نہیں ہے جہاں میں مثالِ محمدﷺ

October 17, 2021

اقصیٰ منوّر ملک، صادق آباد

ربیع الاوّل کے بابرکت مہینے میں وہ صبحِ تاباں روشن ہوئی، جس کا انتظار زمین و آسمان کو تھا۔ شمس و قمر، بحر و بر، جِن و انس جس کے منتظر تھے۔اِس صبح کا انتظار اُن یتیموں کو بھی تھا، جنھیں مال پر قبضہ کر کے در در کی ٹھوکریں کھانے کے لیے چھوڑ دیا جاتا۔ اُن مائوں کو تھا، جو مالِ میراث کی طرح بیٹوں کے حصّے میں آجاتیں۔ زندہ درگور کی جانے والی لڑکیاں بھی اس کے انتظار میں تھیں۔کفر و شرک کی نحوست سے تاریک فضائیں اس ہستی کی منتظر تھیں، جو اُنہیں توحید کی روشنیوں سے منوّر کردے۔ الغرض، جن کی آمد کا زمین کا ذرّہ ذرّہ منتظر تھا، وہ دعائے خلیلؑ، نویدِ مسیح ؑ، بشارتِ انبیاء علیہم السّلام اس صبح دنیا میں تشریف لائے۔

ہمارے پیارے نبی، شفیع المذنبین، ختم المرسلین، فخرِ دو عالمﷺ کی آمد پر کسریٰ کے محل کے کنگرے گر پڑے اور تِیرہ و تاریک جہاں روشن ہوگیا۔ حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا کی گود میں آئے، تو انوار و برکات کی بارش ہونے لگی کہ ہمارے آقاﷺ کا وجود ہی سراپا برکت تھا۔ اُن کا بچپن بھی قابلِ رشک کہ اللہ تعالیٰ نے ہر طرح کے لہو و لعب سے محفوظ رکھا۔ اگر کبھی کسی جاہلانہ عمل نے اپنی جانب متوجّہ کرنا بھی چاہا، تو فوراً عنایاتِ ربّانی اور حفاظتِ الٰہی نے آپؐ کو محفوظ رکھنے کا انتظام کیا۔

کفر و شرک، فحاشی، سود و قمار، قتل و غارت جیسی بے شمار برائیوں میں رہنے والے بھی آپؐ کی شرافت و پاک دامنی کے گواہ تھے۔ ہمارے پیارے نبی ، حضرت محمّد مصطفیٰ، احمدِ مجتبیٰ، محبوبِ کبریاﷺ نے کفر و شرک کی فضائوں میں نعرۂ توحید بلند کیا اور یہ پیغام تکالیف کی پروا کیے بغیر دنیا تک پہنچایا۔خلقِ خدا سے محبّت ایسی کہ توحید و رسالت کی دعوت قبول نہ کرنے والوں کے انجامِ بد سے اس قدر آزردہ ہوتے کہ آپؐ کا غمِ اُمّت دیکھ کر اللہ تعالیٰ نے فرمایا، ’’پس، اگر یہ لوگ اس بات پر ایمان نہ لائے، تو آپؐ ان کے پیچھے اسی رنج میں اپنی جان ہلاک کر ڈالیں گے۔‘‘ (سورۂ کہف6-)

جب سیّدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے آپﷺ کے اخلاق کے بارے میں دریافت کیا گیا، تو فرمایا، ترجمہ’’ آپؐ کا اخلاق قرآن تھا۔‘‘ خود اللہ تعالیٰ نے آپؐ کے مکارمِ اخلاق کی مدح و ثنا ان الفاظ میں فرمائی،’’اِنک لعلیٰ خُلق عظیم‘‘یعنی’’ اور بے شک آپؐ تو بڑے ہی خوش خُلق ہیں۔‘‘ آپﷺ کی صورتِ زیبا بیان کرنے کے لیے کسی کے پاس الفاظ ہی نہیں تھے کہ آپؐ کے حُسن و جمال کو کماحقہ بیان کرسکیں۔ کسی نے چاند سے تشبیہ دی، کسی نے سورج سے، مگر اُنھیں ہمارے آقا مدنیﷺ کے حُسن سے کیا نسبت؟

