیرز کے فری version استعمال کرتے ہیں۔ جس کے استعمال میں ٹائم کی limitation ہوتی ہے۔ جو on going کلاس میں انٹرپشن کا باعث بنتا ہے۔بین الاقومی سطح کی اگر بات کی جائے تو یونیورسٹیز کو پہلے ہی اس کا اچھا خاصا تجربہ ہے وہ لوگ بشمول ڈیجیٹل لائبریریز کے ان لائن کورس پروگرامز عرصہ دراز سے چلا رہے ہیں۔لیکن پاکستان کی طرح باقی ممالک جو ٹیکنالوجی میں اتنا آگے نہیں۔ چاہیے تو یہ تھا کہ حکومتی سطح پر ٹیکنیکل ماہرین پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی جاتی جس میں یونیورسٹی اساتذہ، ایچ ای سی ممبران اور کالج اساتذہ شامل ہوتے۔ جو اس مسئلے کا حل نکالتے۔

ٹیچرز کو آن لائن گوگل زوم اور دوسرے سافٹ وئیرز کے استعمال کی ٹریننگ کروائی جاتی۔آن لائن میٹنگز اور آن لائن کلاس روم سروسز دینے والی کمپنیز سے قومی حکومتی سطح پر معاہدات کیے جاتے۔ تاکہ time limit کی وجہ سے کلاس لیکچر ڈراپ نہ ہو۔ انٹرنیٹ کی فراہمی کےلیےٹیلی کام سیکٹر کی پرائیویٹ کمپنیز سے اسٹوڈنٹس کو سستا انٹرنیٹ فراہم کرنے کے معاہدات کیے جاتے،یا پھر پی ٹی سی ایل کے ذریعے گاؤں دیہات میں اسٹوڈنٹس کے لیے مختص وائی فائی سپاٹس بنائے جاتے۔ جو گاوں کے رقبے کے حساب سے کوریج کرتے۔ ترقی پذیر ممالک میں آن لائن کلاسز کے علاوہ، آن لائن امتحانات، ہوم ورک، اسائنمنٹس کیلئے بھی کوئی نظام نہیں ہے۔

یہی مسئلہ پاکستان کو بھی درپیش ہے۔ اگر حکومت چاہتی تو حکمت عملی کے تحت اس کا موثر حل نکالا جا سکتا تھا۔: آن لائن ایجوکیشن کی وجہ سے انٹرمیڈیٹ کے طلباء کے امتحانات بھی متاثر ہوئے ہیں۔ گورنمنٹ نے پڑھانے کا صرف پالیسی کی حد تو آن لائن کلاسز انعقاد کی اجازت دے دی لیکن امتحانات کے متعلق کوئی پالیسی وضع نہ کی جاسکی۔

ہومر جان بلوچ:۔1. بیشتر اداروں سے وابستہ اساتذہ آن لائن تدریس کے فن سے ناآشنا ہیں. ان اساتذہ میں بھی بہت سے ایسے دوست ہیں جو آج بھی کمپیوٹر، موبائل یا لیپ ٹاپ کا استعمال اور ٹیکنالوجی صرف واجبی حد تک واقفیت رکھتے ہیں. اس حوالے سے ان کی بنیادی تربیت ناگزیر ہے.

2. چھوٹے شہروں اور دیہی علاقوں سے تعلق رکھنے والے طلباء کے پاس سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں. اکثر علاقوں میں کم از کم 8 سے 12 گھنٹے لوڈشیڈنگ ہوتی تو کہیں موبائل فون کے سگنلز تک ٹھیک سے نہیں آتے. مجھے خود پڑھاتے وقت اسی دشواری کا سامنا کرنا پڑا کہ کبھی میری طرف بجلی یا انٹرنیٹ نہیں تو کہیں دوسری جانب.

3. آن لائن تعلیم میں استعمال ہونے والے کمپیوٹر، موبائل یا لیپ ٹاپ کئی والدین یا طلباء کی قوت خرید سے باہر ہیں. گزشتہ دور حکومت میں وزیراعظم اسکیم کے تحت بہت سے طلباء و طالبات میں مفت لیپ ٹاپ تقسیم کیے گئے تھے لیکن موجودہ دور میں ایسا نہیں ہوا. میری ناقص عقل کے مطابق موجودہ حکومت اگر چاہتی تو کرونا کی وبا کے دوران آن لائن کلاسز کے لیے طلباء کو یہ سہولتیں فراہم کر سکتی تھی.

4. آن لائن نظام میں اکثر اساتذہ اپنی سہولت کے اوقات میں کلاسز کا انعقاد کرتے ہیں جس کے سبب کئی طلباء و طالبات مختلف وجوہات کی بناء پر ان کلاسز میں شرکت نہیں کر پاتے.

