ہماری پالیسیوں میں کیا کجی ہے؟

September 23, 2021

ہمارے میڈیا میں اِن دنوں کرکٹ کے حوالے سے خاصا شور سنائی دے رہا ہے اور بات کرکٹ سے عالمی سیاست یا سازش تک پہنچائی جا رہی ہے۔ ہمارے ایک وزیر نے جو اطلاعات جاری فرمائی ہیں، اس کے مطابق یہ وہ قیمت جو ’’ABSOLUTELY NOT‘‘کہنے کی وجہ سے چکانی پڑ رہی ہے۔ اب اگر حقائق کی روشنی میں اس تنوع کے دعوئوں کا پوسٹمارٹم کیا جائے تو سوائے ڈرامے بازی کے کچھ نہیں ملے گا۔

کسی بھی نااہل شخص سے جب صلاحیت کے فقدان کی وجہ سے اپنا اصل کام نہیں ہو پاتا تو پھر وہ ادھر اُدھر کی ہانکتے ہوئے دوسروں پر الزام تراشیاں شروع کرنے میں عافیت دیکھتا ہے۔ یوں اسے اپنی نااہلی کا جواز بنا کر پیش کرتا ہے لیکن بڑی بڑی ہانکنے سے کوئی انسان بڑا نہیں بن جاتا اور نہ اکڑ پھوں دکھانے سے طاقتور گردانا جا سکتا ہے۔ دوسروں کو چور چور کہنا بڑا آسان ہے مگر جب معاملہ خود پر آئے تو چوری ہی نہیں سینہ زوری سے بھی گریز نہیں کرتا۔اب ایک طرف بڑھکیں ہیں دوسری طرف فونوں کے رونے ہیں ۔کبھی کہا جاتا ہے کہ ہماری اتنی اچھائیوں کے باوجود بھارتی وزیر اعظم ہماری کال نہیں سنتا، کبھی اس دکھ کا اظہار کیا جاتا ہے کہ ہماری اتنی قربانیوں کے باوجود جوبائیڈن نے ہمیں کال تک نہیں کی۔ اگر بائیڈن نے ہمیں کال نہ کی تو ہمارے پاس دیگر بہت سے آپشنز بھی ہیں ۔وہ آپشنز کیا ہیں؟ ذرا ان کی بھی وضاحت ہو جاتی تو دل کا غبار شاید کم ہو جاتا۔سوچنے والی بات ہے کہ اگر ہر دو شخصیات سے خوش قسمتی کے ساتھ کالیں مل بھی جاتیں تو پاکستان کے کون سے مسائل ہیں جو آپ نے حل کروا لینے تھے؟ کیا ڈالر کی اڑان نے نیچے آ جانا تھا یا مہنگائی کے ہاتھوں غریب ٹیڑھی کمر سیدھی ہو جانی تھی ؟

چلیں ان ہر دو لیڈران سے کال نہیں مل سکی مگر نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جس کی شان میں کچھ ہی عرصہ قبل قصیدے پڑھے جا رہے تھے، انہوں نے اتنی دیر تک آپ کی باتیں سنیں جب تک آپ بولتے رہے لیکن پھر بھی بات نہ بن سکی تو اس پر کس کو مطعون کیا جائے، خود کو یا غیروں کو؟ہمیں اتنا غور ضرور کرنا چاہئے کہ دنیا آخر ہمی کو اس قدر سیکورٹی ٹھریٹ کیوں سمجھتی ہے؟ بشمول امریکہ مہذب دنیا ہمیں دوغلا کیوں خیال کرتی ہے؟ ہم دنیا کو مطمئن کرنے کیلئے کیا کیا جتن نہیں کر رہے اس کے باوجود ہمیں شدت پسندی کی مشکوک فہرست سے کیوں نہیں نکالا جا رہا ہے، دوسرے ممالک کی طرح ہمیں ایک نارمل ریاست کیوں نہیں مانا جاتا؟

آج ہم نیو یارک میں جاکر پوری دنیا بالخصوص امریکہ کو یہ کہہ رہے ہیں کہ اس نازک موڑ پر طالبان کو تنہا نہ چھوڑا جائے ان کے منجمد اثاثے بحال کیے جائیں تو لازمی بات ہے دنیا یا عالمی سپر پاور ہمیں طالبان کے پشت پناہ یا سہولت کار کی حیثیت سے دیکھے گی اور ہم سے یہ تقاضا کرے گی کہ طالبان افغان سوسائٹی میں جو بے اعتدالیاں کرتے ہیں، آئین، قانون، جمہوریت، انسانی حقوق کا خیال نہیں رکھتے، پاکستان ان کا ہمدرد اور پشت پناہ ہے تو انہیں ان زیادتیوں سے روکے۔ اس پر جب ہم مسکرا کر یہ کہتے ہیں کہ حضور طالبان پر ہمارا اتنا اثر نہیں ہے تو دنیا پر ہمارا کیا تاثر جائے گا؟ دنیا میں کیا کوئی ایک بھی ایسا ملک ہے جو بن لادن کو عالمی دہشت گرد نہ مانتا ہو اس کی حوالگی کے مسئلے پر نائن الیون کے بعد طالبان کی پہلی حکومت کا خاتمہ ہوا تھا بشمول سعودی عرب پوری مسلم ورلڈ بن لادن کی دہشت گردی پر یک زبان ہے مگر ہماری پارلیمنٹ کے فلور پر اسے شہید قرار دے دیا گیا، اُس کے ساتھ ہی جب ہم دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم دہشت گردی کے خلاف امریکہ اور عالمی برادری کے اتحادی ہیں تو دنیا ہماری دو عملی خیال نہیں کرے۔

جی چا رہا ہے یہاں اپنی خارجہ پالیسی کا پوسٹ مارٹم کرتے ہوئے انڈیا اور کشمیری قضیے پر بھی بات کی جائے مگر فی الحال اتنے پر اکتفا کرتے ہوئے اپنے ذمہ داران کی خدمت میں التماس ہے کہ اس ملک اور اس میں بسنے والے کروڑوں انسانوں پر رحم فرمائیں وہ عزت، سکون اور خوشحالی کی زندگی کے خواستگار ہیں وہ آپ کی ان نظریاتی تنگنائوں اور بے سمت اسٹریٹجی سے جان بخشی چاہتے ہیں، وہ دنیا میں امن و سلامتی اور ترقی کے آرزو مند ہیں وہ بشمول انڈیا تمام اقوام سے منافرت اور دشمنی کا خاتمہ چاہتے ہیں وہ جیو اور جینے دو کے اصول پر عمل پیرا ہونا چاہتے ہیں آپ ان کے دکھوں کا ادراک کرتے ہوئے، عوام کی جان بخشی فرما دیں۔