حضرت حسّان رضی اللہ عنہ نے ان الفاظ میں آپؐ کی تعریف کی،’’ واحسن منک لم ترقط عینی…واجمل منک لم تلد النساء…خلقت مبرءا من کل عیب…کانک قد خلقت کما تشاء۔‘‘ترجمہ’’ آپؐ سے زیادہ حَسین میری آنکھ نے ہرگز نہیں دیکھا…اور آپؐ سے زیادہ جمیل کسی عورت نے جَنا ہی نہیں…آپؐ ہر عیب سے پاک وصاف پیدا کیے گئے…گویا کہ آپؐ اِس طرح پیدا کیے گئے، جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چاہا۔‘‘آپؐ کی مدح و ثناء بیان کرنا کسی کے بس میں نہیں، جبھی تو کہا گیا،’’ یا صاحب الجمال و یا سیّد البشر…من و جھک المنیر لقد نور القمر…لایمکن الثناء کما کان حقہ…بعد از خدا بزرگ توئی قصّۂ مختصر۔‘‘یعنی’’اے صاحبِ جمال، اے انسانوں کے سردار! آپؐ کے نورانی چہرے سے تو چاند کو روشنی بخشی گئی ہے۔ جیسا کہ آپؐ کی تعریف کا حق ہے، ایسی تعریف ممکن ہی نہیں۔ بس، مختصر بات یہی ہے کہ خدائے ذوالجلال کے بعد آپؐ ہی سب سے بڑے ہیں۔‘‘

آپؐ کی صبر و بردباری اور درگزر کی صفات کا اندازہ ہی ممکن نہیں۔ اپنے ذاتی معاملے یا کسی دنیاوی سلسلے میں کبھی کسی سے انتقام نہیں لیا۔ اندازہ کیجیے، غزوۂ اُحد میں کفّار نے آپؐ کو شدید رنج پہنچایا، یہاں تک کہ آپؐ زخمی ہوگئے، مگر اس کے باوجود چہرۂ انور سے خون صاف کرتے ہوئے فرما رہے ہیں،’’اے اللہ! انہیں بخش دیجیے، کیوں کہ وہ نہیں جانتے۔‘‘ وادیٔ طائف میں اِس قدر پتھر برسائے گئے کہ جسمِ اطہر لہولہان ہوگیا۔ خون بہہ بہہ کر نعلینِ مبارک میں جم گیا، مگر ان کے لیے بددُعا تک نہ فرمائی کہ آپؐ ،رحمت اللعالمین ہیں۔

اللہ تعالیٰ کے حبیب و محبوبﷺ کا شجاعت و بہادری میں بھی کوئی مثل نہ تھا۔ حضرت ابنِ عُمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ’’مَیں نے رسول اللہﷺ سے زیادہ کوئی شجیع دیکھا، نہ مضبوط اور نہ ہی اخلاق کے اعتبار سے زیادہ پسندیدہ۔ ہم جنگِ بدر کے دن رسول اللہﷺ کی آڑ میں پناہ لیتے تھے اور اُس شخص کو بڑا شجیع سمجھا جاتا تھا، جو میدانِ جنگ میں آپؐ کے قریب رہتا کہ آپؐ دشمن کے قریب ہوتے تھے اور اُس شخص کو بھی دشمن کے قریب رہنا پڑتا۔‘‘(نشرالطیّب)جودوسخا میں بھی آپؐ اپنی مثال آپ تھے۔ خود فاقے سے ہوتے، لیکن عطائوں میں بادشاہوں کو شرمندہ کرتے۔ایک عورت نے آپؐ کو چادر پیش کی، جس کی اُس وقت آپؐ کو ضرورت بھی تھی۔

