پی ٹی آئی حکومت کی تین سالہ کارکردگی

September 21, 2021

بولٹن کی ڈائری۔۔ابرار حسین
پی ٹی آئی حکومت کی 3 سالہ کارکردگی ذرائع ابلاغ میں زیرِ بحث ہے، اب تو حکومت چوتھے سال میں داخل ہوچکی ہے، اسی تناظر میں صدر مملکت نے بھی حکومت کی کارکردگی کا احاطہ کیا، دلچسپ طور پر بعض کالم نگار اور اینکر پرسنز جو عمران خان اور پی ٹی آئی کی تعریفوں سے اخبارات کے صفحات سیاہ کر دیتے تھے اور مختلف چینلز پر ان کی تعریف و توصیف کرتے تھکتے نہیں تھے اب وہی ان پر تنقید کر رہے ہیں ۔ کچھ تو شاید دیانت داری سے یہ سمجھتے تھے کہ دو جماعتوں کو آزمانے کے بعد تیسری کو آزما لینے میں کیا حرج ہے تحریک انصاف کو بھی کم از کم ایک موقع دیا جائے لیکن بعض چڑھتے سورج کے پجاری تھے جن کو پنجاب میں ن لیگ کی کنٹونمنٹ الیکشن میں کامیابی سے یہ دکھائی دینے لگا ہے کہ شاید عمران خان کی کشتی ڈوبنے والی ہے ساتھ ہی ہمارا نام بھی نہ ڈوب جائے تو انہوں نے اپنے لکھنے کے انداز بدلنا شروع کر دئیے ہیں اور ٹی وی چینلز پر لب و لہجہ بدلنے لگا ہے حالانکہ مجموعی طور پر تو ان الیکشن میں پی ٹی آئی کامیاب ہوئی ہے ، اس سے پہلے حال ہی میں آزاد کشمیر میں بھی پی ٹی آئی نے ہی کامیابی حاصل کی اس لئے ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ عمران خان اگلا الیکشن جیت نہیں سکتے، یقینی طور پر حکومت کو اپنی ترجیحات بہتر بنانے پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے، جس طرح صحت کارڈ کے حوالے پاکستان کے علاوہ آزاد کشمیر میں بھی پیش رفت جاری ہے اور اب اقتدار کو نچلی سطح پر یعنی گراس روٹ لیول پر ڈلیور کرنے کے لئے بلدیاتی انتخابات جلد کرانے کے عندیے ظاہر کیے گئے ہیں اگر ایسا ہو جائے تو پھر پی ٹی آئی کی ساکھ بہتر بن سکتی ہے ساتھ ہی عمران خان کو پاکستان پیپلز پارٹی کی لیڈر شپ کے ساتھ بہترین ورکنگ ریلیشن شپ قائم کرنے پر بھی سنجیدگی سے سوچ بچار کی ضرورت ہے ،آزاد کشمیر میں پی پی پی نے الیکشن میں بہتر کارکردگی بھی دکھائی ہے اور آزاد کشمیر میں پی پی پی نے اپنے دور میں کافی اچھے کام بھی کیے پھر سب سیاسی لوگوں کو اپنا دشمن بنا لینا اور سب کے خلاف محاذ آرائی دانشمندانہ فعل نہیں، پاکستان پیپلز پارٹی کے پاس جو شہادتوں اور قربانیوں کا ورثہ ہے وہ پی ٹی آئی سمیت اور کسی بھی بڑی سیاسی جماعت کے پاس نہیں پھر میڈیا جو عمران خان کو اقتدار تک پہنچانے میں ممد و معاون رہا میڈیا کے متعلق ایک نئی اتھارٹی قائم کرنے کے معاملے میں ان کے تحفظات بھی دور کیے جائیں، میڈیا سے محاذ آرائی کے مشورے دینے والے کبھی بھی حکمران کے دوست نہیں ہوسکتے، تاہم میڈیا بھی اپنی صفوں میں غیر ذمہ دار اور صحافتی اقدار سے بے بہرہ اور ناواقف عناصر کو ہر گز جگہ نہ دے میڈیا نہ ہی بے جا کسی بھی حکومت کی خوشامد کرے اور نہ بلا ضرورت تنقید، ہمارا مذہب اور معاشرتی اقدار بھی میانہ روی کا درس دیتے ہیں ہمارے خیال میں اصل معاملہ یہ ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت میں ناکامیاں زیادہ ان لوگوں کو نظر آ رہی ہیں جو آزاد کشمیر میں پاکستان مسلم لیگ نواز کی پارٹی کی شکست کو ہضم نہیں کر پارہے، یا پھر جن کی پی ٹی آئی پاکستان اور کشمیر کی حکومت کے سیٹ اپ میں کوئی ایڈجسٹمنٹ نہیں ہو سکی، ایسے کالم نگاروں اور اینکر پرسنز کا معاملہ ایسا ہی ہے جیسا کہ ایک جانور جس نے درخت پر سے انگور کھانے کی کوشش میں ناکامی پر کہا تھا کہ انگور کھٹے ہیں ، حالانکہ انگور تو میٹھے تھے مگر اس جانور کی پہنچ سے دور تھے_ پی ٹی آئی حکومت کو ان کے انتخابی وعدے جیسا کہ نوکریوں کی فراہمی، نئے گھروں کی تعمیر اور بعض دیگر تبدیلیوں کے خوشنما وعدے تھے یہ ضرور یاد دلائے جائیں مگر ہماری تحریریں کسی کی خوش نودی کی خاطر نہ ہوں بلکہ غیر جانبداری سے سیاسی حالات و واقعات کے جائزے پیش کیے جانے چاہئیں، خاص طور پر مختلف ٹی وی چینلز کا تو اب یہ امیج بن چکا ہے کہ اکثر ناظرین کسی ایشو پر پروگرام دیکھے بغیر پہلے ہی کہہ دیتے ہیں کہ یہ اینکر پرسن فلاں جماعت یا لیڈر کے سپورٹر ہیں، اس لیے جہاں حکومت کو اپنی ترجیحات بہتر بنانے کی ضرورت ہے وہاں میڈیا کو بھی اپنا امیج بہتر بنانے اور اپنے پروگراموں کو معیاری اور غیر جانبدار بنانے پر غور و خوص کرنا چاہیے۔