حُبِ رسول، عشقِ مصطفیٰﷺ اور نامُوسِ رسالتؐ کا تحفظ

October 19, 2021

پروفیسر حافظ حسن عامر

ساقی کوثر،شافع محشر،خاتم النبیین،حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی محبت ، شرطِ ایمان اور حاصلِ دین ہے۔ آپﷺ کی اطاعت اللہ کی اطاعت ہے۔ آپﷺ کی فرماںبرداری دنیا اور آخرت میں کامیابی کی ضمانت اور آپﷺ کی اتباع قربِ خداوندی کی دلیل ہے ۔آپ ﷺسے وابستگی سعادت اور خوش بختی کی علامت اور آپ ﷺکی پیروی رضائے الٰہی کا ذریعہ ہے ۔غرض سرکار دو عالم ﷺ کی محبت مومن کا وہ گوہرِ مقصود ہے کہ جس کے بغیر تکمیلِ ایمان ممکن نہیں ،ارشاد ربّ العزت ہے:’’اے نبی ﷺ کہہ دیجئے ،اگر تم حقیقت میں اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی اختیار کرو ۔ اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہاری خطائوں سے درگزر کرے گا۔ بے شک ،اللہ بڑامعاف کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے ‘‘۔(سورۂ آل عمران۳۱)

یقیناً رحمت عالم ﷺ کی محبت مومنوں کے قلوب میں اس طرح جاں گزیں کر دی گئی ہے کہ وہ اپنی جان ، مال ، عزت و آبرو اور ہر انسانی رشتے سے بڑھ کر آپ ﷺ کو محبوب رکھتے ہیں۔ قرآن گواہی دیتا ہے:’’ بلا شبہ، نبی ﷺ مومنوں پر اُن کی جانوں سے زیادہ حق رکھتے ہیں۔ ــ‘‘ (سورۃ الاحزاب )

نبی کریم ﷺ سے محبت ، عقیدت ،ادب واحترام کا وہ ابدی رشتہ ہے جو لافانی اور لازوال ہے کہ گردشِ زمانہ جس کی حرارت کو کم نہیں کر سکتی، شمع رسالت کے پروانے آج بھی اپنے نبی مکرم ﷺ کی عزت و ناموس پر اپنی جانیں قربان کرنے کے لیے بے تاب نظر آتے ہیں۔ تاریخ کے اوراق الٹ کر دیکھئے تو جاںنثارانِ رسول ﷺ کی محبت کی لازوال داستانیں بکھری پڑی ہیں ۔سرکار ﷺ کی جنبشِ آبرو پر جان نثار کرنے والے صحابہ ؓ نے تاریخ انسانیت کو سرفروشی ، جاں نثاری اور فداکاری کا وہ سبق دیا کہ کائناتِ عالم کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔

قریش مکّہ کے سفیر عروہ بن مسعود ثقفی نے صلح حدیبیہ کے موقع پر صحابہ کرامؓ کی رسول اللہﷺ سے والہانہ محبت کا عالم دیکھا تو ششدر رہ گیا، واپس جا کر اہلِ مکّہ سے کہا : ’’ میں نے قیصر و کسریٰ اور نجاشی کے دربار دیکھے ہیں مگر یہ عقیدت و ارفتگی کہیں نہیں دیکھی۔ محمدﷺ بات کرتے ہیں تو سناٹا چھا جاتا ہے ۔ کسی بات کا حکم دیتے ہیں ، تو بجاآوری کے لیے سب دوڑ پڑتے ہیں۔ فرطِ تعظیم سے کوئی شخص اُن کی طرف نظر بھر کے نہیں دیکھتا۔ وضو کرتے ہیں توجو پانی گرتا ہے، اُس پر خلقت ٹوٹ پڑتی ہے ،لعابِ دہن گرتا ہے تو عقیدت مند ہاتھوں ہاتھ لے لیتے ہیں اور چہرے اور ہاتھوں پر مل لیتے ہیں‘‘۔

غزوۂ اُحد کے موقع پر مشرکین نے رسول اقدس ﷺ کی طرف پیش قدمی کی ،وہ آپ ﷺ پر حملہ کرنا چاہتے تھے، آپﷺ نے فرمایا ؛’’کون ہے جو مجھ پر جان دیتا ہے؟‘‘ زیاد بن سکنؓ پانچ انصاری صحابہؓ کے ساتھ آگے بڑھے اور ہر ایک نے لڑتے لڑتے اپنی جان رسول اللہ ﷺ پر قربان کردی ۔ حضرت زیاد بن سکنؓ زخموں سے چور آنحضرتﷺ کے قدموں تک آنے کے لیے بے تاب تھے، رسالت مآب ﷺ نے حکم دیا،انہیں میرے قریب لایا جائے ۔ لوگ اُٹھا کر لائے، ابھی زندگی کی کچھ رمق باقی تھی، آنحضرت ﷺ کے قدمِ مبارک پر منہ رکھ دیا اور اسی حالت میں اپنی جان، جانِ آفریں کے سپرد کردی۔