تاہم، اُسی وقت ایک شخص نے مانگ لی، تو اسے چادر مرحمت فرما دی۔ اگر کچھ نہ ہوتا، تو قرض لے کر ضرورت مندوں کی مدد فرماتے۔ کبھی کوئی چیز کل کے لیے اُٹھا کر نہ رکھتے کہ اپنے ربّ ہی پر بھروسا اور توکّل تھا۔ ایک مرتبہ کچھ دینار صدقہ کرنے کے باوجود بچ گئے، تو رات بھر نیند نہ آئی۔ارشاد فرمایا،’’مَیں یہ بات پسند نہیں کرتا کہ اُحد پہاڑ سونا بن جائے اور رات کو اس میں سے میرے پاس ایک دینار بھی باقی رہے، سوائے اُس کے جسے کسی واجب مطالبے کے لیے رکھ لوں۔‘‘

سیّدالانبیاءﷺ کی طبیعت میں حدرجہ انکساری تھی۔ حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ آپؐ سب سے بڑھ کر کشادہ دل تھے، بات کے سچّے، طبیعت کے نرم اور معاشرت میں نہایت کریم تھے۔ جو شخص آپؐ کی دعوت کرتا، اُس کی دعوت قبول کرتے، ہدیہ قبول فرماتے، گرچہ گائے یا بکری کا پایہ ہی ہوتا اور ہدیہ کا بدل بھی عطا فرماتے۔ آزاد، غلام، لونڈی، غریب سبھی کی دعوت منظور فرماتے۔ مدینے کی انتہائی آبادی پر بھی کوئی مریض ہوتا ،تو اُس کی بھی عیادت فرماتے۔کسی شخص کی بات بیچ میں نہ کاٹتے، تبسّم فرماتے اور خوش مزاجی میں سب سے بڑھ کر تھے۔

حضرت ابو امامہؓ فرماتے ہیں،’’رسول اللہﷺ ہمارے پاس تشریف لائے ،تو ہم آپؐ کے لیے کھڑے ہوگئے۔ اِس پر آپؐ نے فرمایا،’’ جس طرح عجمی لوگ ایک دوسرے کی تعظیم کے لیے کھڑے ہوتے ہیں، تم اس طرح کھڑے نہ ہوا کرو۔‘‘ اور فرمایا،’’مَیں اللہ کا بندہ ہوں، اسی طرح کھاتا ہوں، جس طرح تم کھاتے ہو، اسی طرح بیٹھتا ہوں، جس طرح بندے بیٹھتے ہیں۔‘‘ حضرت انسؓ فرماتے ہیں،’’مَیں نے دس برس رسول اللہﷺ کی خدمت کی، آپؐ نے کسی بات پر مجھے ملامت نہیں کی۔‘‘ایک مرتبہ ایک صحابیؓ، حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اُن کے ہاتھوں میں پرندے کے بچّے تھے،جو چیں چیں کررہے تھے۔ حضورﷺ نے پوچھا،’’ یہ بچّے کیسے ہیں؟

صحابی ؓنے عرض کیا،’’ یارسول اللہﷺ! مَیں ایک جھاڑی کے قریب سے گزرا، تو ان بچّوں کے رونے کی آواز آرہی تھی، مَیں انھیں نکال لایا، اُن کی ماں نے دیکھا ،تو بے تاب ہوکر سَر پر چکر کاٹنے لگی۔‘‘ حضورﷺ نے فرمایا،’’ فوراً جائو اور ان بچّوں کو وہیں رکھ آئو، جہاں سے لائے ہو۔‘‘ نبی کریمﷺ نے ہمیشہ خواتین سے اچھا سلوک کرنے کی ترغیب دی۔ لڑکیوں کی پیدائش باعثِ عار سمجھی جاتی تھی، آپﷺ نے لڑکیوں کی بہترین پرورش پر جنّت کی بشارت سُنائی۔ حجۃ الوداع میں خاص طور پر عورتوں سے متعلق وصیّت کی اور اُن کے ساتھ بھلائی کی تاکید کی۔

