بجلی کی قیمت کا نیا جھٹکا

September 23, 2021

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے توانائی کے حالیہ اجلاس میں پاور ڈویژن کی جانب سے یہ اعتراف کیا جانا کہ جولائی 2018سے اب تک نہ صرف بجلی کے نرخوں میں 40فیصد سے زائد اضافہ کیا جا چکا ہے بلکہ اس اضافے کے باوجود گردشی قرضہ کم ہونے کے بجائے دگنا ہوا ہے، اس امر کی واضح نشان دہی کرتا ہے کہ اس وقت ملک میں افراطِ زر کی شرح کس قدر بلند ہو چکی ہے۔ اجلاس میں بتایا گیا کہ بجلی کے بنیادی نرخ 2018میں 11روپے 72پیسے تھے جو اب 4روپے 72پیسے کے اضافے کے بعد 16روپے 44پیسے ہو چکے ہیں جبکہ کراچی سمیت ملک بھر میں اوور بلنگ اور اوور ریڈنگ کی شکایات کا معاملہ بھی کمیٹی اجلاس میں زیر بحث آیا اور اس معاملے کے حل کیلئے پاور سیکٹر پر زور دیا گیا۔ معلوم ہوتا ہے کہ بجلی کی قیمتوں میں اضافے کا سلسلہ رکنے والا نہیں بلکہ گردشی قرضے کو کنٹرول کرنے سمیت مختلف مدوں میں نرخوں میں مزید اضافہ کیا جائے گا۔ گزشتہ روز سینٹرل پاور ایجنسی کی نیپرا کو بجلی 2روپے 7پیسے مہنگی کرنے کی سمری بھجوانے سے اس بات پر مہر تصدیق ثبت بھی ہو گئی ہے۔ ذرائع کے مطابق بجلی کی قیمتوں میں اضافہ ماہانہ فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کی مد میں کیا جارہا ہے۔ سمری کی منظوری کی صورت میں صارفین پر 25ارب روپے کا بوجھ پڑے گا۔ ہر شعبے میں یہی صورتحال نظر آتی ہے۔ اشیائے ضروریہ سے لے کر دوائیں، بجلی، گیس، پیٹرول سمیت کوئی بھی ایسی شے نہیں جس کی قیمت میں استحکام پیدا کرنے کی کوئی کوشش حکومتی سطح پر محسوس کی گئی ہو۔ البتہ نئے نئے ٹیکس لگا کر سارا بوجھ عوام پر منتقل کرنے کی روش ضرور محسوس کی جا سکتی ہے۔ حکومتی اقتصادی ماہرین کو یہ نکتہ سمجھنا چاہئے کہ کوئی بھی معیشت افراطِ زر میں مسلسل اضافے سے مستحکم نہیں ہو سکتی اس کیلئے ٹھوس اور صنعت دوست معاشی پالیسیاں اپناتے ہوئے عام آدمی کے ذرائع آمدنی میں اضافہ بھی ضروری ہوتا ہے۔

اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998