اسی میں بنو دینار کی ایک خاتون صحابیہ کے والد، بھائی اور شوہر شہید ہوگئے پہلے باپ کی خبر ملی ،پھر بھائی اور پھر شوہر کی، وہ صحابیہ ہر مرتبہ یہی سوال کرتیں کہ اللہ کے رسولﷺ کیسے ہیں؟جب انہیں بتایا گیا کہ آپﷺ خیریت سے ہیں تو کہنے لگیں مجھے بتائو رسول اللہ ﷺ کہاں ہیں؟میں آپ ﷺ کا دیدار کرنا چاہتی ہوں، اُن صحابیہ ؓ نے جب روئے مبارک کو دیکھا تو بے اختیار پکار اُٹھیں ’’آپﷺ کے ہوتے ہوئے سب مصائب ہیچ ہیں‘‘۔

شیدایان رسولﷺ کو یہ تک گوارا نہ تھا کہ اُن کی جان کے عوض سرکار دو عالمﷺ کو ایک کانٹا بھی چبھ جائے، یہ ہی وہ مطلوب’’محبت‘‘ ہے ،جس کا اہلِ ایمان سے مطالبہ کیا گیا ہے جس طرح صحابۂ کرامؓ کا’’ایمان و اسلام‘‘ معتبر ہے اسی طرح رسول اکرمﷺ سے اُن کی ’’محبت وعقیدت‘‘ بھی اللہ کے نزدیک معتبر ہے۔ رسول اکرم ﷺ کے اس ارشادِ مبارک کا مقصد بھی یہی ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا: ’’ تم میں سے کوئی شخص اُس وقت تک کامل مومن نہیں ہو سکتا ، جب تک کہ میں اُس کے نزدیک اُس کے والدین،اُس کی اولاد اور تمام دنیا کے انسانوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جائوں‘‘۔(بخاری مسلم)

گویا ایک سچا مسلمان اور مخلص ایمان دار وہ ہے ، جو آنحضرت ﷺ کو ہر انسانی رشتے سے زیادہ عزیز رکھتا ہو۔ وہ اپنی ذات سے بڑھ کر سرکارِ دوعالم ﷺکو چاہتا ہو، ہر دنیاوی تعلق اُس کی نظر میں ہیچ ہو۔ وہ آپ ﷺ کے نام پر مرمٹنے اور اپنا سب کچھ لٹانے کو تیار ہو ،وہ اپنی ہر خواہش ، ہر تمنّا اور ہر آرزو کو سرکار دو عالم ﷺپر نچھاور کرنا چاہتا ہو، بلکہ اُس کے نزدیک زندگی کا سب سے قیمتی اثاثہ رسول ﷺ سے محبت ہو ۔

کلام اللہ میں جہاں رسول اللہﷺ کی نبوت و رسالت پر ایمان لانے ،آپ ﷺ کی دعوتِ حق پر لبیک کہنے ، آپ ﷺ کی رفاقت اختیار کرنے اور آپ ﷺ کے لائے ہوئے دینِ برحق کی تعلیمات کی نشرواشاعت میں تن من دھن کی بازی لگا دینے کا حکم دیا گیا ہے، وہاں آپﷺ کی تعظیم و توقیر ، آپﷺ کی تقدیس و تکریم بجالانے کا حکم بھی دیا گیا ہے ۔ارشادِ باری ہے : ’’ (لوگو)تم اللہ اور رسولﷺ پر ایمان لاؤ اور اُن کا ساتھ دو اُن کی تعظیم و توقیر کرو‘‘۔ (سورۃ الفتح )

آپﷺ کے ہر حکم پر سرِ تسلیم خم کرنا ،آپﷺ کے ہر فیصلے کو دل و جان سے قبول کرنا، آپﷺ کی رضا میں اللہ کی رضا جاننا، آپﷺ کی خوشی میں خوش ہونا ،آپﷺ کی ہر ادا پر دل و جان سے فدا ہونا کمال ایمان کی دلیل ہے ۔ بر خلاف اس کے رسول اللہﷺ کے حکم سے سرتابی،آپﷺ کی تعلیمات سے انحراف، آپ ﷺ کے احکام کی مخالفت سخت ترین آفت ناگہانی اور دردناک عذاب الٰہی کا موجب ہے ۔

ارشاد ہے:’’پس جو لوگ اُن کے (رسول اللہﷺ کے) حکم کی مخالفت کرتے ہیں، اُنہیں ڈرنا چاہیے (ایسا نہ ہو کہ )اُن پر کوئی آفت پڑ جائے یا تکلیف دینے والا عذاب نازل ہو جائے‘‘۔ (سورۃ النور۶۳ )

علاوہ ازیں رسول محترم ﷺ کو تکلیف و اذیت پہچانے، آپﷺ کی شانِ رفیع کو مجروح کرنے، آپﷺ کے مقام بلند میں کسی طرح کی جسارت کرنے، آپﷺ کی شانِ عظیم میں گستاخی کا ارتکاب کرنے والا شخص اللہ کے نزدیک بد ترین ذلّت و رُسوائی، ابدی حقارت و تذلیل، شرمناک عذابِ جہنّم کا مستحق ہے ۔ ارشادِ ربّ العزت ہے:’’ یقیناً جو لوگ اللہ اور اُس کے رسول ﷺ کو اذیت دیتے ہیں ،اُن پر دنیا اور آخرت میں اللہ نے لعنت فرمائی ہے اوراُن کے لیے رُسوا کن عذاب مہیّا کر رکھا ہے ‘‘۔(سورۃ الااحزاب )