5. آن لائن نظام کے حوالے سے کہیں مروجہ قوانین دیکھنے کو نہیں ملتے اور جو ہے جیسا ہے کہ بنیاد پر نظام چلایا جا رہا ہے. آن لائن امتحانات کا انعقاد اس تمام اداروں کے لیے کسی وبال جان سے کم نہیں.

ایک اور اہم پہلو بھی آپ کی اجازت سے گوش گزار کرنا چاہوں گا.

آن لائن تعلیم کے دوران سمسٹر کا دورانیہ بھی ہر صوبے اور تعلیمی ادارے میں مختلف رہا. کہیں جلد امتحانات کا انعقاد کیا گیا تو کہیں انتہائی تاخیر سے. گزشتہ برس ایک آن لائن کلاس میں میری ایک اسٹوڈنٹ نے ایسا ہی مسئلہ شیئر کیا کہ اس کی بہن کراچی کے کسی بہتر تعلیمی ادارے میں داخلہ لینا چاہتی تھی لیکن اس کے اپنے ادارے کے فائنل سمسٹر کے امتحانات کا تاریخ تک واضح نہیں تھی. یعنی بعض اداروں نے داخلوں کا اس وقت آغاز کیا جب کئی اداروں میں آخری سمسٹرز جاری تھے۔

لہٰذا کئی طلباء و طالبات کو مزید چھ ماہ انتظار کے بعد کسی دوسرے ادارے میں داخلہ نصیب ہوا. اس حوالے سے ضروری تھا کہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن اور ملک بھی کی تمام یونیورسٹیاں داخلہ اور امتحانات کے حوالے سے کسی یکساں پالیسی کا اجراء کرتیں۔

معین الدین معین:۔ہمارے معاشرے میں آن لائن تدریس کا مطلب واضح طور پر طبقاتی تقسیم کو بڑھانا ہے۔ انٹرنیٹ تو درکنار شہری مضافاتی علاقوں میں سرکاری اسکولوں میں پڑھنے والے بچے بجلی کی مسلسل فراہمی سے بھی محروم ہیں۔ اس صورتحال میں گائوں دیہات کا تو ذکر ہی کیا۔ اور عمدہ معیار کے موبائل، کمپیوٹرز، ہیڈ فون آبادی کی اکثریت کو میسر نہیں۔

مزید یہ کہ آن لائن تدریس اس خلا کو پرنہ کرسکا جو اسکول میں نظم و ضبط، غیر نصابی سرگرمیوں اور تعلیم کے ساتھ تربیت کی صورت میں طلبہ کی عملی زندگی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔

تسلیم نیازی:۔کورونا سے ٹیچرز کو سکون اور والدین کے لیے مشکلات درپیش ہیں، اساتذہ خوب کام کروارہے ہیں تاکہ والدین یہ شکایت نہ کرسکیں کہ پڑھاتے نہیں، والدین بالخصوص ورک فرام ہوم کرنے والوں پر دباو بڑھ گیا ہے، آن کلاسز اور آفس ورک ایک ساتھ manage کرنا ہوتا ہے،کلاس ورک بھی ہوم ورک بن گیا ہے، ٹیچر تو آن لائن کلاس لے کر فارغ ہوجاتی ہیں جبکہ والدین کو بچے کو کام کروانا، سمجھانا پڑھنا پڑھتا ہے۔

ملک رمضان اسراء:۔میرے خیال میں آن لائن ذریعہ تعلیم پاکستان جیسے ملک میں کسی طالب علم کی ترجیح نہیں کیونکہ پاکستان ڈیجیٹل ورلڈ کی رینکنگ میں عالمی دنیا سے بہت پیچھے ہے لیکن موجودہ حالات کے اعتبار سے آن لائن ذریعہ تعلیم وقت کی اشد ضرورت ہے مگر بدقسمتی یہ ہے کہ اس کو حکومتی سطح پر بھی کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی جو انتہائی افسوس ناک امر ہے۔ آپ وزیر تعلیم کے بیانات اور عملی کارکردگی دیکھ لیں ان میں کھلا تضاد نظر آتا ہے۔

موصوف خود تو تعلیمی اداروں بارے کورونا وبا کے ڈر سے آن لائن میٹنگز کرتے ہیں لیکن دوسروں کے بچوں کیلئے کورونا وبا میں بھی ان کیمپس تعلیم پر بضد ہوتے ہیں جب کہ انہیں وقت کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے طلبہ اور اساتذہ کے مسائل کو مدنظر رکھ کر اسکا کوئی حل تلاش کرنا چاہئے اور سب سے اہم بات یہ کہ جدید دور میں جدید ترین ڈیجیٹل سسٹم متعارف کرائے جاتے تاکہ بہتری لائی جاسکے۔