• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کتابیں پڑھنے والے نایاب ، جوتوں کی سیل کے ریکارڈ بن گئے

Books Read Rare Shoes Were Recorded Cell
مدیحہ بتول ....پشاور میں سب سے قدیم اور سب سے بڑی کتابوں کی دکانیں جہاں ادب اور تاریخ کا ایک سمندر موجود تھاوہ اب بند کر دی گئیں ہیں۔ ان ’بک اسٹورز‘ میں گاہکوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر تھی۔

شہر کے دو بڑے بک اسٹورز’شاہین بک اسٹور‘ اور’ سعید بک بینک‘ پرکتابوں کی فروخت پرپچاس فیصد رعایت کی پیشکش کےباوجودشاید ہی کوئی خریدارنظر آتا تھا ایسے میں دکان دار اپنا کاروبار بند کرنے پر مجبور ہو گئے۔

دکاندار وں کا کہنا ہے کہ اب کتابیں پڑھنے والے نایاب ہوگئے جبکہ جوتوں کی سیل کے ریکارڈ بن گئے ۔

المیہ یہ ہے کہ شہر میں ’ برانڈڈ ‘ کپڑوں اور جوتوں پر سیل لگتی ہے توخریداروں کی بھیڑ اکھٹا ہوجاتی ہے لیکن اسی شہر کی اسی مارکیٹ میں کتابوں کی سیل لگے تو کوئی جھانکنے کی بھی زحمت نہیں کرتا۔

شاہین بک اسٹور کےداخلی دروازے پر اسٹور کے مالک کی طرف سے سیاہ پوسٹر پرلکھا دلخراش پیغام دیکھا جا سکتا ہےجو اس نے اسٹور بند ہوجانے کے بعد ہر گزرنے والے کے لیے چھوڑا ہے۔ستم ظریفی یہ ہےکہ ایک دو کے سواکوئی اس پیغام پر بھی نظر دوڑانے کی تکلیف نہیں کرتا۔

اس پیغام کے الفاظ یہ ہیں،’پورا معاشرہ جہالت کی وجہ سے اخلاقی زوال ،حماقت ، انتہاپسندی اور دہشت گردی کی گرفت میں ہے۔لوگوں میں اب پڑھنے کی عادت ختم ہو چکی ہے جس کی وجہ سےلائبریریوں اور کتابوں کی دکانوں کی ہمارے معاشرے میں کوئی اہمیت باقی نہیں رہی۔ان حالات کے تحت ہم اپنی کتابوں کی دکان کو بند کرنے پر مجبور ہیں۔‘

اگرچہ ڈیجیٹل میڈیا نے ہمارے پڑھنے کے انداز تبدیل کر دئیے ہیں مگر ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ پشاور کے شہریوں نے اس تبدیلی کے اثرات محسوس کیے ہیں ۔کتابیں پڑھنے کےبعض شوقین حضرات نےسوشل میڈیا پر اس فیصلے پر رد عمل کا اظہار بھی کیا ہے۔
تازہ ترین