آپﷺ کی ناموس ،آپﷺ کی عزّت و عظمت کی پاس داری کا درس اگر لینا ہو تو عفراء کے دونوں بیٹوں معاذؓ اور معوذؓ سے لیجئے کہ میدانِ بدر میں تلوار لیے بے چین و بے قرار تھے، اور ہر ایک سے پوچھ رہے تھے کہ ہمیں اُس بد بخت دشمنِ خدا ، ابو جہل کا پتا بتا دو جس نے ہمارے آقا اور مولیٰ ﷺ کی بارگاہ محترم میں گستاخانہ کلمات کہے ہیں، وہ یہ کہتے ہوئے میدانِ کارزار میں حضرت عبداللہ بن عوف ؓ کے قریب کھڑے ہوگئے اور کہنے لگے ،ابو جہل کہاں ہے؟

حضرت عبداللہ بن عوف ؓ نے کہا ،بھتیجے ،تم کیا کرو گے؟ کہنے لگے ہم نے سنا ہے کہ وہ رسول اللہﷺ کی شانِ اقدس میں گستاخی کرتا ہے، اُس ذات کی قسم، جس کے قبضے میں ہماری جان ہے ،اگر ہم نے اُسے دیکھ لیا تو ہمارا وجود اس کے وجود سے الگ نہ ہوگا، یہاں تک کہ ہم میں سے جس کی پہلے موت لکھی ہو، وہ مر جائے ۔ حضرت عبداللہ بن عوف ؓ کہتے ہیں میں یہ سُن کر حیران رہ گیا ۔ ابھی تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ میں نے ابوجہل کو لوگوں کے درمیان چکر کاٹتے ہوئے دیکھا ،میں نے فوراً کہا، دیکھتے نہیں یہ رہا رسول اللہﷺ کا دشمن ابوجہل، فوراً ہی دونوں اُس پر جھپٹ پڑے اور اُس کا کام تمام کردیا۔

خدمت نبویﷺ میں حاضر ہوئے ، عرض کیا کہ اللہ کے رسولﷺ ہم نے ابو جہل کو قتل کردیا۔آپﷺ نے تین مرتبہ ارشاد فرمایا : ’’ اُس ذات کی قسم، جس کے سوا کوئی معبود نہیں‘‘پھر فرمایا’’ اللہ سب سے بڑا ہے ، تمام تعریفیں اُسی کے لیے ہیں ، جس نے اپنا وعدہ سچا کر دیکھایا اور اپنے بندے (محمدرسول اللہ ﷺ ) کی مدد فرمائی اور تنہا سارے گروہوں کو شکست دے دی‘‘ ابوجہل کی لاش دیکھ کر فرمایا ’’ یہ اس اُ مّت کا فرعون تھا‘‘ یہ تھا بارگاہِ رسالت مآب ﷺ میں گستاخی کا عبرت ناک انجام ۔

جوامع الکلام

حضور پرنورﷺ کے کلام کے خصائص میں سے ایک جوامع الکلم بھی ہے کہ کلام الفاظ کے اعتبار سے مختصر لیکن معانی کثیر رکھتا ہو، گویا کوزہ میں دریا سمو دیا گیا ہو،چند ارشاداتِ مبارکہ درج ذیل ہیں:۔

٭…اعمال کا دارو مدار نیت پر ہے۔٭…مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں۔٭…دین سر تا پا خیر خواہی ہے۔٭…(بے جا) گفتگو مصیبتیں پیدا کرتی ہے۔٭…محفل کی باتیں امانت ہیں۔٭…برائی کا چھوڑنا بھی صدقہ ہے۔٭…جس نے ملاوٹ کی،وہ ہم میں سے نہیں۔٭…قناعت ایسا خزانہ ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتا۔٭…لوگوں سے محبت کا برتائو نصف عقل مندی ہے۔٭…جہالت سے بڑھ کر کوئی محتاجی نہیں۔٭…معاف کرنا آدمی کی عزت ہی بڑھاتا ہے۔٭…صدقہ کرنے سے مال نہیں گھٹتا۔٭…مصیبت کا چھپانا نیکی کا خزانہ ہے۔٭…خوش اخلاقی کی مانند کوئی محبت نہیں۔٭…عمدگی سے پوچھنا آدھاعلم ہے۔٭…فاجر وہ ہے جو اپنے نفس کی پیروی کرے اورخدا سے امید وابستہ کرے۔٭…تم میں بہتر وہ ہے جو اپنے اہل خانہ کے ساتھ اچھا ہو۔٭…نان نفقہ میں میانہ روی نصف معیشت ہے۔٭…تدبیر کی مانند عقل نہیں۔٭…تواضع(عاجزی)درجات ہی بڑھاتی ہے۔