بات چل نکلی ہے تو.....

October 18, 2021

معاملات کی حساسیت کے پیش نظر کوشش تو یہی ہوتی ہے کہ سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے، جہاں تک ممکن ہو واقعات کی کڑیوں سے کڑیاں ملا کر فریقین کو سمجھانے کی کوشش کی جائے کہ جس راستے پر وہ چل نکلے ہیں ممکنہ طور پر اس کے اثرات ویسے نہیں جیسی کہ وہ توقع رکھتے ہیں۔ اگر اسی نکتے پر بحث کرلی جائے کہ افغانستان کے تخت پر طالبان کے بیٹھنے سے ہم تن تنہا فاتح عالم گردانے جائیں گے اور اس مفروضے پر پُوری دنیا کو قائل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے تو یہ خام خیالی یقینا ًاب ختم ہو جانی چاہئے کہ خان اعظم اور ملتان کے شاہ صاحب نے اقوام متحدہ سے لے کر ہر چوکھٹ پر اپنا ماتھا رگڑ کر دیکھ لیا کہ کسی نہ کسی طرح دنیا طالبان کے افغانستان میں اقتدار کو تسلیم کرکے ان کی مالی امداد بحال کردے لیکن جواب ندارد، اُلٹا یہ مدعا ہمارے ہی گلے پڑتا جارہا ہے۔ تکلیف اس وقت زیادہ بڑھی جب خان اعظم نے بلا سوچے سمجھے کالعدم ٹی ٹی پی کے ساتھ خفیہ مذاکرات کا اعتراف کیا اور ساتھ ہی یہ پیشکش کردی کہ اگر وہ قومی دھارے میں شامل ہونا چاہتے ہیں تو ہتھیار ڈال دیں ، ان کے تمام گناہ معاف کر دیئے جائیں گے۔ انہوں نے یہ بھی نہ سوچا کہ اے پی ایس میں شہید ہونے والے بچوں کے والدین اور دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں جانیں قربان کرنے والے پاک فوج کے افسروں اور جوانوں کے ورثاءکے دلوں پران کے اس ارشاد سے کیا گزری ہوگی؟ کو ئی تو انہیں سمجھاتا کہ چور چوری سے تو جاسکتا ہے مگر سینہ زوری سے نہیں جاتا۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ افغانستان میں طالبان کے کنٹرول سے پاکستان میں سر گرم کالعدم تنظیموں کو تقویت نہیں ملے گی اور ان کے حوصلے نہیں بڑھیں گے؟ دنیا کی فکر مندی بھی یہی ہے کہ اگر آج افغان طالبان کے اقتدار کو قبول کرلیا تو دنیا بھر میں سرگرم مسلح تنظیموں کی حوصلہ افزائی ہوگی اور یہ تمام مسلح تنظیمیں سپر پاورز کیلئے ایک نیا چیلنج بن کر ابھریں گی۔ خان اعظم کو پہلے ہی دن سے یہ مشورہ دیا جارہا تھا کہ افغان طالبان کی حمایت میں اس حد تک آگے نہ بڑھیں جہاں سے واپسی ممکن نہ ہو۔ وقت کا انتظار فرمائیں ، سرعام افغانستان کی آزادی کے نعرے نہ لگائیں، آج خان اعظم کی اس سوچ نے طاقت ور حلقوں کو بھی بڑی مشکل میں ڈال دیا ہے۔ اب فیصلے کی وہ گھڑی آگئی ہے جہاں طے ہوگا کہ خان اعظم کی حکومت اور معیشت کہاں کھڑی ہے؟ تین سال میں جو بویا تھا شاید اسے کاٹنے کا وقت آرہا ہے۔ اللہ رحم فرمائے ایسا وقت نہ آئے کہ ہم کسی نئے امتحان میں پڑ جائیں اور خان اعظم کے سب خواب چکنا چور ہو جائیں اور پھرسارا نزلہ ماضی کے حکمرانوں پر گرادیا جائے کہ سب انہی کا کیادھرا ہے۔ افسوس اس بات پر بھی ہے کہ ایک طرف تو ہم خارجی محاذ پر برُی طرح پٹ رہے ہیں تو داخلی محاذ سے بھی کوئی خیر کی خبر نہیں آرہی۔ پانی پلوں سے گزر چکا ہے۔ صاحبان اقتدار بدستور اپنی ہٹ پر قائم ہیں۔ پارلیمنٹ کو خاطر میںلاتے ہیں نہ ہی کسی اپوزیشن رہنما سے رابطہ کرنے کو تیار ہیں۔ اہم معاملات پر اعتماد میں لینا تو دُور کی بات ہے۔ قانون سازی، سیاسی مشاورت نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی۔ خان اعظم حساس خارجی و داخلی معاملات میں اگر اپوزیشن کو ساتھ لے کر نہیں چلیں گے تو اس کا دوہرا نقصان کسی کی ذات نہیں صرف پاکستان کو ہوگا۔ آپ تین سالہ دور اقتدار کا تجزیہ کرلیں کسی بھی معاملے پر اپوزیشن کی بڑی جماعتو ںکو کسی بھی مرحلے میں اہم خارجی و داخلی امور پر اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ افغانستان کے موجودہ حالات میں بڑے مولانا صاحب کافی حد تک معاون ثابت ہوسکتے تھے مگر مقتدرکسی بھی حلقے نے ان سے رجوع کرنا گوارا نہیں کیا۔ ہر اہم مرحلے میں پارلیمنٹ کو بائی پاس کرکے صدارتی آرڈیننسوں کے سہارے حکومتی گاڑی چلانے کی کوشش کی گئی خصوصاً چیئرمین نیب کی مدت ملازمت میں تا حکم ثانی توسیع کا ایک ایسا متنازعہ آرڈیننس جاری کر دیا گیا جس کا واضح مقصد اپوزیشن کو بدستور دباؤ میں رکھنا اور تین سالہ عمرانی دور حکومت کے تمام کارپردازوں کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔ اب یہ کہانی نئے پاکستان سے شروع ہو کر پرانے پاکستان کی بربادی پر ختم ہو رہی ہے۔ یہ تمام تر بوجھ طاقت ور کندھوں پر آن پڑا ہے۔ نئی صف بندی کے نتیجے میں اسلام آباد، راولپنڈی کے درمیان فاصلے بڑھ رہے ہیں۔ شدید تناؤ کی کیفیت محسوس کی جارہی ہے اور فکر مندی یہ ہے کہ آنے والے چند ہفتوں میں امریکہ اور اس کے زیر اثرعالمی مالیاتی ادارے پاکستان کے ساتھ کیا سلوک کریں گے اور اگر انہوں نے ایسا کوئی سخت فیصلہ صادر کردیا جس کے نتیجے میں پاکستان شدید مالی بحران کا شکار ہوا تو اس کا متبادل کیا ہوگا؟ بات چل نکلی ہے تو بہت دور تک جائے گی۔ لیکن آپ نے گھبرانا نہیں۔