پاکستان ذیابطیس مریضوں کی تعداد کے حوالے سے تیسرے نمبر پر پہنچ گیا، انٹرنیشنل فیڈریشن

October 08, 2021


پاکستان ذیابطیس کے مریضوں کی تعداد کے حوالے سے دنیا میں تیسرے نمبر پر پہنچ گیا ہے جہاں اس مہلک مرض میں مبتلا افراد کی تعداد 3 کروڑ 30 لاکھ سے زائد ہوگئی ہے۔

اس بات کا انکشاف انٹرنیشنل ڈائیبیٹیز فیڈریشن کی ڈائیبیٹیز اٹلس کمیٹی کے ممبر اور معروف ماہر امراض ذیابطیس پروفیسر عبدالباسط نے جمعے کے روز ایک تقریب سے خطاب کے دوران انٹرنیشنل ڈائیبیٹیز فیڈریشن کے غیر سرکاری اعداد و شمار پیش کرتے ہوئے کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ انٹرنیشنل ڈائیبیٹیز فیڈریشن کی دسویں ڈائیبیٹیز اٹلس اگلے مہینے کی 14 تاریخ کو جاری کی جا رہی ہے، اور چونکہ اس کے اعداد و شمار ابھی سرکاری طور پر ظاہر نہیں کیے گئے لیکن بحیثیت اٹلس کمیٹی کے ممبر، ان کی معلومات کے مطابق پاکستان میں ذیابطیس کے مریضوں کی تعداد 3 کروڑ 30 لاکھ سے بڑھ چکی ہے۔

اس موقع پر ہیلتھ ریسرچ ایڈوائزری بورڈ اور مقامی دواساز کمپنی فارمیوو کے درمیان ڈائیبیٹیز رجسٹری آف پاکستان کے قیام کے حوالے سے مفاہمتی یادداشت پر دستخط کئے گئے، جس کے تحت پاکستان میں ذیابطیس میں مبتلا افراد کا ڈیٹا جمع کیا جائے گا تاکہ انہیں یکساں اور معیاری علاج کی سہولیات مہیا کی جاسکے اور ذیابطیس کے پھیلاؤ کو روکنے کی پالیسی بنائی جاسکے۔

اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے پروفیسر عبد الباسط جو کہ ہیلتھ ریسرچ ایڈوائزری بورڈ کے وائس چیئرمین بھی ہیں، کا کہنا تھا کہ پاکستان 2019 میں ذیابطیس کے مرض میں مبتلا افراد کے حوالے سے چوتھے نمبر پر تھا جہاں ذیابطیس میں مبتلا مریضوں کی تعداد ایک کروڑ 90 لاکھ تھی، لیکن گزشتہ دو سالوں کے اندر پاکستان میں ذیابطیس کے مریضوں میں ایک کروڑ 40 لاکھ افراد کا اضافہ ہوا ہے اور اب پاکستان چین اور بھارت کے بعد اس مرض میں مبتلا افراد کی تعداد کے حوالے سے تیسرے نمبر پر آ گیا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان میں تقریباً اتنی ہی تعداد میں افراد ذیابطیس کے مرض کے حوالے سے بارڈر لائن پر ہیں اور اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو پاکستان میں اس مہلک مرض میں مبتلا ہونے والے افراد کی تعداد ناقابل یقین حد تک بڑھ سکتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ امریکہ نے بہتر حکمت عملی سے کام لیتے ہوئے اپنے ملک میں ذیابطیس میں مبتلا افراد کی تعداد کو کنٹرول کیا ہے جبکہ پاکستان میں ذیابطیس کے مرض میں مبتلا افراد کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے جس کی شاید ایک وجہ کورونا وبا کے دوران گھروں سے باہر نہ نکلنا اور کسی بھی طرح کی جسمانی مشقت سے گریز کرنا بھی ہو سکتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں 8 سے 10 سال تک کی عمر کے تقریباً ایک کروڑ سے زائد بچے اس وقت موٹاپے کی وبا کا شکار ہیں، پاکستان میں اب ان تمام اسکولوں کو بند کر دیا جانا چاہئے جہاں پر کھیلوں کے میدان موجود نہیں ہیں، اسکولوں میں بچوں کو کم از کم ایک گھنٹے کے لئے کھیل کود میں مشغول رکھنا چاہیے تاکہ انہیں موٹاپے کی بیماری سے بچایا جا سکے۔

ڈائبٹیز رجسٹری آف پاکستان کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ یہ رجسٹری اب ذیابطیس میں مبتلا افراد جن میں پاؤں میں زخم ہونے والے افراد، ذیابطیس میں مبتلا حاملہ خواتین اور دیگر پیچیدگیوں میں مبتلا افراد کا ڈیٹا جمع کرے گی تاکہ اس مرض کی روک تھام کے ساتھ ساتھ یکساں اور معیاری علاج کی سہولتوں کو پورے ملک میں مہیا کیا جا سکے۔

اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے مقامی دواساز کمپنی کے مینیجنگ ڈائریکٹر ہارون قاسم کا کہنا تھا کہ ان کی کمپنی پاکستان میں طبی شعبے میں تحقیق کے لیے کوششیں کر رہی ہے، پاکستان میں مقامی ڈیٹا نہ ہونے کے برابر ہے جس کی وجہ سے ہمارے ملک میں بیماریوں سے بچاؤ کی پالیسیاں کامیاب نہیں ہوتی۔

معروف فارماسسٹ اور ڈپٹی چیف ایگزیکٹو آفیسر فارمیوو سید جمشید احمد کا اس موقع پر کہنا تھا کہ وہ پاکستانی اداروں کی طبی تحقیق کے سلسلے میں استعداد بڑھانے کے لیے کوششیں کر رہے ہیں کیونکہ پاکستان کا مستقبل صرف اور صرف ریسرچ اور تحقیق کے میدان میں آگے بڑھنے سے وابستہ ہے۔