شرم و حیا کا یہ عالم تھا کہ پیارے نبیﷺ کے بارے میں فرمایا گیا کہ’’ آپؐ شرم و حیا میں مدینے کی کنواری لڑکیوں سے بھی بڑھ کر تھے۔‘‘آنحضرتﷺ دین کی تبلیغ فرماتے، صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تعلیم و تربیت فرماتے، غزوات میں شریک ہوتے، بیماروں کی عیادت، یتیموں، مسکینوں کی خبرگیری فرماتے، مگر اس سب کے باوجود ساری ساری رات عبادت میں گزار دیتے، حتیٰ کہ قدم مبارک پر ورم آجاتا۔ اُمّت کے لیے آہ و زاری فرماتے، رونے کی وجہ سے آپؐ کے سینے سے ایسی آواز نکلتی ،جیسے ہانڈی اُبل رہی ہو۔ نبی کریمﷺ اپنے اہلِ خانہ کا بے حد خیال رکھتے۔ آپؐ نے فرمایا،’’تم میں سب سے بہتر وہ ہے، جو اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ سب سے بہتر سلوک کرتا ہو اور مَیں اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ تم سب سے بہتر سلوک کرتا ہوں۔‘‘

حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں،’’ مَیں،نبی کریمﷺ کے پاس حریرہ لائی، جو مَیں نے آپؐ کے لیے تیار کیا تھا۔ اُمّ المومنین، حضرت سودہؓ بھی وہاں موجود تھیں، تو مَیں نے اُن سے کہا کہ’’ آپؓ بھی کھائیں‘‘، مگر اُنہوں نے انکار کردیا۔ مَیں نے کہا،’’ یا تو کھائو، ورنہ اسے تمہارے منہ پر مَل دوں گی۔‘‘ اُنہوں نے پھر انکار کیا، تو مَیں نے حریرہ میں ہاتھ بَھر کر اُن کے منہ پر مَل دیا۔ آپؐ یہ دیکھ کر ہنسے اور حضرت سودہؓ سے فرمایا،’’ تم بھی ان کے منہ پر مَل دو۔‘‘ اُنہوں نے حریرہ میرے منہ پر مَل دیا۔ آپؐ پھر ہنسنے لگے۔‘‘

اس واقعے سے بھی آپؐ کا حُسنِ سلوک اور ازواجِ مطہرات میں بے تکلّفی واضح ہے۔رحمت اللعالمینﷺ کا عفوو کرم بے مثال تھا اور فتحِ مکّہ کے موقعے پر تو شانِ عفووکرم کی گویا معراج تھی۔ وہ لوگ جنہوں نے ظلم و ستم کی انتہا کردی تھی، اکیس سال تک رسول اللہﷺ کو ستاتے رہے، ظلم کا کوئی ایسا حربہ نہ تھا، جو خدائے واحد کے پرستاروں پر نہ آزمایا ہو، حتیٰ کہ اُنھیں گھربار اور وطن چھوڑنے پر مجبور کردیا، وہ اب سَر جُھکائے کھڑے تھے، مکمل طور پر آپؐ کے رحم وکرم پر تھے۔

آپؐ کے ایک اشارے پر اُنہیں خاک و خون میں ملایا جاسکتا تھا، لیکن آپؐ نے فرمایا،’’ تمہیں معلوم ہے کہ تمہارے ساتھ کیا معاملہ کرنے والا ہوں؟‘‘ اُنہوں نے دبی زبان سے جواب دیا،’’اے صادق، اے امین…! تم ہمارے شریف بھائی اور شریف برادر زادے ہو، ہم نے تمہیں ہمیشہ رحم دِل پایا ہے۔‘‘آپؐ نے فرمایا،’’آج مَیں تم سے وہی کہتا ہوں، جو یوسف علیہ السّلام نے اپنے بھائیوں سے کہا تھا۔‘‘ آپؐ نے فرمایا،’’تم پر کچھ الزام نہیں، جاؤ، آج تم سب آزاد ہو۔‘‘

بلاشبہ، آپﷺ کی حیاتِ مبارکہ ہر قوم، ہر طبقے، ہر جماعت اور ہر ہر فرد کے لیے ہر زمانے میں بہترین نمونہ اور مثال ہے۔ اِسی لیے اللہ جل شانہ نے فرمایا، ترجمہ’’مسلمانو! تم کو اللہ کے رسولؐ کی پیروی کرنی بہتر ہے، یعنی ہر اُس شخص کو، جسے اللہ سے ملنے اور روزِ قیامت کے آنے کی اُمید ہو اور وہ اللہ کا ذکر کثرت سے کرتا ہو۔‘‘( سورۃ الاحزاب، آیت 21)